مالیگاؤں میں حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب کے بارے میں جناب اویسی صاحب کی تقریر

مالیگاؤں میں حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب کے بارے میں جناب اویسی صاحب کی تقریر

از: سید احمد اُنیس ندوی

صدر صاحب !

بحیثیت سیاسی لیڈر آپ کو حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب سے اختلاف کا مکمل حق حاصل ہے, آپ سیاسی اعتبار سے ملت کے سامنے اپنا موقف اور تجزیہ مدلل طریقے پر پیش کرتے ۔۔ آپ ملت کے سامنے یہ واضح کرتے کہ مولانا نعمانی کی پریس کانفرنس زیادہ مضرت رساں رہی یا پورے مہاراشٹرا میں دوران تقریر 15 منٹ , 15 منٹ کی تکرار سے زیادہ نقصان ہوا۔ آپ نے ان امیدواروں کے نام تو بتا دیے جن کی تائید مولانا نعمانی نے نہیں کی, لیکن آپ نے مالیگاؤں میں کھڑے ہو کر یہ وضاحت کیوں نہیں کی کہ اسی مالیگاؤں میں مولانا نعمانی کی تائید آپ کے ہی امیدوار کو حاصل تھی۔ آپ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ لوک سبھا میں مولانا نعمانی نے جناب امتیاز جلیل صاحب کی مکمل تائید کی تھی۔

صدر صاحب !

مولانا نعمانی کے سیاسی موقف پر مستقل تجزیے ہو رہے ہیں۔ متعدد اہل قلم ان سے اختلاف کر چکے ہیں۔ آپ کو بھی یہ حق حاصل تھا۔ مگر آپ نے "آداب اختلاف” کا کوئی لحاظ و خیال نہیں کیا بلکہ "لفافے لینے والے” ، "دلال” ، "باہر نکلنا مشکل ہو جاۓ گا” اور "داماد کو الیکشن لڑاؤ” جیسے الفاظ بول کر اپنی سطح کا خود مظاہرہ کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ یوپی الیکشن کے موقع پر جب مولانا نعمانی نے آپ کے سامنے بذریعہ خط کچھ تجاویز پیش کی تھیں تو اُس میں بطور خاص آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کیا تھا، اور پھر جب اس کے بعد مجلس کے کارکنان کی جانب سے مولانا نعمانی کے بارے میں بڑی سخت اور بازاری زبان استعمال کی گئ تو مولانا نعمانی نے ان ساتھیوں اور نوجوانوں کے نام ایک شفقت بھرا پیغام نشر کیا تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھا۔ ابھی گزشتہ مہینے جب مولانا نعمانی نے پریس کانفرنس کی تو اورنگ آباد کی سیٹ کو لے کر مولانا نعمانی کے بارے میں مجلسی احباب کی جانب سے ایسی گھٹیا اور سطحی زبان استعمال کی گئ جو نقل بھی نہیں کی جا سکتی ، مگر مولانا نعمانی کی طرف سے مکمل سکوت رہا۔
راقم سطور بھی اب تک یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب مجلس کے جذباتی نوجوان ساتھیوں کا غصہ ہے, اویسی صاحب بہت سنجیدہ مزاج لیڈر ہیں ، وہ ایسی باتوں کی تائید نہیں کر سکتے۔ لیکن آپ کی گزشتہ کل مالیگاؤں میں کی گئ تقریر اور پھر سوشل میڈیا پر آپ کے آفیشیل اکاؤنٹ سے مختلف جملوں کے ساتھ اس کے نشر ہونے پر راقم سطور کی خوش فہمی بھی دور ہو گئ۔ اور آپ کے اس طرز عمل سے اندازہ ہوا کہ آپ کو اپنی سیاست سے "اختلاف” بالکل پسند نہیں ہے, بلکہ آپ ہر اس شخصیت کو عوام میں بے اعتبار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتا۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کا یہ مشن ہے کہ آپ کی قیادت و سیادت پر تمام مسلمانوں کا غیر متزلزل یقین ہو اور اس میں کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ ہو۔
صدر صاحب ! آپ کا یہ طرز عمل بہت ہی پست سطح اور کم ظرفی کی علامت ہے۔ آپ کو خدا نے غیر معمولی قوت بیان عطا فرمائی ہے, آپ چھوٹے چھوٹے موضوعات کو بڑا بنانے کا فن جانتے ہیں اور بڑے بڑے موضوعات کو دفن کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس اعلی تعلیم بھی ہے اور خود اعتمادی کی نعمت بھی ہے, اور میڈیا کی آپ پر خاص مہربانی تو ہمیشہ سوالات کے گھیرے میں رہتی ہے, لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ آپ سر عام ایک عالم دین کی تحقیر و تذلیل کریں, اس پر بے بنیاد اتہامات لگائیں اور پھر اس کو ہر پلیٹ فارم پر نشر کریں۔

صدر صاحب !

