آپس میں دست و گریباں ہیں ہم
ہمارے لئے بڑا المیہ ہے کہ ہم اوقاف کی لڑائی لڑتے لڑتے آپس ہی میں لڑنے لگے ، اللہ حفاظت فرمائے
از: ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
__________________
اسلام ایک مکمل دین و شریعت ہے ، یہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے ، خوشی و غم ، رنج و تکلیف ، آپسی تعلقات اور باہری تعلقات ، غرض اس میں پوری رہنمائی موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلم سماج میں ہر میدان کے لوگ موجود ہیں ، علماء ، وکلاء ، ڈاکٹر ، انجینیئر ، دانشور وغیرہ غرض سبھی طبقہ کے افراد پائے جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ہے۔
مسلم سماج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کے اچھے لوگ بھی کبھی ایسی غلطی کر جاتے ہیں ، جس سے سماج کو بڑا نقصان ہو جاتا ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ خبر امانت ہے ، جب تک اس کو عام کرنے کی اجازت نہ ہو ، اس کو عام کرنا نقصان کا سبب بنتا ہے۔
بالخصوص ایسی خبر جس سے آپسی ناچاقی بڑھے اور ملت آپسی انتشار میں مبتلا ہو ، ایسی خبر کو تو اور بھی کسی حال میں بغیر اجازت عام نہیں کرنا چاہئے ، اس میں بد احتیاطی سے بہت نقصان پیدا ہوتا ہے۔
موجودہ وقت میں مدارس ، مساجد ، قبرستان اور اوقاف خطرے میں ہیں ، اس کی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے ، اس کی جانب ہماری توجہ ہونی چاہئے تھی ، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم ان مسائل سے الگ ہو کر ایک غیر ضروری بات میں الجھ گئے ، اور اصل مسائل کی جانب ہماری توجہ نہ رہی۔
شہر گلستان بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا ، ہمیشہ کی طرح اجلاس نہایت ہی کامیاب رہا ، توقع تھی کہ اس اجلاس کا تحفظ شریعت اور تحفظ اوقاف میں اہم کردار ہوگا ، اور ملی قائدین شریعت اور اوقاف کے تحفظ میں باہم متحد ہوکر اہم کردار پیش کریں گے ، مگر افسوس کی بات ہے کہ عہدیداروں کے انتخاب کے معاملہ میں آپس ہی میں لوگ الجھتے نظر آرہے ہیں ، اور اس کی وجہ سے پھر ایک مرتبہ مسلم سماج میں انتشار شروع ہوگیا ہے ، جو نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔
امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ ، جھارکھنڈ اور بنگال کے امیر شریعت کے معاملے پر واٹس ایپ گروپ میں مکمل بحث چھڑی ہوئی ہے ، میرے خیال سے یہ بحث غیر ضروری ہے ، اس کی وجہ سے ملت میں انتشار بڑھ رہا ہے ، اور انتشار بڑھتا جائے گا۔
ال انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کا ایک باوقار ادارہ ہے اور امارت شرعیہ بھی ملک کا اہم ادارہ ہے ، ان دونوں کے علاؤہ اور بھی ملی ادارے ہیں ، تمام ادارے اہم ہیں ، ان اداروں میں بڑے علماء ، وکلاء اور دانشوران ممبران اور عہدیداران کی حیثیت سے شریک ہیں ، وہ حقائق سے بھی واقف ہیں ، تنظیم کے اُصول و ضوابط اور ملکی قوانین سے بھی باخبر ہیں ، کسی ادارہ کے سلسلہ میں ادارہ کے ذمہ داران ہی کی بات قابل قبول ہوتی ہے ، باہر کے بحث و مباحثہ سے ادارہ کا نقصان ہوتا ہے۔
بنگلور اجلاس جہانتک مسلم مسائل پر رائے ہموار کرنے اور متحدہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے منعقد ہوا تھا ، وہیں اس میں انتخاب کا ایجنڈا بھی شامل رہا ، امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو گزشتہ میقات میں سیکریٹری کے عہدہ کے لئے منتخب کیا گیا تھا ، مگر اس مرتبہ ان کے سلسلہ میں خاموشی رہی ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ، اس درمیان محترم امیر شریعت امارت شرعیہ کی جانب سے اخبار اور سوشل میڈیا میں یہ خبر آئی کہ انہوں نے استعفاء دے دیا ہے ، مگر ابھی تک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے استعفاء منظور یا نا منظور کی کوئی خبر نہیں آئی ہے ، اس کے باوجود سوشل میڈیا میں غیر ضروری ہنگامہ ہے کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں ، اس لئے انہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکنیت سے موقوف کردیا گیا ، پتہ نہیں ،یہ خبر کہاں سے نکل کر آگئی ، جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے ، جہانتک شہریت کی بات ہے تو یہ قانونی مسئلہ ہے ، اس کی صحیح تشریح وکلاء ہی کر سکیں گے ، گزشتہ میقات میں انہیں سیکریٹری کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا ، سوشل میڈیا میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر محترم جو اس وقت جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز تھے ، ان کا ایک مکتوب گشت کر رہا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وکلاء کی کمیٹی سے رائے حاصل ہونے کے بعد ان کو رکنیت دی گئی تھی اور سیکریٹری کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا ، دوسرے میقات میں ان کی شہریت کو لے کر پھر کوئی پیچیدگی آئی ، تو پھر وکلاء کی کمیٹی سے رائے لی جا سکتی ہے ، ابھی تک بورڈ کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضرات بھی اس پر غور و فکر کر رہے ہوں گے ، جہانتک انتخاب کی بات ہے تو یہ سخت پہرہ میں ہوا ، اس کے باوجود اندر کی بات باہر آگئی ، اور اس کی وجہ سے ملت میں انتشار پیدا ہوگیا ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے ، اس سلسلہ میں احتیاط کی ضرورت ہے ، عام لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ آفیشیل خبر کو صحیح سمجھیں ، ادھر ادھر کی عام خبر کی جانب توجہ نہ دیں ، چونکہ عام خبر کا اکثر حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔
موجودہ وقت میں حالات بہت نازک ہیں، مسلمانوں میں اتحاد کی بڑی کمی ہے ، جس کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگ سخت پریشانی میں مبتلا ہیں ، اس لئے ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے ،جس سے آپسی انتشار بڑھے ۔
ملی تنظیمیں مسلم سماج کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان کی کمیٹی ہے ، ان کے ذمہ داران ہیں ، ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے وقار کو بڑھائیں ، ان کو مضبوط کریں ، کوئی ایسا کام نہ کریں ، جس کی وجہ سے ان کو کوئی نقصان پہنچے ، جتنی بھی ملی تنظیمیں ہیں ، ان کا دستور ہے ، وہ اصول و ضوابط کے تحت چلتے ہیں ، اگر اس کے سلسلہ کوئی اختلاف ہے یا کوئی رائے ہے ،تو ضابطہ کے مطابق اس کو پیش کرنے کی ضرورت ہے ، اختلاف رائے کا حق ہر کسی کو ہے ، مگر اپنی رائے پر اصرار کرکے کسی پر اس کو تھوپنا پسندیدہ نہیں ہے ، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب اتحاد کو مضبوط کریں اور اصول و ضوابط کی روشنی میں مسائل کو حل کرنے کا مزاج بنائیں ، اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو صحیح فکر عطا فرمائے ، جزاکم اللہ خیرا