قادیانیت کے بڑھتے اثرات، اسباب اور تدارک
قادیانیت کے بڑھتے اثرات، اسباب اور تدارک
از: ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
___________________
عقیدہ ختم نبوت امت مسلمہ کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، لیکن دور حاضر میں اس پر مختلف سمتوں سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ قادیانیت ایک ایسا فتنہ ہے جو ختم نبوت کے عقیدے کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اتحاد اور عقائد کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، قادیانیت کے اثرات دنیا بھر میں بڑھتے جا رہے ہیں، جو مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
اس مضمون میں ہم اس اہم موضوع پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ پہلے، عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر بات ہوگی، پھر قادیانیت کا مختصر تعارف پیش کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ قادیانی مسلمان کیوں نہیں ہیں، اور ان کے گمراہ کن نظریات مسلمانوں کے لیے کس طرح خطرہ ہیں۔ آخر میں قادیانیت کے بڑھتے اثرات کے اسباب پر غور کریں گے اور ان کے سدباب کے لیے ضروری اقدامات اور حکمت عملیوں پر بات کریں گے۔ اس مضمون کا مقصد قاری کو اس حساس موضوع کی سنگینی سے آگاہ کرنا اور اس مسئلے کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
ختم نبوت کی اہمیت
اسلام کے بنیادی عقائد میں ختم نبوت ایک نہایت اہم عقیدہ ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں، اور آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔ قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے: "مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ ۗ” (الاحزاب: 40) اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو آخری نبی قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد کسی بھی شخص کا نبوت کا دعویٰ سراسر باطل اور اسلام سے خارج ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی عقیدہ ختم نبوت کی صراحت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ” (ترمذی، حدیث: 2272) ترجمہ: "بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔” یہ واضح فرمان عقیدہ ختم نبوت پر کسی قسم کی تشریح و تاویل کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کے بعد دنیا کے لیے رہنمائی کا ذریعہ قرآن مجید اور آپ ﷺ کی سنت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي” (موطا امام مالک، حدیث: 398) ترجمہ: "میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے، تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔” یہی تعلیمات اسلام کی تکمیل کی دلیل ہیں اور کسی نئی شریعت یا نبوت کی نفی کرتی ہیں۔ خاتم النبیین کا عقیدہ امت مسلمہ کے ایمان کی بنیاد ہے، جس پر کسی قسم کی سودے بازی ممکن نہیں۔
قادیانیت کا مختصر تعارف
قادیانیت، جسے احمدیت بھی کہا جاتا ہے، انیسویں صدی کے اواخر میں غلام احمد قادیانی کی طرف سے قائم کی گئی ایک مذہبی تحریک ہے۔ غلام احمد قادیانی نے خود کو مختلف اوقات میں مجدد، مہدی، مسیح موعود، اور نبی کے طور پر پیش کیا۔ ان کے یہ دعوے اسلامی عقیدۂ ختم نبوت کے سراسر خلاف ہیں، جس کی بنیاد پر امت مسلمہ نے قادیانیوں کو ہمیشہ اسلام سے خارج تصور کیا۔ قادیانیت کا مرکز قادیان (پنجاب، ہندوستان) ہے، اور ان کے پیروکار اپنی مذہبی شناخت کو مسلمانوں کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ایک گمراہ کن عمل ہے۔ 1974 میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس کے باوجود قادیانی اپنی تحریک کو اسلامی رنگ میں پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، جو مسلمانوں کے عقیدے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
قادیانی مسلمان کیوں نہیں؟
قادیانیوں کے عقائد اسلامی تعلیمات اور عقیدہ ختم نبوت کے صریح مخالف ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ سب سے بنیادی وجہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ غلام احمد قادیانی نبی تھے، جو قرآن و حدیث کے واضح احکامات اور عقیدہ ختم نبوت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: "وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ” (الاحزاب: 40) ترجمہ: "لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔” قادیانی نہ صرف اس آیت کی واضح تعلیمات کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اسلام کی دیگر بنیادی تعلیمات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
قادیانیوں کے علماء اور لیڈران نے قرآن و حدیث کی تشریح کے لیے ایک جداگانہ نظام وضع کیا ہے، جو اسلامی اصولوں سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا مفہوم اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ قادیانی اپنی شناخت کو مسلمانوں کے طور پر پیش کرکے اسلام کی روح کو نقصان پہنچاتے ہیں اور امت کے اندر تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے چیلنج
قادیانیت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کے پیروکار اپنے عقائد کے باوجود خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ یہ رویہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد، خصوصاً ختم نبوت کے عقیدے کے لیے خطرہ ہے۔ قادیانی اپنے مذہب کو اسلام کا حصہ ظاہر کرکے مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے عقائد اسلامی اجماع کے خلاف ہیں، جو امت مسلمہ کے اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فرقہ بندی سے بچنے کی ہدایت دی ہے: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” (آل عمران: 103) ترجمہ: "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔” قادیانی تنظیمیں اس ہدایت کے خلاف عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے اندر نظریاتی خلل ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، جو کہ ایک سنگین چیلنج ہے۔
قادیانیت کے بڑھتے اثرات کے اسباب
قادیانیت کے بڑھتے اثرات کے پیچھے کئی اہم اسباب کارفرما ہیں۔
تعلیمی اداروں میں تبلیغ: قادیانی تنظیمیں جدید تعلیمی اداروں میں اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے انہیں اسلام سے دور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
معاشی ترقی اور فلاحی کام: قادیانی برادری اپنی معاشی ترقی اور فلاحی کاموں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ یہ لوگ غربت سے متاثرہ افراد کو مالی مدد فراہم کرکے انہیں اپنے مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ حکمت عملی مسلمانوں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں اسلامی تعلیمات کی بنیاد کمزور ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال: قادیانی تنظیمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عقائد کو پھیلانے میں نہایت سرگرم ہیں۔ وہ مختلف پلیٹ فارمز پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ایسے مواد شیئر کرتے ہیں جو کم علمی رکھنے والے مسلمانوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔ قرآن و حدیث کی اپنی مرضی کی تشریحات کو عام کرکے وہ عقائد میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسلمانوں کی غفلت: ختم نبوت کے عقیدے پر مسلمانوں کی جانب سے عدم آگاہی اور بے توجہی قادیانیوں کو اپنا اثر بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مسلمانوں میں اس عقیدے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے دفاع کے لیے مضبوط اقدامات کی کمی ان کے لیے جگہ بناتی ہے۔ یہ غفلت خاص طور پر ان علاقوں میں زیادہ واضح ہے جہاں اسلامی تعلیمات کی پہنچ محدود ہے۔
علم کی کمی اور شعور کی فقدان: قادیانیت کے فروغ کی ایک اہم وجہ مسلمانوں میں دین کے بنیادی عقائد اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے علم اور شعور کی کمی ہے۔ ایسے مسلمان جو اسلام کے بنیادی اصولوں، خاص طور پر ختم نبوت کے عقیدے، سے ناواقف ہوتے ہیں، وہ قادیانی پروپیگنڈے کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔ قادیانی تنظیمیں ایسے لوگوں کو اپنے جھوٹے دعووں اور گمراہ کن نظریات سے متاثر کرتی ہیں، اور ان کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے عقائد کی طرف راغب کرتی ہیں۔
ضروری اقدامات
قادیانیت کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور قادیانیوں کے گمراہ کن نظریات کو علمی، فکری، اور قانونی طور پر رد کریں۔ ختم نبوت کے عقیدے کو عام کرنے میں علمائے کرام، اسلامی تنظیموں، اور تعلیمی اداروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ علمائے کرام کو عوامی خطبات اور علمی مباحثوں کے ذریعے قادیانیت کی حقیقت اور ختم نبوت کی اہمیت کو واضح کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی نئی نسل کو قادیانی نظریات سے آگاہ کریں تاکہ وہ ان کے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔
قانونی اقدامات کے ذریعے قادیانی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اسلام کے نام پر عوام کو گمراہ نہ کر سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کرکے ان کی غیر قانونی تبلیغ کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو جذباتی ہونے کے بجائے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ امت مسلمہ کے اتحاد اور عقائد کو محفوظ رکھا جا سکے۔
اس مسئلے کا تدارک
قادیانیت کے اثرات کو روکنے اور مسلمانوں کو ان کے گمراہ کن نظریات سے بچانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
اتحاد کی اہمیت: مسلمانوں کے درمیان اتحاد قادیانیت کے خلاف جدوجہد کی بنیاد ہے۔ اس مقصد کے لیے علماء کرام اور اسلامی رہنما مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں تاکہ ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کی جا سکے۔
