مسئلہ قوم کی قیادت کا ہے
مسئلہ قوم کی قیادت کا ہے
از:محمد عمر فراہی
__________________
سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی قوم یا اس قوم کے لوگ کتنے تعلیم یافتہ ہیں ۔سوال اس قوم اور اس قوم کے لوگوں کے اجتماعی شعور کا ہے کہ اس کے اندر اپنے صحیح رخ کے تعین کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت کہاں تک ہے اور اس نے اپنے مقصد کا درست انتخاب کیسے کیا ہے یا کیا بھی ہے یا نہیں یا یوں ہی سرپٹ بھاگی جارہی ہے ۔اب آپ یہ کہیں گے کہ تعلیم ہی شعور کو بیدار کرتی ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جہاں سے قوموں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ تعلیم کیوں ضروری ہے وہیں سے اس کے ذہن میں یہ خیال بھی کیوں نہیں پیدا ہوتا کہ سماج میں جینے کے لئے اسے ایک نظم اور قیادت بھی لازم ہے ۔خاص طور سے جو اہل کتاب ہیں اور جانتے ہیں کہ خدا نے عالم انسانیت کے اسی شعور کو بیدار کرنے کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء کرام بھیجے اور وہ روز اپنی مسجدوں میں امام کی اقتداء میں صلواہ کی پابندی کرتا ہے اگر وہ قیادت کی اہمیت سے ناواقف ہے تو اس سے زیادہ اس قوم کی نااہلی کا ثبوت کیا ہوگا ۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ جب کوئی وقت کا سرسید یہ کہتا ہے کہ اۓ میری قوم کے لوگو تم لوگ جاہل ہو اور تمہیں کالج مدرسے اور یونیورسٹی کی ضرورت ہے تو وہی یہ بات بھی تو کہہ سکتا ہے کہ اۓ لوگو تمہیں ایک قائد اور سیاسی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے۔
اب یہاں سے یہ بحث بھی شروع ہوتی ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے پہلے سیاسی بیداری کی ضرورت ہے یا تعلیمی بیداری کی ۔
جب آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوتی ہے اور وہ جس قوم سے اٹھاۓ جاتے ہیں اور وہ اپنے جن اصحاب کے ساتھ سماجی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں انہیں یہود و نصارٰی امی کہتے تھے جبکہ عرب اپنی زبان کے ماہر اور زبردست جنگی صلاحیتوں کے ماہر تھے ۔اس کے برعکس یہود و نصارٰی اور آگ کے پجاری کسری کی قوم ایک متمدن سماج کی نمائندگی کرتی تھی تو کیوں یہ تمام طاقتیں مکہ کے امیوں آگے ڈھیر ہو گئیں ؟
کیا عربوں نے جدید ٹکنالوجی اور تجارت میں مہارت حاصل کرنا شروع کر دیا تھا یا انہوں نے اپنے دشمنوں کے مقابلے میں نئے جنگی آلات ایجاد کر لئے تھے ؟ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔اس قوم کو ایک باشعور امام اور قائد میسر آگیا تھااور اس نے اس کی رہنمائی میں اپنا قبلہ درست کر لیا تھا ۔اب آپ بتائیں کہ اس وقت بھارت میں کیا مسلمانوں میں اتنی تعلیمی پسماندگی ہے کہ وہ اپنے تعلق سے یہ تمیز ہی نہیں کر پارہے ہیں کہ ان کا اپنا کوئی امام اور رہبر بھی ہونا چاہئے ؟
کیا اسے یہ نہیں پتہ کہ قوموں کی ترقی اور اس کے عروج کا پہلہ مرحلہ ہی اپنے امام اور قائد کا انتخاب ہے اور یہ روایت جاہل سے جاہل قوم کے اندر ایک زمانے سے چلی آرہی ہے ۔تاریخ میں وہ چاہے منگول اور تاتار جیسی غیر متمدن قومیں ہی کیوں نہ رہی ہوں ان کے عروج میں ان کی نڈر اور بے باک قیادت اور سپہ سالار کا اہم کردار رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ تمیز پیدا کرنے کے لئے ابھی اور کتنے کالج مدرسے اور تعلیمی سفر کی مسافت درکار ہے ۔یہ کوئی راکٹ سائنس یا سقراط اور افلاطون کا فلسفہ بھی نہیں ہے جو کسی بحث کا متقاضی ہو ۔یہ بات ہر شخص کو پتہ ہے مگر وہ اپنی مادی ضروریات خرافات اور تفرقے بازی سے باہر نکل کر اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنا چاہتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا جب بھی بگاڑ کی طرف راغب ہوئی تو قدرت نے اس کی رہنمائی کیلئے انہیں میں سے ایک رہنما مقرر کر دیا ۔یہ قرآن کا ہی واقعہ ہے کہ بنی اسرائیل جب دربدر کی ٹھوکریں کھا کر تھک گئی تو اللہ نے انہیں انہیں میں سے طالوت اور داؤد علیہ السّلام جیسی قیادت عطا فرمائی اور پھر انہوں نے جالوت کو شکست دے کر ایک بڑے خطے پر اپنی حکمرانی قائم کر لی ۔
ویسے یہ مضمون ہم نے صرف بھارت کے تناظر میں لکھا ہے جہاں ہندؤوں کا زعفرانی طبقہ سیاسی طاقت کے نشے میں مسجدوں کے نیچے اپنے بھگوانوں کی باقیات تلاش کر رہا ہے تو مسلمانوں کا مذہبی اور سیاسی مولوی بھی اپنے اپنے مخالف فرقے کا ناڑا کھول رہا ہے یا مخالف فرقے کی علمی شخصیات کے گڑے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہے ۔متحدہ قومیت کے نظریے سے دیکھا جاۓ تو ہم دونوں ایک ہی قوم بھی ہیں ۔اس طرح ہماری ذہنیت میں مماثلت کا ہونا بھی تو ضروری ہے !
اس کے برعکس جنھیں دیکھنے کی تمیز ہے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے دیگر خطوں میں اہل حق میں یہ بیداری اپنے عروج پر ہے اور وہ اپنے قائدین کی رہنمائی میں دیر سویر اپنی منزل کو پا بھی سکتے ہیں ۔ کم سے کم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ فکری ارتداد کا شکار ہو کر شرک و بدعات کی طرف مائل نہیں ہیں ۔