اے رحمان کی منٹو شناسی
اے رحمان کی منٹو شناسی
تبصرہ : شکیل رشید
_________________
کیا سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی تفہیم کے لیے ، منٹو شناسوں نے جو الگ الگ راہیں چُنی ہیں ، وہ موزوں نہیں ہیں؟ یہ سوال ، اے رحمان کی کتاب ’ منٹو اندر ، باہر اور درمیان ‘ کا ’ پیش لفظ ‘ پڑھنے کے بعد ، کئیوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔ مذکورہ سوال پر غور کرنے سے پہلے ، اِس کتاب کا کچھ احوال جان لیں ۔ یہ منٹو کے ١٣ منتخب افسانوں اور ان افسانوں کے مختصر تجزیوں کی کتاب ہے ۔ ہوا یہ کہ ٢٠١٢ء میں اے رحمان کی کتاب ’ منٹو پچیسی ‘ شائع ہوئی تھی اور ان کے ادارے ’ عالمی اردو ٹرسٹ ‘ کے زیرِ اہتمام منٹو صدی تقریبات کے افتتاحی جلسے میں ، ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی کے ہاتھوں اس کا اجرا ہوا تھا ۔ ’ منٹو پچیسی ‘ کا اب ایک نسخہ بھی نہیں بچا ہے ، لہذا اے رحمان نے بعض دوستوں کی فرمائش پر اُس کتاب کے ١٣ منتخب افسانے اور تجزیے ، زیر تعارف و تبصرہ کتاب ’ منٹو اندر ، باہر اور درمیان ‘ کے عنوان سے علیحدہ سے شائع کر دیے۔
اب آئیے افسانوں کے تجزیہ نگار پر ۔ اے رحمان کا نام میں نے سُن رکھا تھا ، اور ان کے کارناموں سے بھی کچھ واقف تھا ، لیکن میری ان سے ملاقات نہیں تھی ۔ کووڈ -19 کے دنوں میں ایک دن موبائل فون کی گھنٹی بجی ، دوسری طرف سے بھاری بھرکم آواز میں کہا گیا ’ میں اے رحمان ہوں ، میرے مجلّے ’ عالمی اردو جائزہ ‘ کا وبا نمبر نکل رہا ہے ، تمہیں ایک مضمون لکھ کر دینا ہے ‘ ۔ میرے لیے یہ حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا ، میں نے حامی بھر لی اور کچھ دنوں بعد اپنا مضمون بھیج دیا ، اور ان سے دوستی کر لی ۔ اے رحمان پر کبھی میں لکھوں گا ، ان شا اللہ ، اور بتاؤں گا میں نے انہیں کیسا پایا ، لیکن فی الحال بات کتاب کی ۔ کتاب کا ’ پیش لفظ ‘ کمال کا ہے ، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’ منٹو کے فن کا سرسری جائزہ بھی نفسیات اور جنسیات کی سائنس کے علم کا متقاضی ہے ۔‘‘ اس بات کو اگر سچ مان کر ہم پیچھے کی طرف گھوم کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ شاید چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے منٹو کے فن کا جائزہ ’ علمِ نفسیات و جنسیات ‘ کی روشنی میں کیا ہوگا ۔ اس کا مطلب یہ کہ منٹو کے فن کا جائزہ لینے کے لیے لوگوں نے غلط ڈھرّا اپنایا تھا / اپنایا ہے ۔ یہ اے رحمان کا کہنا ہے ، میرا نہیں ، اور انہوں نے اپنے ’ پیش لفظ ‘ میں علمِ نفسیات اور علمِ جنسیات کے حوالے سے اپنا کہا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ نفسیات اور جنسیات کے علوم سے ، اور ان علوم کے ماہرین ، جیسے فرائڈ ، ہیولاک اور دیگر کے حوالوں سے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ منٹو کے افسانوں کا تجزیہ کیوں ان علوم کی روشنی میں ہی کیا جانا چاہیے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ قارئین اور ادبی تنقید کے ذمہ داران نے منٹو کے فن کو مذہبی ، اخلاقی اور موجودہ معاشرتی تعصّبات کی عینک لگا کر دیکھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منٹو کے تخلیقی کارناموں خصوصاً اُس کے افسانوں پر کیے گیے تبصروں کو تین عنوانات کے ذیل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ احقامانہ ، معاندانہ اور ایماندارنہ لیکن ناقص ۔