پچاسویں برس پر خاص
ابّا کی کہانی
از: معصوم مرادآبادی
___________________
ابّا …………. تھے تو وہ ہمارے نانا، لیکن ہم سب گھر میں انھیں اسی مختصر نام سے پکارتے تھے۔ہم ہی کیا وہ پورے خاندا ن کے ابّا تھے۔ ہر چھوٹا بڑا انھیں اسی نام سے پکارتا اور ہماری نانی کو امّاں کہتاتھا۔
جب آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے 18 نومبر 1974 کو میرے نانا منشی عبدالقیوم خاں کا وصال ہوا تو میری عمر کوئی بارہ برس تھی، لیکن اس زمانے کی بہت سی باتیں آج بھی یاد ہیں۔ ان یادوں کے نقوش دھندلے ضرورپڑگئے ہیں، لیکن ذہن کے اسکرین سے مٹے نہیں ہیں۔یہ وہ دور تھا جب ہمارے نانا کلکتہ، دہلی اور بجنور کی مصروفیتوں سے فارغ ہوکر مرادآباد میں مقیم تھے اور کبھی کبھی کتابت کا کوئی کام کرلیا کرتے تھے۔ وہ پیلے مسطر پرایک مخصوص روشنائی اور باریک نبوں کی مدد سے اپنے فن کا جوہر دکھاتے تھے۔یہ لیتھو کی کتابت کہلاتی تھی۔ جس قلم دان میں وہ اپنے باریک قلم رکھتے تھے، وہ میرے حصے میں آیا اور آج بھی محفوظ ہے۔
دہلی سے ہماری ننھیال کا ایسا تعلق تھا کہ مرادآباد میں ہماری نانی "دلّی والی” کہلاتی تھیں کہ ان کی عمر کا بیشتر حصہ دہلی کے قرول باغ اور مٹیا محل میں گزرا تھا۔سب سے قریبی تعلق مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی فیملی کے ساتھ تھا کہ قرول باغ میں ہمارے نانا اور مفتی صاحب پڑوسی تھے۔پھر ندوۃ المصنفین اور ماہنامہ’برہان‘ سے ان کا طویل تعلق رہا تھا۔
مرادآباد میں ہمارا پورا خاندان آباد تھااور ہرکسی کو ہمارے ابّا اور امّاں سے ایسی انسیت تھی کہ ہرایک ان کی دعائیں لینے آتا۔ ایک طرف جہاں ہمارے نانا جہاں بہت سیدھے سادے، کم گو اور گوشہ نشین قسم کے انسان تھے تو وہیں ہماری نانی خاندان کے معاملات میں اس حد تک دخیل تھیں کہ وہاں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔ہرکوئی ان سے مرعوب تھا۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے بیٹے کا رشتہ کہیں نہیں لگ پارہا ہے اور لڑکی والے نائیں نکر کررہے ہیں تو وہ سیدھا ہماری امّاں کے پا س آتا اور وہ لڑکی والے کو بلاکر ایسی ڈانٹ پلاتیں کہ وہ ہتھیار ڈال دیتا۔ مجال ہے کہ کوئی ہماری امّاں کے سامنے بولنے کی جرات کرسکے۔ انکار کرنے والے کو ٹٹو کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔
امّاں کے برعکس ابّا کو اپنے کام کے علاوہ کسی چیز سے کوئی شغف نہیں تھا۔وہ ہر و قت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے یا پھر مطالعہ میں مصروف نظر آتےتھے۔ان کی زندگی اور معمولات میں نظم وضبط کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ وہ اپنی صحت کے تعلق سے بھی بہت محتاط تھے۔ کھانا بہت چباکر کھاتے اور آنتوں کا کام بھی دانتوں سے لیا کرتے تھے۔ ان احتیاطوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 86 برس کی عمر میں جب ان کا انتقال ہوا تو سارے دانت سلامت تھے۔ انھوں نے کبھی چشمہ استعمال نہیں کیا۔ باریک سے باریک کتابت بھی چشمے کے بغیر ہی کیا کرتے تھے۔ ہاں عصر کے بعد سورج کی روشنی میں لکھنے پڑھنے کا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اس کے لیے انھیں بلب کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ عصر کے بعد مصنوعی روشنی کے بغیر لکھنا پڑھنا آنکھوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔
میں اکثر اپنی والدہ کے ساتھ نانی کے گھر جاتا توخواہ مخواہ ابّا کی کتابوں اور کاغذات سے چھیڑ چھاڑ کرتاتھا۔حالانکہ بچپن میں ان چیزوں کی اہمیت کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، لیکن نہ جانے کیوں ناناکی چیزوں سے ایک قدرتی شغف تھا۔آج جب ان کے بیشتر قیمتی کاغذات، ڈائریاں اور خطوط میرے ہاتھ لگے ہیں تو میں انھیں اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تصور کرتا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ ان چیزوں سے ساری دنیا آشنا ہوجائے۔ اسی کوشش میں، میں نے ان پر ایک کتاب مرتب کی ہے، جو جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔
