مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

بہار میں مسلمانوں کا ورود

بہار میں مسلمانوں کا ورود

✍️ محمد طارق زماں

______________________

تاریخ دانوں کے مطابق، مسلمانوں کا بہار میں ورود تقریباً 1300 عیسوی کے آس پاس ہوا۔ تاہم، دوسری جانب، 1263 عیسوی کو، تاریخ دانوں نے مَخدوم جہاں کی پیدائش کا سال درج کیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا بہار ورود 1300 عیسوی سے قبل کا ہے، کیونکہ مَخدوم جہاں کا جنم منیر شریف میں ہوا تھا۔ ان کے اجداد میں سب سے پہلے ان کے پردادا، حضرت امام محمد تاج فقیہ، تھے، جو شام (سیریا – کچھ کتابوں میں فلسطین بھی لکھا ہے) سے ہجرت کر، منیر شریف (بہار) تشریف لائے تھے۔

تاریخ کی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بڑے پیر شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ اور مخدوم جہاں کے پردادا امام محمد تاج فقیہ ہم عصر تھے-اور خواجہ غریب نواز اجمیری کا بھی دور تقریباً-تقریباً یہی تھا-( آگے اس پہ کچھ تفصیلات موجود ہیں -)

مَخدوم جہاں اور حضرت محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیاء کا دور تاریخ دانوں نے ایک ہی بتایا ہے یا کہہ لیں یہ دونوں بزرگ بھی ہم عصر تھے۔

دہلی میں مسلمانوں کا ورود بہار سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ جو لوگ بھی ہندستان آئے، وہ یا تو پنجاب کے سرحدی علاقوں سے یا کشمیر کے راستے،الا کیرالہ اور کونکن (گجرات) کی تاریخ کو چھوڑ کر۔ اسی طرح بہار آنے والے لوگ بھی دہلی ہوتے ہوئے ہی یہاں آئے تھے۔ مَخدوم جہاں کے، تقریباً ڈیڑھ سے ڈھائی سو سال بعد، عظیم آباد، داناپور، پھلواری شریف، شَہسرام، امجھر شریف، اَرول، دیورا، ہلسا، اسلام پور، فتوحہ، راجگیر، نوادہ اور بہار کے دیگر علاقوں میں اولیاء اللہ اور ان کے پیروکاروں کے ورود کی تاریخ ملتی ہے۔ کچھ صوفی مَخدوم جہاں کے ہم عصر بھی تھے جن میں مَخدوم راستی (پھلواری شریف)، ابراہیم بیا وغیرہ شامل ہیں۔

حقیقتاً منیر اور بہار شریف کو ہی مسلمانوں کی "سب سے پرانی بستی” کہا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ منیر کا حقیقی نام تاریخ میں "شاہ پور منیر” ہے مگر اب صرف منیر سے جانا جاتا ہے۔

کتابوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مَخدوم جہاں کے پردادا سے بھی پہلے منیر میں مسلمان موجود تھے، چونکہ جب امام تاج فقیہ نے اذان دینا چاہا تو وہاں کے ایک مسلمان نے انہیں روکا کہ یہاں کا بادشاہ بہت ظالم ہے، پریشان کرے گا۔

(اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان بزرگ جنہوں نے امام تاج فقیہ رحمۃ اللہ علیہ کو اذان دینے سے روکا، وہ بھی عرب نسل ہی ہونگے۔)

اگر ہم مَخدوم جہاں اور ان کے پردادا کے درمیان کے وقت کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کی کچھ آبادی جنوبی بہار میں آباد ہو چکی تھی۔ آبادی بہت کم تھی، اس لیے ان کا استحصال بھی خوب ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں کچھ لوگ دھیرے دھیرے اسلام مذہب کو اپنانے بھی لگے تھے۔

بہار کے فاتح، ملک ابراہیم بیا، افغانستان کے غزنی سے اپنے فوجی دستے کے ساتھ ممکنہ طور پر 1300 عیسوی کے آغاز میں یا اس کے آس پاس بہار آئے۔ انہوں نے یہاں کے ظالم حکمرانوں اور چول خاندان کے حکمران سے لڑائی لڑی اور شہید ہوئے۔ ملک ابراہیم بیا کے زمانے میں اولیاء اللہ اور ابدال کا سلسلہ بڑھا، جو مختلف علاقوں میں مذہب کا پرچار کرنے کے لیے پھیل گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک ابراہیم بیا کا نمازِ جنازہ مَخدوم جہاں نے ہی پڑھایا تھا۔

ملک ابراہیم بیا کے تقریباً دو سو سال بعد شیر شاہ سوری (فرید خان) کا اقتدار شروع ہوا، جو تقریباً پانچ سال تک چلا۔ بابر اور شیر شاہ سوری کے ابتدائی تعلق سے لے کر تعلق بگڑنے تک کے بارے میں سب پڑھے لکھے لوگ جانتے ہی ہیں۔

