عزیز ملت: حیات و خدمات
عزیز ملت: حیات و خدمات
از:محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
عصر حاضر میں جب کہ علمی اور دینی مراکز کی اہمیت ہر ذی شعور پر روز روشن کی طرح واضح ہے، ایسے میں اگر ہم اہل سنت و جماعت کی علمی و تعلیمی درسگاہوں کی طرف نگاہ اٹھائیں تو الجامعۃ الاشرفیہ اپنی شان و شوکت اور خدمات کی بدولت ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف ایک عظیم علمی قلعہ ہے، بلکہ ایک ایسا مرکز ہے جہاں سے امت کی رہنمائی کے لیے فکری اور علمی قائدین تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر ہندوستان کے اہل سنت کے پاس جامعہ اشرفیہ نہ ہوتا تو شاید ان کے پاس ایسا کوئی بڑا دینی اور تعلیمی مرکز نہ ہوتا جو ان کی فکری قیادت کا بوجھ اٹھا سکتا۔
اس عظیم ادارے کی بنیاد قطب الاقطاب اعلی حضرت مولانا سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ نے رکھی تھی اور اس کے اولین اور مضبوط ترین معمار حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز اشرفی محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ تھے، حافظ ملت کی زندگی میں اس کا صرف 20 فیصد حصہ مکمل ہو سکا تھا۔ مگر آج مبارک پور کی سرزمین پر جامعہ اشرفیہ کی جو شاندار اور پرشکوہ عمارتیں موجود ہیں، وہ ان کے سعادت مند بیٹے، عزیز ملت علامہ شاہ عبدالحفیظ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی مخلصانہ قیادت نے جامعہ اشرفیہ کو ترقی کی ان بلندیوں پر پہنچا دیا جہاں یہ آج پورے برصغیر میں ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ مضمون عزیز ملت کی شخصیت، ان کی حیات اور ان کی بے لوث خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے، تاکہ ان کی قربانیوں، عزم و استقلال اور اخلاص کو یاد رکھا جا سکے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
عزیز ملت مولانا شاہ عبد الحفیظ صاحب قبلہ کی پیدائش ۳ جمادی الاول ۱۳۶۳ھ بمطابق ۲۶ اپریل ۱۹۴۴ کو مبارکپور میں ہوئی۔ آپ کا نام مصنفِ بہار شریعت صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے عبدالحفیظ رکھا۔ دینی تعلیم کا آغاز مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم سے ہوا، جہاں آپ نے جید علما سے استفادہ کیا۔ چار سال کی عمر میں آپ کی بسم اللہ خوانی مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ نے فرمائی۔ آپ نے جامعہ اشرفیہ میں ہی بخاری شریف کا درس اپنے والد محترم حافظ ملت علیہ الرحمہ سے حاصل کیا۔
دینی علوم کے ساتھ آپ نے دنیاوی تعلیم میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
سربراہی کا آغاز اور خدمات:
حافظ ملت علیہ الرحمہ کے وصال کے تین دن بعد، عزیز ملت کو الجامعۃ الاشرفیہ کا سربراہ اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ اُس وقت آپ نوجوان تھے، لیکن آپ نے اپنی جوانی کو ملت کے لیے وقف کر دیا۔ آپ نے نہ صرف حافظ ملت کے خوابوں کو پورا کیا بلکہ جامعہ اشرفیہ کو ترقی کی نئی منازل تک پہنچایا۔
جامعہ کی تعمیر و ترقی:
آپ کی قیادت میں جامعہ کے تعلیمی اور تعمیری شعبوں میں انقلاب آیا۔
آپ نے جامعہ کے قدیم عزیزی ہاسٹل کے علاوہ برکاتی ہاسٹل، معین الدین خان ہاسٹل، فارن ہاسٹل، امام احمد رضا لائبریری، کمپیوٹر لیب، اور ڈائننگ ہال تعمیر کروائے۔
جدید فقہی و اشاعتی ضروریات کے پیش نظر مجلس شرعی اور مجلس برکات جیسے اہم ادارے قائم کیے۔
جامعہ کی توسیع کے لیے عزیز المساجد اور دیگر شعبوں کا قیام عمل میں آیا۔
سادگی اور خلوص:
عزیز ملت نے ہمیشہ اپنی ذات کو پس پشت رکھا۔ آپ نے نہ تو اپنے لیے کوئی محل تعمیر کرایا اور نہ ہی جامعہ کے وسائل کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اشرفیہ کے طلبہ کی تعلیم و تربیت اور ادارے کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف رہا۔
مشاورت اور عزم و استقلال:
آپ کی قیادت کا سب سے اہم پہلو یہ رہا کہ آپ نے ہمیشہ علما اور مفتیان کرام سے مشورہ لیا۔ آپ نے مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ، مفتی نظام الدین رضوی، اور علامہ احمد مصباحی جیسے جید علما کی رفاقت میں ادارے کو چلایا۔
50 سالہ خدمات کا اعتراف:
عزیز ملت نے اپنی زندگی کے 50 قیمتی سال جامعہ اشرفیہ کی تعمیر و ترقی میں صرف کیے۔ آج اشرفیہ کے کشادہ دروازے، بلند و بالا عمارتیں، اور علمی و دینی خدمات عزیز ملت کی قربانیوں کا مظہر ہیں۔
اختتامیہ:
عزیز ملت مولانا شاہ عبد الحفیظ صاحب حفظہ اللہ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ ان کی قربانیاں، عزم و حوصلہ، اور بے لوث خدمات ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ جب اخلاص کے ساتھ کسی مقصد کے لیے کام کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرماتا ہے۔ جامعہ اشرفیہ کی ترقی اور استحکام آپ کی قیادت کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔
ہم سب پر لازم ہے کہ اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کریں اور ان کے نقش قدم پر چل کر ملت اسلامیہ کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں۔