انتہائی نازک خدوخال والے ہمارے ابّا کا ظاہری قد تو چھوٹا تھا، لیکن جب ان کے خاموش کارناموں کا احاطہ کرتا ہوں تو مجھے اس وقت دنیا میں ان سے زیادہ بلندقامت شخص کوئی نظر نہیں آتا۔ انتہائی سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھی ہمارے ابّاکی۔ میں نے انھیں کبھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی غضب ناک شخصیت کے مالک ہوں۔ وہ موم سے زیادہ ملایم اور نرم تھے۔ کبھی کسی بات پر غصہ نہیں ہوتے تھے اور ہرحال میں خوشی اور اطمینان کی زندگی کے قائل تھے۔ دولت وثروت اور شہرت سے انھیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ انھوں نے زندگی میں کوئی گھر نہیں بنایا ۔ ساری عمر کرائے کے مکانوں میں رہے۔ مٹیا محل میں وقف بورڈ سے ایک کشادہ مکان کرائے پر لیا۔ کچھ دن کے لئے مرادآباد جاتے ہوئے اپنے ایک شاگرد کو اس میں رکھ گئے۔ جب واپس آئے تو شاگرد نے کہا کہ اب تو اپنے بیوی بچوں کو لے آیا ہوں۔ ابا نے اس سے کچھ نہیں کہا اور دوسرے مکان کی تلاش میں نکل پڑے۔ ان کی طبیعت میں استغنی بہت تھا۔ پیسے سے بھی کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ اسی لئے کچھ جمع نہیں کیا ۔آخری عمر میں علاج معالجہ بھی سرکاری اسپتالوں میں ہوا اور وہ بھی اس وقت جب ان اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہوا کرتی تھی۔حالانکہ وہ اپنے عہد کے عظیم انسانوں کے رابطے میں تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذات کے لیے کسی سے کوئی مدد طلب نہیں کی۔ یہ ان کے مزاج اور ضمیر کے خلاف تھا۔
میں جب بھی اپنے نانا کے گھر جاتا تو بڑا سکون اور طمانیت محسوس ہوتی تھی۔وہاں ہر چیز بہت سلیقے اور قرینے سے رکھی ہوتی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر طبیعت بہت سیراب ہوتی تھی۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے زندگی اور اس کے معاملات کا کوئی شعور نہیں تھا، لیکن سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی چیزیں دیکھ کر دل اندر اندر خوش ہوتا تھا۔اگر مجھے ذرّہ برابر بھی یہ احسا س ہوتا کہ کبھی اس ٹوٹے پھوٹے قلم سے ابّا اور ان کی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنا بھی ہوگا تو میں انھیں اور ان کی چیزوں کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا، مگر اس وقت میری بساط ہی کیا تھی۔
اپنی والدہ کی زبانی ابّا کی حصولیابیوں کے قصے سنتا توبہت سی چیزیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، مگر ہاں یہ احساس ضرور ہوتا تھا کہ ابّا کوئی خاص آدمی ہیں ۔ امّی اکثر کہا کرتی تھیں کہ ایک بار ابّا کو قلات کے بادشاہ نے بلایا تھا اور بہت سے تحفے تحائف دئیے تھے۔ ہمارے ابّا ملک کے نامی گرامی خطاط تھے اور انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عبقری شخصیت کے ساتھ کام ہی نہیں کیا بلکہ اپنی صلاحیتوں سے انھیں اس درجہ متاثر کیا کہ وہ اپنا کتابت کا ہرکام انھیں سے کرانا چاہتے تھے۔ وہ ڈیڑھ سال تک مولانا آزاد کے ساتھ کلکتہ میں رہے اور وہاں ’ترجمان القرآن‘ کی کتابت کی۔ اس کے بعد ’غبارخاطر‘ کی کتابت کے لیے بھی مولانا آزاد نے ابّا کو ہی یادفرمایا۔ان کی علمیت اور اپنے فن پر مکمل عبور کا ہی نتیجہ تھا کہ ابّا سے ایسی شخصیات متاثر تھیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی تو انھیں اپنا بھائی کہا کرتے تھے۔
ابّا نے کو ئی بارہ سال اخبار’مدینہ‘ بجنور میں کام کیا اور وہیں ان کا قیام بھی رہا۔ میرے بڑے ماموں مولانا عبدالملک جامعی کی ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں ہوئی۔ میری والدہ کی پیدائش بھی بجنور میں ہوئی۔وہ اکثر مدینہ پریس سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالہ ’غنچہ‘ کا ذکر کرتی تھیں۔ ’مدینہ‘ اخبار کے مالک ومدیر مولوی مجید حسن سے ابا کے قریبی مراسم تھے اور وہی انھیں مرادآباد سے بجنور لے گئے تھے۔’مدینہ‘ اخبار کے مشہور ومعروف مدیران گرامی ابّا کے بڑے قدردان تھے۔ اس کے بعد وہ دہلی آگئے اور یہاں انھوں نے مختلف اخبارات وجرائد میں کام کیا۔ ان میں سب سے زیادہ وابستگی ’برہان‘ کے ساتھ رہی۔ اس کے علاوہ دیوان سنگھ مفتون اور حافظ علی بہادر خان کے اخباروں میں بھی کام کیا۔
ابّا کو اردو کے علاوہ عربی ، فارسی ، ترکی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا ۔ انھیں علم فلکیات اور جغرافیہ سے غیرمعمولی دلچسپی تھی۔ دیانتداری کا عالم یہ تھا کہ مولانا آزاد سے ترجمان القرآن کی کتابت کے سلسلے میں یومیہ جو اجرت طے ہوئی تھی، جب اتنا کام نہیں کرسکے تو مولانا آزاد سے اپنی اجرت کم کرنے کے لئے کہا۔