احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے
✍🏻 ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
لکھنؤ ہائی کورٹ
_________________
حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اویسی صاحب نے کیسے مولانا صاحب کے تعلق سے یہ کہا کہ "انہیں گھر سے نکلنے نہیں دوں گا”۔ ان اعتراضات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے ہمیشہ امت کے لیے قربانیاں دی ہیں، آج ان کے اخلاص پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
مولانا نعمانی صاحب کے فیصلوں پر سوال
سب سے پہلے ان احباب سے گزارش ہے کہ وہ بیرسٹر اویسی پر تنقید کرنے سے پہلے مولانا نعمانی صاحب کے فیصلوں پر بھی غور کریں۔ ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آخر کس بنیاد پر انہوں نے حمایت یا عدم حمایت کی فہرست مرتب کی؟ کیا یہ فہرست کسی سروے یا تحقیق کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی، یا صرف ذاتی قیاس آرائیوں پر؟ مولانا صاحب کو یہ بھی وضاحت دینی چاہیے کہ ان کے پاس کون سا ایسا آلہ ہے جو انہیں بتا دیتا ہے کہ کس امیدوار کو حمایت دینا ہے اور کس کو نہیں؟
سیاست کی نزاکتیں اور نقصان دہ فیصلے
سیاست ایک حساس عمل ہے جہاں فیصلے جذبات سے نہیں بلکہ حکمت، بصیرت اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر کے پچھلے انتخابات میں مولانا نعمانی صاحب کی حمایتی فہرست نے امت کو تقسیم کرنے کا کام کیا، جس کے نتیجے میں انتخابات بھگوا اور فتویٰ کے درمیان بٹ گئے۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا فائدہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہوا، جو ایک بڑے نقصان کے مترادف تھا۔ کیا یہ رویہ امت کے ساتھ انصاف تھا؟
اویسی صاحب کی خدمات
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نہ صرف ایک سیاست دان ہیں بلکہ وہ علماء کرام کے زیر سایہ کام کرنے والے ایک دیانت دار رہنما ہیں۔ وہ ہر لمحہ امت کے ساتھ کھڑے رہے، چاہے مسئلہ کسی بھی نوعیت کا ہو۔ جب بھی امت کو کسی قیادت کی ضرورت پیش آئی، اویسی صاحب ایک مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو شرمندہ نہیں ہونے دیا۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان خدمات کو فراموش نہ کریں۔ اویسی صاحب نے ہمیشہ امت کے مسائل کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان کے حل کے لیے اپنی جان لڑائی۔ ان پر بے جا تنقید کرنا یا ان کی نیت پر شبہ کرنا نہ صرف ان کی قربانیوں کی توہین ہے بلکہ یہ امت کے اتحاد کو مزید کمزور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
امت مسلمہ کو اس وقت اتحاد اور بصیرت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ذاتی اختلافات اور بے بنیاد الزامات کو پس پشت ڈال کر ہمیں اپنی توانائی امت کے مسائل کے حل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی جیسے مخلص رہنماؤں کی قدر کریں، ان کے اخلاص اور خدمات کا اعتراف کریں، اور ان کے خلاف بلاجواز مہم چلانے سے گریز کریں۔ یاد رکھیں، احسان فراموشی امت کی کمزوری کا سبب بنتی ہے۔
اگر ہم نے اسی طرح اپنی قیادت کی حوصلہ شکنی جاری رکھی اور سیاسی اپیلوں کے ذریعے اپنے قائدین کے عزم کو قتل کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب ہماری قوم کا کوئی سیاسی رہنما باقی نہیں بچے گا۔ اس وقت ہمارے پاس سوائے ماتم کرنے اور چھاتی پیٹنے کے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہے گا۔
قوم کی قیادت قوم کی روح ہوتی ہے۔ جب قیادت کو بے جا تنقید، غیر ضروری اپیلوں اور الزامات کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی رہنما مکمل نہیں ہوتا، لیکن ان کی خوبیوں کو نظرانداز کرکے ان کی کمزوریوں کو ہدف بنانا قوم کے لیے سب سے بڑی تباہی ہے۔
ہمیں تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنی قیادت کی بے قدری کی، اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔ قیادت کی غیر موجودگی قوم کو منتشر، بے سمت اور غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی سیاسی قیادت کا ساتھ نہ دیا تو کل ہم رہنما کے بغیر ایک ہجوم میں تبدیل ہو جائیں گے، جو نہ اپنا دفاع کر سکتا ہے اور نہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد۔
رہنماؤں کی حفاظت کریں
ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قیادت کی حفاظت کریں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں، اور ان کے خلاف بے جا مہم سے گریز کریں۔ جو قوم اپنے رہنماؤں کی عزت کرتی ہے، وہی ترقی کرتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت ہماری امید ہے اور اگر ہم نے ان کی حوصلہ افزائی نہ کی تو کل ہمارے بچے قیادت سے محروم ہوں گے اور ہم ماتم کرتے رہ جائیں گے۔
آج کا وقت اختلافات کو بھلا کر اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی جیسے رہنما ہماری آواز ہیں۔ انہیں کمزور کرنے کے بجائے ان کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ مزید قوت کے ساتھ امت کی قیادت کر سکیں۔ اگر ہم نے قیادت کی قدر نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