مہاراشٹر الیکشن کے نتائج

از: سید احمد انیس ندوی

___________________

مہاراشٹرا الیکشن کے نتائج پر وہاں کے ذمہ دار تجزیہ نگار اور صحافی حضرات بے لاگ لکھیں گے اور سہی صورت حال سے واقف کرائیں گے۔ اس شکست فاش کے مختلف اسباب ہیں، اور صرف کسی ایک سبب کو اس شکست کی اصل وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مولانا سجاد نعمانی صاحب اس الیکشن میں بہت کھل کر سامنے آۓ تھے۔ مولانا کے اس طرز عمل سے ملت کے اکثر اہل دانش کو سخت اختلاف تھا، اور انھوں نے اسی وقت سے اپنے اختلاف اور تحفظات کا اظہار شروع بھی کر دیا تھا۔ اکثر و بیشتر افراد کا یہی کہنا تھا کہ مولانا کو خاموشی کے ساتھ صرف اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انھوں نے لوک سبھا انتخابات میں کیا تھا ، اور اس کے مثبت نتیجے سب کے سامنے بالکل واضح تھے۔
مزید پریس کانفرنس کر کے انھوں نے بطور خاص ایم وی اے کے جن امیدواروں کی تائید کی, مسلمان متفقہ طور پر پہلے سے ہی تقریبا ان تمام امیدواروں کی تائید کا عزم کر چکے تھے ، اس لیے اس طرح کھل کر اس تائید کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
مولانا کے بیانات کو میڈیا نے جس طرح اچھالا اور اس پر جس طرح ڈبیٹ ہوئیں، اس کا شاید خود مولانا کو بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے ایک مرتبہ یوپی اسیمبلی انتخابات میں بھی وہ وامن میشرام کے ساتھ مل کر اسی طرح لسٹ جاری کر چکے ہیں, اور تب کوئی خاص ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔
البتہ مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی جاری کردہ لسٹ سے زیادہ ان کے بیان کا وہ حصہ خطرناک ثابت ہوا جس میں انھوں نے اس الیکشن کے مثبت نتیجے کے بعد مرکزی حکومت تک کی تبدیلی کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد پھر ان کے پچھلے بیانات بھی میڈیا میں اچھالے گۓ۔
مجھے مولانا کے مشیروں اور سروے ٹیم کے ممبران سے ضرور سوال کرنا ہے جنھوں نے اپنی رپورٹ مولانا کو پیش کی، اورنگ آباد سیٹ پر مولانا نے جس امیدوار کو سپورٹ کیا وہ محض 6000 ووٹ لا پایا ہے۔ نتیجہ دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ زمینی سطح پر کوئی رپورٹ نہیں تیار ہوئی بلکہ چند مشیروں نے اپنے مخصوص ماحول میں معلومات لے کر آگے بڑھا دیں۔ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن ہر شخص کو ظاہری طور پر یہی محسوس ہوگا۔
ایک بات اور بھی بہت اہم ہے, وہ یہ کہ ہماری نمائندہ شخصیات کا اپنا ایک دائرہ کار ہوتا ہے۔ اور دائرہ کار سے نکل کر کام کرنے کے لیے ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو مخلص بھی ہو, محنتی بھی ہو اور باخبر بھی ہو۔ شہر شہر اور گاؤں گاؤں ایسے مضبوط کیڈر کے بغیر سیاسی میدان میں بہت زیادہ دل چسپی مفید اور کارآمد نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ دینی عقیدت رکھنے والے بھیڑ ووٹ میں تبدیل ہو جاۓ یہ بالکل ضروری نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ماضی قریب تک ہمارے متعدد ملی قائدین نے بہت سی خاموش سیاسی کوششیں کیں، براہ راست حکومتوں سے بھی خطاب کیا لیکن الیکشن اور ووٹ کی گہما گہمی سے خود کو بہت دور رکھا۔ اور جن حضرات نے بھی الیکشن کے میدان میں کسی بھی قسم کی عملی کوششیں کیں, ان سب کو بڑے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔
جس وقت امتیاز جلیل صاحب کی تائید نہ کرنے پر مولانا کے خلاف بد کلامی کی گئ, ملک کے اہل دانش اور سنجیدہ طبقے نے اُس بد کلامی پر سخت احتجاج کیا، اور آج بھی ہم سب اسی موقف پر قائم ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود دانشوران ملت کے ایسے متعدد سوالات ہیں جو اہل علم و دانش کے حلقوں میں خوب گردش کر رہے ہیں اور باخبر لوگ اس سے خوب واقف ہیں۔
متعدد ملی قائدین کی یہی تاریخ رہی ہے کہ ان کے ارد گرد ایسے افراد کا ہجوم ہو گیا جو ان تک حقائق کو پہنچنے نہیں دیتے, بلکہ اپنے ذاتی رجحان و مفادات کو سامنے رکھ کر شخصیات کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پہلو سے بھی مولانا کے خاص لوگوں کو بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اور ہماری تو پھر سے یہی گزارش ہے کہ عملی سیاست سے دور رہ کر زمینی سطح پر کیے جانے والے کاموں تک اپنے کو محدود رکھا جاۓ کہ بظاہر عافیت دارین ابھی اسی میں نظر آتی ہے۔ خارجی دشواریوں کیا کم ہیں جو اپنے لیے متعدد داخلی مسائل بھی کھڑے کر لیے جائیں ! دوسرے کی زبان اور قلم کو روکنا ہمارا اختیار نہیں، لیکن جب معبتر شخصیات اپنے کسی عمل کی وجہ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے اعتبار پر زد پڑتی دیکھیں اور دیگر دینی کاموں کو متاثر ہوتا دیکھیں, اور افادہ عام کا راستہ متاثر ہونے لگے تو پھر اپنے طرز عمل پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح واقعی مخلصین کو تلاش کر کے ان کی راۓ کو بھی اپنے لیے بہترین تحفہ سمجھنا چاہیے۔
آخر میں یہ بات بھی ضرور عرض کروں گا کہ اپنے قلم و زبان کا استعمال کرتے ہوۓ ہمیں یہ استحضار ضرور رہنا چاہیے کہ ہم حدود سے متجاوز نہ ہوں۔ اگر ہم کسی پر کوئی الزام لگاتے ہیں تو خدا کی عدالت میں اس کو ثابت بھی کر سکتے ہوں۔ کسی کی غلطی اور چوک پر سنجیدہ تنقید اور اختلاف آپ کا حق ہے لیکن کسی کی نیت پر حملے کرنا اور اس کی مسلسل خدمات کو, اس کے جذبات و احساسات کو نظر انداز کرنا یہ زیادتی ہے جس کا جواب خدا کی عدالت میں دینا پڑے گا۔
جاتے جاتے ای وی ایم سے متعلق بھی یہ بات عرض کرنی ہے کہ جب تک سیاسی پارٹیاں اپنی شکست کے بعد ای وی ایم کا رونا روتی رہیں گی, حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ اس پر تو سیاسی پارٹیوں کو الیکشن سے بہت پہلے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں قربانیوں کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی ہی پڑے گی ورنہ یہ رونا پیٹنا بے مقصد اور لا حاصل !!!

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