نگرانی اور شعور اجاگر کرنا: قادیانی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کی جانب سے پھیلائے جانے والے نظریات کا بروقت اور مؤثر جواب دیا جا سکے۔ عوام کو قادیانیت کے حقیقی چہرے سے آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی اور تبلیغی مہمات چلائی جائیں۔
تعلیمی آگاہی: ختم نبوت کے عقیدے کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اداروں میں خصوصی نصاب ترتیب دیا جائے۔ اسکولوں، مدارس، اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کو ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کے گمراہ کن نظریات سے آگاہ کیا جائے۔ اسلامی تاریخ اور عقائد کو جدید انداز میں پیش کرنے کے لیے تعلیمی سیمینار اور ورکشاپس منعقد کی جائیں تاکہ نوجوان نسل میں اس موضوع پر شعور اجاگر ہو۔ اس کے سدباب کے لیے مسلمانوں کو ختم نبوت کے عقیدے کی اہمیت اور قادیانیت کی گمراہیوں کے بارے میں علم فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ علمائے کرام، تعلیمی ادارے، اور دینی تنظیمیں اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں، تاکہ عام مسلمان قادیانی پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکیں اور اپنے ایمان کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔
قانونی اقدامات: قادیانیوں کی اسلام کے نام پر تبلیغ کو قانونی طور پر روکا جائے اور ان کے غیر قانونی اقدامات پر سخت نظر رکھی جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنایا جائے تاکہ وہ قادیانی تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی قادیانیت کی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے مسلمان ممالک کو سفارتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ مزید برآں، ایسے ممالک میں جہاں ہر مذہب کو اپنی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے، مسلمانوں کو قانونی، علمی، اور سفارتی سطح پر منظم حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر قادیانیت کی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے مسلمان ممالک کو مشترکہ سفارتی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ قادیانی تنظیموں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا جا سکے اور اسلامی عقائد کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر مقابہ: قادیانی حضرات جدید دور کے ذرائع جیسے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر قادیانیت کے گمراہ کن نظریات کا مدلل اور علمی جواب دیں۔ اسلامی اسکالرز اور نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے تربیت دی جائے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے ختم نبوت کی حقانیت اور قادیانیت کی گمراہی کو پیش کر سکیں۔
علماء اور دانشوروں کا کردار: علمائے کرام کو عوامی اجتماعات، مساجد کے خطبات، اور علمی مباحثوں کے ذریعے قادیانیت کے خلاف شعور پیدا کرنا ہوگا۔ دانشوروں اور اسلامی اسکالرز کو علمی انداز میں قادیانی نظریات کے کمزور پہلوؤں کو نمایاں کرنا ہوگا تاکہ عوام کو ان کے پروپیگنڈے سے بچایا جا سکے۔
فلاحی منصوبے: قادیانی تنظیمیں اپنی فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے مقابلے میں فلاحی منصوبے شروع کریں تاکہ ضرورت مند افراد کی مدد اسلامی اصولوں کے تحت ہو۔ مساجد، مدارس، اور سماجی تنظیموں کو فعال کیا جائے تاکہ عوام کو قادیانیوں کی جانب جھکنے سے روکا جا سکے۔
آخر کار، یہ کہنا بجا ہوگا کہ قادیانیت جیسے حساس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جذباتی ہونے کے بجائے ایک منظم اور حکمت عملی پر مبنی رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ جذبات وقتی طور پر مسئلے کی شدت کو اجاگر کر سکتے ہیں، لیکن اس کے دیرپا اثرات کے لیے عملی اور مستقل اقدامات کرنا لازم ہے۔ قادیانیت کے گمراہ کن نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا، جس کے لیے علماء، دانشور، اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی شرط ہے۔ مختلف اسلامی فرقوں کو ایک ساتھ لانے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، قادیانی تنظیموں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے پھیلائے گئے پروپیگنڈے کا مؤثر طریقے سے جواب دیا جائے۔ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ قانون کے مطابق قادیانیوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے تاکہ مسلمانوں کے عقیدے اور اتحاد کو محفوظ رکھا جا سکے۔
قادیانیت کا مسئلہ مسلمانوں کے عقیدے پر ایک سنگین حملہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر ہم جذباتی ردعمل کے بجائے علمی، قانونی، اور عملی اقدامات کریں۔ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی حفاظت کے لیے حکمت، صبر، اور استقامت عطا فرمائے تاکہ ہم اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کر سکیں۔ آمین۔