‘‘ آگے انہوں نے ان تینوں عنوانات کی دلچسپ وضاحت کی ہے ۔ پہلے دو عنوانات سے ان کی ماہیٔت کا اندازہ ہو جاتا ہے ، تیسرے عنوان کے بارے میں جان لیں : ’’ ایماندارانہ لیکن ناقص تبصروں کا معاملہ یہ ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں بعض حضرات نے تمام تعصّبات سے بلند ہو کر معروضی طور پر بھی منٹو کی تشریح کی لیکن جو کچھ بھی کہا گیا یا لکھا گیا اس سے منٹو کے فن کی تفہیم کا کوئی مناسب پیمانہ یا تناظر قائم نہیں ہو سکا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جن لوگوں نے اس قسم کا ایماندارانہ تبصرہ یا تشریح کی کوشش کی وہ نفسیات اور اس کی سب سے پیچیدہ شاخ جنس کی نفسیات سے نابلد تھے ۔ کہیں کہیں ’ نفسیاتی ‘ اور ’ جنسی نفسیات ‘ جیسے الفاظ استعمال تو کیے گیے لیکن نہ تو مخصوص معنی میں اور نہ کسی توضیح کے ساتھ ۔‘‘ اے رحمان کی اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک منٹو کے فن کا جائزہ غلط رُخ سے کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ منٹو شناسی اب تک جو ہوتی رہی ہے ، وہ ناقص تھی / ناقص ہے ؟ یہ ایک سوال ہے جو ’ پیش لفظ ‘ پڑھ کر سامنے آتا ہے ، اور اس سوال کا جواب منٹو شناسوں کی طرف سے آنا چاہیے۔
اس مجموعہ میں ۱۳ افسانوں کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔ ایک مثال افسانہ ’ بو ‘ کی ملاحظہ فرمائیں ، اے رحمان نے اپنی کہی بات کی روشنی میں ہی اس افسانے کا ، بلکہ تمام ۱۳ افسانوں کا تجزیہ کیا ہے ۔ ’ بو ‘ افسانہ جس نے پڑھا ہے وہ نہ ’ گھاٹن ‘ کو فراموش کر سکتا ہے ، نہ اس کی اُس ’ بو ‘ کو جو رندھیر کے جسم میں رچی ہوئی ہے ۔ اس افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے اے رحمان نے ’ بو ‘ کی سائنس پر بات کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ تو ہوا یہ کہ گھاٹن کے جسم کی ’ بو ‘ نہ صرف جنسی لذت سے لازم و ملزوم ہو گئی بلکہ رندھیر کے لاشعور میں شہوانی مہیج کے طور پر درج ہوکر جنسی اختلاط کے لیے درکار جسمانی عمل کی پری کنڈیشن بن گئی ۔ ( افسانے کے ٹریٹمینٹ نے یہ مفروضہ طے کر دیا ہے کہ گھاٹن کے بعد شادی کی پہلی رات تک کے درمیانی وقفے میں رندھیر کا کسی دوسری عورت سے جسمانی سابقہ نہیں پڑا ۔) لہذا اپنی سہاگ رات میں ٹپ ٹپ کرتی ہوئی بارش کا پس منظر موجود ہوتے ہوئے بھی رندھیر اپنی گوری چٹی خوب صورت اور سوفیسٹیکیٹڈ بیوی کے جسم سے حظ اٹھانے کے لیے خود کو جسمانی طور پر آمادہ نہیں کر پایا کیونکہ ’ بو ‘ کا مہیج موجود نہیں تھا ۔‘‘ اس افسانہ کے بارے میں اے رحمان لکھتے ہیں : ’’ انسانی جنسی نفسیات کے تناظر میں ’ بو ‘ جیسا افسانہ آج تک نہیں لکھا گیا ۔‘‘
تو یہ ہیں اے رحمان ایک منٹو شناس کے طور پر ۔ انہوں نے جو کہا ہے اس سے منٹو کے افسانوں کی تفہیم کا ایک نیا دروازہ کھلتا پے ، اس پر بات ہونی چاہیے ، چاہے اثبات میں ہو یا نفی میں ۔ کتاب کا انتساب ’ کڑوے کریلے کی انتہائی شیریں مصنفہ ثروت خان کے نام ‘ ہے ۔ یہ کتاب موبائل نمبر 9318347431 پر رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے ۔