مجھے نہیں معلوم کہ اس بات کی کیا وجہ ہے کہ ملک کے ایک اور بڑے مسلم لیڈر اور عالم دین گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد موقعوں پر آپ ہی کے بارے میں نامزد ایسی سخت تنقید کرتے آ رہے ہیں جو آپ کے محبین کے دلوں کو چھلنی کر دیتی ہے، مجھے ان تنقیدوں اور اُن کے جملوں کو دوہرانے کی ضرورت نہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آپ نے آج تک اُن محترم کے بارے میں ایک بھی منفی جملہ نہیں بولا, بلکہ ان کی شدید تنقید پر مکمل سکوت و اعراض کا رویہ اختیار کیا, یہاں تک کہ اس بارے میں جب سوالات کیے گۓ تب بھی آپ نے بات کو ٹال دیا۔ یہ تضاد ہمارے لیے حیران کن اس لیے بھی ہے مولانا نعمانی کی جانب سے آپ کے بارے میں نامزد کوئی تنقید اب تک تو ہماری نظروں سے نہیں گزری۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تنظیمی قوت کا خوف یا کچھ تحفظات ہیں جس نے آپ کو یہ عملی تضاد اختیار کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ وہ مولانا نعمانی ہوں یا کوئی اور عالم دین یہاں تک کہ آپ کی اپنی شخصیت کے بارے میں بھی کسی کا انداز تحقیر اور تذلیل پر مبنی ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ کسی پر بھی بغیر یقینی ثبوت کے اتہام نہیں لگانا چاہیے۔ میں نے کچھ عرصے پہلے جب آپ کے سلسلے میں ایک عالم دین کے انٹرویو کے بعد قضیہ گرم تھا تو ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا, اُس کی چند سطور درج ذیل ہیں :
"آخر میں جناب اویسی صاحب کے تعلق سے بھی یہ بات عرض کر دوں کہ یہ طالب علم راقم سطور دیگر بہت سے اہل علم و دانش کی طرح ان کو ایک پختہ سیاست داں کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ قانون پر ان کی جو گرفت ہے اور ملت کے لیے ان کی جو بلند آواز ہے وہ قابل تعریف ہے، البتہ سیاسی فیصلوں میں ان کو دیگر اہل نظر سے مشاورت ضرور رکھنی چاہیے، لیکن وہ اس معاملے میں اکثر و بیشتر صحیح رخ اختیار نہیں کر پاتے ہیں۔ میں ان کی نیت پر کبھی شک نہیں کر سکتا البتہ ان کے فیصلوں پر تنقید کا حق سب کو حاصل ہے۔”

صدر صاحب !

اگر آپ کا اور مجلس کے کارکنان کا یہی رویہ جاری رہا تو پھر دھیرے دھیرے لوگوں کے دلوں سے آپ کی وقعت ختم ہو جاۓ گی۔ ویسے بھی آپ کی تقریروں میں جمع ہونے والی بھیڑ اور ملنے والے ووٹ, مختلف صوبوں میں آپ کے عہدیداران اور فتح یاب ہونے کے بعد بھی پارٹی بدلنے والے لیڈران, یہ پورا منظر نامہ اگر غور سے سمجھا جاۓ تو واضح ہو جاتا ہے کہ ابھی مخلص قائدین اور کارکنان تو بہت دور کی بات, ابھی تو ملک و ملت کے لیے مفید کوئی واضح ہدف اور مقصد بھی سامنے نہیں ہے۔ اس لیے اپنے طرز عمل پر از سر نو غور فرمائیے اور اپنی روش تبدیل کیجیے۔ آپ جیسے پڑھے لکھے انسان پر یہ بازاری جملے اور انتہائی سطحی گفتگو کہیں سے زیب نہیں دیتی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