میرے مطابق، در حقیقت مسلمانوں کا بہار میں بسنا اور گاؤں-گاؤں میں پھیلنا اور جنگلوں کو کاٹ کر بستیوں کا قیام ملک ابراہیم بیا کے زمانے سے شروع ہوا اور شیر شاہ سوری کے اقتدار میں تیزی سے بڑھا، خاص کر جنوبی بہار میں۔ اس وقت ہندو مذہب کے بجائے بودھ مذہب کا زیادہ اثر تھا، اور اسی وجہ سے یہ صوبہ بہار (ویہار/بہار) کے نام سے مشہور ہوا۔

اگر اب تجزیہ کیا جائے تو بہار میں مسلمانوں کا ورود ہوئے تقریباً 1000 سال ہو چکا ہے۔

خود مَخدوم جہاں کے پردادا تاج فقیہ، خواجہ غریب نواز سے پہلے منیر (بہار) آ کر آباد ہو چکے تھے، حالانکہ وہ منیر میں عمر بھر نہیں رہے، واپس اپنے وطن لوٹ گئے، جیسا کہ تاریخ دانوں نے لکھا ہے۔

"آثارِ منیر” کے مصنف مولانا مراد اللہ منیری کے حوالے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امام محمد تاج فقیہ 576 ہجری میں منیر آئے تھے، وہیں تاریخ دانوں نے خواجہ غریب نواز (رحمۃ اللّٰہ) کا ہندوستان ورود 586 ہجری درج کیا ہے۔ یعنی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خواجہ غریب نواز سے دس سال پہلے ہی بہار میں مسلمان آباد ہو چکے تھے۔

اور بھی مختلف کتابوں کے مطالعے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بہار میں مسلمان، خواجہ غریب نواز کے ہندوستان آنے سے پہلے ہی آباد ہو چکے تھے۔

▪️ بابر کا منیر شریف آنا

دسویں جماعت تک اسکول میں تاریخ پڑھی ہے اور خاص کر بابر کے بارے میں خصوصی دلچسپی سے پڑھی۔ لیکن آج مولوی فصیح الدین بلخی (رحمۃ اللّٰہ) کی ” تاریخِ مگدھ” پڑھتے وقت صفحہ 174 سے یہ معلوم ہوا کہ بابر 936 ہجری میں منیر شریف بھی آیا تھا اور وہاں کچھ دن رہا۔ اس نے مَخدوم یحییٰ منیری کے مزار کی زیارت کی، مسجد میں نماز ادا کی اور بہت سارا خیرات کیا۔ پھر بھوجپور ہو کر پانچویں رمضان کو آگرہ واپس آ گیا۔

▪️ بختیار خلجی کا منیر شریف پہنچنا

ہم نے اوپر میں بابر کے منیر شریف آنے اور یحییٰ منیری کے مزار کی زیارت کا ذکر کیا تھا۔ جب سید شاہد اقبال کی کتاب "تذکرہ مَہدَانواں” پڑھ رہا تھا، تو صفحہ 20 سے پتہ چلا کہ بابر سے کئی سو سال پہلے، 590 ہجری/1192 عیسوی کے آس پاس بختیار خلجی منیر پہنچا تھا۔ اسے یقین نہیں ہوا تھا کہ بہار میں اسلام اس کے ورود سے پہلے ہی موجود تھا۔

مولانا سید شاہ مولانا مراد اللہ منیری اپنی کتاب "آثار منیر” میں لکھتے ہیں:

"بختیار خلجی کا ورود جب بہار میں ہوا، اس وقت منیر شریف کی حکومت حضرت سلطان مَخدوم سیدنا شیخ یحییٰ منیری کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اپنی خواہش سے منیر کی حکومت بختیار خلجی کو سونپ دی۔ انہوں نے کہا کہ میں مسلمانوں کا مال نہیں لیتا۔ آپ نے کہا کہ بادشاہی اور ریاست وراثت نہیں ہیں، یہ اللہ کی دین ہے۔ اللہ جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں۔ یہ بوجھ مجھ سے نہیں اٹھے گا، عبادت میں رکاوٹ آتی ہے۔ پھر آپ نے عدل و انصاف کی صلاح دی اور منیر کی حکومت ان کے حوالے کر دی اور خود تنہائی میں چلے گئے اور اللہ کی یاد میں مصروف ہو گئے۔”

مضمون کے ذرائع:

▪️ تاریخِ مگدھ – فصیح الدین بلخی

▪️ آثارِ منیر – مراد اللہ منیری

▪️ تذکرہ مَہدَانواں – شاہد اقبال

▪️ جریدہ الواقعہ – تنزیل صدیقی

▪️ ہسٹری آف صوفیزم – اطہر عباس

▪️ بھارت کا تاریخ

▪️ دیگر مضامین و کتابوں کے ذریعے بھی…

نوٹ:

یہ مضمون میرے ذاتی مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کوئی اس سے اختلاف بھی کرے یا کسی بھی قسم کی کوئی غلطی دکھے تو، براہِ کرم، میری رہنمائی فرمائیں، میں شکر گزار رہوں گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: