مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

یوم اردو کا پیغام اردو والوں کے نام

یوم اردو کا پیغام اردو والوں کے نام

تحریر: محمد عمر فراہی

___________________

مغرب کے نئے ورلڈ آرڈر کی ایک بدعت یہ بھی ہے کہ پرانی روایتوں کے وقار اور احترام کو اس کے اصل پر بحال رکھنے کے لئے ہر سال اسے یاد کرنے کی ایک رسم منائی جاۓ جسے انگلش میں ڈے کہتے ہیں ۔مثال کے طور پر فادر ڈے مدر ڈے یوم خواتین یوم مزدور یوم اطفال وغیرہ وغیرہ ۔انہیں روایتوں میں سے یوم اردو منانے کی رسم بھی ہے ۔ان روایتوں کی ہر سال یاددہانی کا مطلب ہے اس کی اصل شبیہ اور شکل برقرار رہے ۔مگر سچائی یہ ہے کہ اب پرانی روایتیں اور قدریں صرف احترام کی حد تک ہی محدود رہ گئی ہیں اور جس طرح جدید مادی تہذیب نے لوگوں کے ذہنوں کو مفاد پرستی کی طرف مائل کیا ہے ہمارے معاشرے کی بہت سی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔

اردو کو ہی لے لیجئے ۔یہ اتنی شیریں اور نفیس زبان ہے کہ بھارت میں پچھلے پچاس سالوں میں بھارتی فلم انڈسٹری نے اردو اور اردو کے شعراء کے گیت اور نغمے کی وجہ سے ہی شہرت حاصل کی اور خوب ترقی کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان میں بہت سارے انگلش کے الفاظ اس لئے مستعمل ہو گئے ہیں کیوں کہ بہت ساری جدید ایجادات جو انگریزوں کے دور میں ہوئی وہ مغلوں کے دور میں متعارف نہیں ہوئی تھیں جیسے کہ بھاپ سے چلنے والے انجن کی جب ایجاد ہوئی تو اسی انجن سے چلنے والی گاڑی کو ٹرین کہا گیا اور اسے دوڑانے کے لئے جو لوہے کی پٹریاں بچھائی گئیں اسے انکلش میں railway line ریلوے لائن کہا گیا۔ لوگوں کے لئے یہ ایک نئی چیز تھی اور انگریزوں نے اسے اپنی زبان میں جب اس کا انگلش نام رکھا ٹو یہ لفظ ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی رائج ہو گیا۔اسی طرح مسافروں کو ٹھہرنے کے لئے جو مستقر یا اڈے بنائے گئے اسے اسٹیشن پکارا گیا اور پھر یہ نام بھی بھارت کی ہر زبان میں شامل ہو گیا ۔چونکہ اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ نہیں تھا یالوگوں کی زبان پر عام زد ہو گیا اس لیے اس کے استعمال میں کوئی کراہیت نہیں ہوتی ۔اسی طرح بہت سارے انگلش کے الفاظ جو ہم عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں جو اچھے بھی لگتے ہیں تو یہ الفاظ بھی بولنے اور لکھنے میں معیوب نہیں سمجھے جاتے۔

Such as Dolly ،بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی کی جگہ پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کو بس ،کار ٹمپو یا رکشا کہا جاتا ہے اور ہوائی جہازوں میں مسافروں کی خدمات انجام دینے والی لڑکیوں کو ایئر ہوسٹس air hostess اور جہاز چالک کو پائلٹ کہتے ہیں اور یہ لفظ دوسری زبانوں میں بھی استمعال ہوتا ہے۔

ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو میں انگلش کا استعمال برا نہیں ہے اور جس طرح ہمارا ہندوستانی معاشرہ ہندی عربی انکلش اور اردو زبان کا مخلوط گہوارہ بن چکا ہے کبھی کبھی عام بول چال میں فوری طور پر جو ہم کہنا چاہتے وہ لفظ ذہن میں نہیں آ پاتے تو ہم اکثر انکلش اور ہندی کے متبادل الفاظ کا استعمال کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس وقت ہے اور اردو کے متبادل آسان لفظ موجود ہیں یا جب آپ کسی سے خط و کتابت یا مضمون کے ذریعے مخاطب ہوتے ہیں تو وہاں پر بلا وجہ کے انگلش کے استعمال سے اردو کا دامن میلا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

جیسے کہ تصویر کے ایک اشتہار میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے پورے اشتہار میں اردو کے بہت ہی پیچیدہ اور نفیس جملوں کا استعمال کیا گیا ہے جو اردو کے طالب علم کو بھی شاید سمجھنے میں مشکل پیش آئے لیکن کچھ مقامات پر انکلش کے الفاظ کے استعمال سے نہ صرف اس اشتہار کی خوبصورتی اور نزاکت ماند پڑ جاتی ہے یہ اشتہار اردو ادب کے مجاہدین پر بھی سوالیہ نشاں کھڑا کر دیتا ہے کہ اگر ہم اردو ادب یا محفل کے فروغ کے لیے کوئی تقریب منعقد کر رہے ہیں تو بجاۓ اس کے کہ جو انکلش کے الفاظ ہمارے ادب میں مجبورا مستعمل ہو گیے ہیں ان کا بھی متبادل لفظ ایجاد کریں نہ کہ روز روز اردو میں ہی انکلش کے نئے نئے الفاظ داخل کرکے اردو کو انگلش کا محتاج بناتے جائیں !
جیسا کہ ایک اشتہار کا عنوان ہے
نفیسہ عظیم اردو محفل کے زیر بینر
یہاں پر Baner کے استعمال کی جگہ زیر سرپرستی یا زیر نگرانی بھی ہو سکتا تھا ۔محفلیں تو بہادر شاہ ظفر اور غالب کے دور میں بھی سجائی جاتی تھیں ۔کیا اس وقت کسی محفل یا تقریب کی شروعات اور آغاذ کے آداب و القاب نہیں تھے ؟۔خیر پھر بھی بینر بھی آج کل مستعمل ہو چکا ہے لیکن خالص اردو ادب کی محفل میں انگلش کے الفاظ کا استعمال ضرورت کے تحت ہی کیا جاۓ تو بہتر ہے ۔

اسی طرح اگر آپ کے پاس کسی ادیب یا ادیبہ کی عزت افزائی کے لئے زی وقار جیسے اردو کے الفاظ و القاب موجود تھے تو کنوینر جیسے انکلش لفظ کے استعمال کی بجاۓ نظامت کا استعمال کر لینے میں کیا مشکل تھی ؟

اسی طرح اس اشتہار کا جملہ کہ ناظم ذی وقار پروگرام کا کنڈکشن conduction کریں گے کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے

۔
اب دوسرے اشتہارات پر بھی ذرا ایک نظر دوڑائیں ۔ایک اشتہار میں فری میڈیکل کیمپ لکھا گیا ہے جبکہ یہاں اردو کا آسان لفظ مفت بھی لکھا جاسکتا تھا ۔اسی طرح آج کل کسی بھی دینی اور اصلاحی اجتماعات کے لئے convention اور conference لکھنے کی روایت عام ہے جبکہ اردو میں اس کا متبادل لفظ جلسہ یا اجلاس موجود ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ بھارت میں کہیں اردو شعراء مشاعرہ ہوتا ہے تو اشتہار میں آل انڈیا مشاعرہ لکھا جاتا ہے جبکہ اس کا بھی متبادل لفظ کل ہند موجود ہے ۔یہاں کسی پر تنقید ہمارا مقصد نہیں ہے مگر یوم اردو کی نسبت سے اردو والوں کی توجہ مبذول کرانا ہے کہ ہم انگلش اور مغربی تہذیب سے اتنا مرعوب کیوں ہیں کہ اپنی خالص دینی ادبی اور اصلاحی محفلوں میں بھی اپنی زبان کو انکلش کا محتاج بنانے پر مجبور ہیں ۔اس کے برعکس کیا انکلش والے بھی اپنی زبان میں اردو کا لفظ استمال کرتے ہیں ؟
بات بہت چھوٹی ہے لیکن ہماری یہ روش ہماری مرعوب ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم آج بھی مغرب کے غلام ہیں !

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: