Slide
Slide
Slide

مایوس کن اور تشویشناک حالات کا حل؛ تعلیم ہے

مایوس کن اور تشویشناک حالات کا حل؛ تعلیم ہے

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

پچھلے دس سالوں سے جہاں مسلمانوں بالخصوص فکر مند اور سیاسی سماجی معاشی اور دینی شعور رکھنے والے افراد میں مستقبل کے تئیں مایوسی خیمہ زن ہے، بہت حد تک حوصلے پست ہیں اور امید و بیم کی کیفیت میں امید کا پلڑا ہلکا اور بیم کا پلڑا بھاری ہے، وہیں ملکی سطح پر مختلف ریاستوں میں کہیں کم تو کہیں زیادہ بعض امید افزا مثبت اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں ۔ انہیں امید افزا اقدامات کہیں یا مثبت ردعمل، بہر صورت ان کو نمونہ مان کر منظم انداز میں پورے ملک میں ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دین ہمارا اساس ہے اسے نظر انداز کر کے ہم اپنے معاشرے بالخصوص نئی نسل کی حقیقی اور مکمل تعمیر وترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ دراصل دین اور دنیا میں تفریق زوال کی اہم وجہ ہے۔ اسی لئے تعلیم کا ہدف فقط تعلیم اور روزگار کا وسیلہ ہی نہیں تربیت بھی ہونا چاہیے۔‌ تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیوں کی چال ڈھال سے دینی تربیت جھلکنا چاہیے بالعموم مسلمانوں کے اخلاق اور معاملات دین اسلام کا متعارف کرانے والے ہوں اسے یقینی بنانے کے لئے ہر حلقہ میں کام کرنا چاہیے۔

ویسے تو ہمارا ملک ایک جمہوری، سیکولر رفاہی ریاست ہے اور ہر شہری کے لئے تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز ، بجلی پانی سڑک سیوریج مہیا کرانا رفاہی ریاست ویلفیئر اسٹیٹ کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ریاست کی جانب سے بعض کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لئے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بحیثیت فرد اور تنظیم اپنے حالات کی بہتری کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔‌ مثال کے طور آبادی کے لحاظ سے جس علاقے میں ٨٠ مڈل اور ہائی اسکول ہونا چاہیے اگر وہاں آٹھ دس گورنمنٹ اسکول ہوں تو وہاں کمیونٹی لیول پر پرائیویٹ اسکول قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں پرائیویٹ اسکول ایک تو معیاری نہیں ہیں، دوسری بات یہ کہ وہ ٹرینڈ ٹیچر کی تقرری،  درسگاہوں کلاس رومز ، لیب، لائیبریری اور کھیل کے میدان وغیرہ کے تعلق سے مقررہ شرائط پورے نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ICSE, CBSE یا گورنمنٹ کے شعبہ تعلیم سے الحاق شدہ نہیں ہوتے ہیں۔‌ نتیجتاً نویں کلاس میں ان کا داخلہ بیک وقت موجودہ پرائیویٹ اسکول کے ساتھ ساتھ کسی الحاق شدہ اسکول میں بھی داخلہ لینا ہوتا ہے تاکہ وہ مذکورہ بالا بورڈ سے کسی recognised school کے تحت  امتحان دینے کا اہل ہو سکے۔ 

جگہ کی کمی کی بھرپائی اور کو ایجوکیشن کے مسئلے کے حل کے لیے دہلی میں گورنمنٹ اسکول سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ان اسکولوں میں صبح کے اوقات صرف لڑکیوں کے لئے خاص ہیں اور دوپہر کے اوقات میں لڑکوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔

بعض پرائیویٹ اسکول والوں نے نہ صرف تعلیم کو تجارت بنایا ہے بلکہ وہ نصابی کتب، نوٹ بکس اور یونیفارم وغیرہ کی بھی تجارت شروع کر دی ہے۔ اپنی تجارتی منفعت کے مد نظر وہ ایسی کتابیں شامل نصاب کرتے ہیں جن سے زیادہ مالی منفعت ہو جبکہ بورڈ کے امتحانات اور اس کے بعد مقابلہ جاتی امتحانات JEE, NEET وغیرہ میں NCERT کی کتابوں سے ہی زیادہ تر سوالات ہوتے ہیں۔‌

جیسا کہ ماضی میں کئی بار ارباب حل وعقد کی توجہ اس طرف مبذول کرا چکا ہوں کہ مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کی چنداں ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اچھے نمبروں سے بارہویں پاس ہونے کے بعد ملک و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے بہت مواقع ہوتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہونہار طلبہ پر اچھے تعلیمی اداروں کی نگاہ الفت بھی ہوتی ہے اس لئے کہ یونیورسٹیوں کو بھی اپنی ” ناک” بچانے کی فکر رہتی ہے۔ اسی لئے وہ محنتی اور ذہین ترین طلباء کی تلاش میں ہوتی ہیں۔‌ Talent Hunt مشن کے تحت ملک و بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں بعض افراد مقرر ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بیرون ملک ان کو ریسرچ تحقیق و تصنیف اور ایجادات کے مواقع ملتے ہیں یونیورسٹیاں ان پر خطیر رقم خرچ کرتی ہیں۔ اپنے یہاں قدردانی نہیں ہوتی تو وہ بیرون ملک جاتے ہیں اسی کو brain drain کہا جاتا ہے یعنی اعلیٰ تعلیم یا ہنر یافتہ کو دوسرا ملک مزید تعلیم کے لئے بہتر ماحول اور خطیر رقم بطور مالی معاوضہ یا اعانت دے۔

ایک بار پٹنہ کے ایک انگریزی اخبار میں اشتہار پڑھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے کچھ حضرات و خواتین پٹنہ آئے ہوئے ہیں جو اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طلبہ کو مفت اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے فلاں تاریخ کو فلاں وقت فلاں مقام پر انٹرویو لیں گے۔

 دراصل بڑے تعلیمی مراکز ؛ یونیورسٹیوں کو بھی اچھے طلباء کی تلاش ہوتی ہے تاکہ (NAAC) National Assessment And Accreditation Council کی نظر میں وہ اپنا معیار اور درجہ بہتر بنائے رکھیں یا کم ازکم برقرار رکھیں۔

یونیورسٹیوں کے قیام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے اگر اس قوم کے دردمند حضرات دینی مدارس کے طرز پر گاؤں گاؤں اور شہر شہر انگلش میڈیم معیاری پرائمری ، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکول کا جال بچھا دیں تو اعلیٰ تعلیم کے راستے خود بخود کھل جائیں گے۔‌

جب انگریزی استعمار نے مسلمانوں کے اوقاف پر قبضہ کر لیا اور اسکولوں سے سیکولر ایجوکیشن کے نام پر دینی موضوعات کو نصاب سے خارج کر دیا تو بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اس کا بدل ڈھونڈا اور 30/5/1866 کو دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔ پوچھا گیا نصاب میں صرف دینی موضوعات کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اسی کمی کا حل تلاش کرتا ہے ۔ روایتی تعلیم کے لئے سرکاری مدرسے( اسکول) ہیں۔ ہمارے طلباء دین کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری مدرسوں میں تعلیم حاصل کر کے امتیازی درجات حاصل کریں گے‌ ۔ عصری تعلیم کے تعلق سے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے کے جو بھی اسباب ہوں اور جو لوگ بھی رہے ہوں اس سے قطع نظر آج کوئی گاؤں اور شہر ایسا نہیں ہے جہاں دینی مدرسہ یا مکتب یا مسجد کے امام نہ ہوں ۔

24/5/1875 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)  کا قیام کا نصب العین بھی سرسید علیہ الرحمہ کے سامنے یہی تھا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کی جائے۔

 ظاہر ہے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے پورے ملک میں دینی مدارس کے طرز پر معیاری اسکولوں کا جال بچھانا تھا نہ کہ ایک عالیشان یونیورسٹی پر اکتفاء کرنا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فیض یافتہ کم و بیش پورے ملک میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے بہت کم خرچ پر بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملک و بیرون اپنی مادر علمی کا نام روشن کیا۔ ملک میں صدر جمہوریہ سے لے کر دیگر بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، صنعت و تجارت کے میدان میں نام کمایا اور ملک و بیرون ملک باوقار ملازمت کر رہے ہیں کیا انہوں نے اپنی مادر علمی کا قرض اتارنے کے بارے میں کبھی سوچا ! کچھ کیا ! کم ازکم اپنے اپنے وطن گاؤں اور شہر میں دوسروں کے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے لئے مولویوں کی طرح ہر گاؤں اور شہر میں معیاری اسکول قائم کیا ! ؟؟؟؟؟

دارالعلوم دیوبند اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی طرح غیر مسلم مفکرین بالخصوص مہارشی دیانند سرسوتی نے بھی سیکولر تعلیم کے نام پر ہندوؤں کی دینی تعلیم پر آنچ کو محسوس کیا تھا چنانچہ 1/6/1886 کو لاہور میں دیانند اینگلو ویدک DAV اسکول قائم کیا گیا اور آج یہ واحد غیر سرکاری تعلیمی ادارہ ہے جس کے 900 سے زائد اسکول، 75 کالجز اور ایک یونیورسٹی ہے۔ جس کے پاس 50,000 سے زائد اسٹاف اور 20 لاکھ سے زائد طلباء ہیں۔‌

یعنی شروعات آپ نے کی اور آگے کوئی اور نکل گیا !

کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے۔ زیر اہتمام ، زیر نگرانی، زیر رہنمائی یا زیر سرپرستی ملک ہزار دو ہزار پبلک اسکول نہیں کھولے جا سکتے۔ مذکورہ بالا دونوں سنٹرل یونیورسٹی ہیں حکومت کے ضابطے کے پابند ہیں اس لئے سرکاری پیچیدگیوں سے بچتے ہوئے رہنمائی اور سرپرستی تو کر سکتی ہیں ۔

ان تمام مایوس کن باتوں کے باوجود جو اقدامات حوصلہ افزا ہیں وہ ہیں مرکزی اور ریاستی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات ,NEET , JEE,BPSC, UPSC وغیرہ کے لئے مفت کوچنگ کے مراکز اور اس کے علاوہ حفاظ پلس ۔۔۔۔ شاہین گروپ Shaheen Group of Institutions بیدر کرناٹک نے اس سال 10,000 حفاظ کو میڈیکل کے انٹرنس ٹیسٹ کے اہل بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور مزید قوم کی خدمت کرنے کے مواقع فراہم کرے۔

میڈیکل اور انجنیرنگ کے انٹرنس ٹیسٹ کے لئے کوچنگ سنٹر کے علاوہ دیگر سرکاری ملازمتوں کے امتحانات کے لئے مختلف علاقوں میں قوم کے لئے فکر مند افراد نے بھی کوچنگ سینٹرز یعنی تیاری کرانے کے مراکز کھولے ہیں ، مساجد کے بالائی حصے اس مقصد کے لیے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

الحمدللہ مایوسی کی بجائے تعلیمی طور پر مقاومت اور مدافعت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اسے مزید گاؤں گاؤں پہنچانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: