سقوط شام: اندیشے ، امکانات
سقوط شام: اندیشے ، امکانات

سقوط شام: اندیشے ، امکانات از: ڈاکٹر تسلیم رحمانی ____________________ آخر کار شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو ہی گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ظلم و استبداد کے ۶۱ سالہ عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا نیز عرب دنیا میں کمیونسٹ نظریے کی حامی بعث پارٹی کا آخری قلعہ بھی منہدم ہوگیا۔ […]

کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ
کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ

کرپٹو کرنسی اور اسلام: ایک جامع تجزیہ از؛ ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال ___________________ کرپٹو کرنسی ایک قسم کی ڈیجیٹل یا ورچوئل کرنسی ہے جس کے بارے میں آج ہر خاص و عام بات کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ ہمارے لیے ایک نئی چیز ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں اسے جاننا چاہیے تاکہ ہم فیصلہ […]

عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ
عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ

عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ از: ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال _________________ عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل پیچیدہ اور ہمہ جہت ہیں، جو مختلف تہذیبی، سماجی، اور اقتصادی پہلوؤں کو محیط ہیں۔ ان مسائل میں اسلام کے عطا کردہ حقوق سے لاعلمی، سماجی رسم و رواج کی […]

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

ملک شام اور شہر دمشق کا تعارف اور تاریخ

ملک شام اور شہر دمشق کا تعارف اور تاریخ ترتیب: محمد قمر الزماں ندوی _____________________ ملک شام کا تذکرہ حدیث...
Read More
تجزیہ و تنقید

سقوط دمشق کی کہانی

سقوط دمشق کی کہانی از:- افتخار گیلانی __________________ مشرقی ترکی کے قصبہ کیلس میں سرحد سے بس 500میٹر دور شامی...
Read More
تجزیہ و تنقید

دیدی کا عزم: بنگلہ صنعت – مغربی بنگال میں صنعتی انقلاب کی نئی بنیاد

دیدی کا عزم: بنگلہ صنعت – مغربی بنگال میں صنعتی انقلاب کی نئی بنیاد از: محمد شہباز عالم مصباحی سیتل...
Read More
ماحولیات

سردی کا موسم اور ہماری ذمہ داریاں

سردی کا موسم اور ہماری ذمہ داریاں مفتی ناصرالدین مظاہری ________________ موسم سرما کی آمد آمد ہے ۔ رسول اللہ...
Read More
مقالات

ہر سال کی طرح امسال بھی ہوا زخم تازہ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر سال کی طرح امسال بھی ہوا زخم تازہ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ از: جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی...
Read More

مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی تکفیری ذہنیت: ایک فکری اور عملی جائزہ

مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی تکفیری ذہنیت: ایک فکری اور عملی جائزہ

✍️ ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا، نیپال

________________

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک بڑھتی ہوئی تکفیری ذہنیت ہے، جس کے تحت کچھ افراد یا جماعتیں دوسروں پر کفر یا گمراہی کے فتوے بڑی آسانی اور بے دریغ صادر کر دیتے ہیں۔ اس رویے کا ایک نقصان یہ ہے کہ یہ امت کے فکری اتحاد کو کمزور کر رہا ہے اور اسلام کے اجتماعی مزاج کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس عمل کے دوران، وہ اصول و ضوابط جن پر تکفیر کی بنیاد ہونی چاہیے، اکثر نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شرعی دلائل کے بغیر یا غیر مستند تفاسیر کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے، جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی امن کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس رجحان نے امت مسلمہ میں تقسیم، بدگمانی اور تنازعات کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات عملی میدان میں مزید شدید ہیں۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے، تکفیری ذہنیت نے عدم برداشت کو فروغ دیا ہے، جس کے نتیجے میں باہمی اعتماد کا فقدان پیدا ہوا ہے۔ اسلام جو کہ رحمت، اعتدال، اور اتحاد کا دین ہے، اس قسم کی انتہا پسندی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے، ہم اس مضمون میں نبی کریم ﷺ کی سیرت اور سلف صالحین کی مثالوں کا جائزہ لیں گے۔ ساتھ ہی تکفیر کے حکم کے لیے اسلامی اصولوں اور احتیاط کی ضرورت پر گفتگو کریں گے اور اس کے معاشرتی نقصانات پر بھی بحث کریں گے تاکہ ہم خود بھی اس قبیح عمل سے بچ سکیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کریں۔

نبی کریمﷺ کی سیرت اور تاریخی مثالیں

نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی زندگیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ تکفیر کے معاملے میں انتہائی محتاط رویہ اپنانا اسلامی اصولوں کا حصہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے منافقین کی نشاندہی کر دی تھی، لیکن آپ نے کبھی ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کی تکفین کے لئے اپنا کرتا بھی اتار کر دے دیا اور ساتھ ہی نماز جنازہ بھی ادا کی، حالانکہ اس کے رویے اور کردار سے ہر کوئی واقف تھا۔ حالانکہ اس کے بعد یہ آیت اتری ’’اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے تو تم اس پر نماز (جنازہ) مت پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کیا اور اس حالت میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔‘‘(التوبہ:۸۴) اس آیت میں منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے قطعی طور پر منع کردیا گیا، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (صحیح مسلم) ۔ یہ واقعہ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق، رحمت، اور امت کے اتحاد کو ترجیح دینے کی عمدہ مثال ہے۔

اسی طرح ایک مشہور واقعہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے ساتھ پیش آیا، جس میں وہ ایک شخص کو میدان جنگ میں قتل کر بیٹھے حالانکہ اس نے عین وقت پر کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا۔ جب نبی اکرم ﷺ کو اس واقعے کی خبر ملی تو آپ نے حضرت اسامہؓ سے دریافت کیا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا، جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس نے یہ کلمہ صرف خوف کے مارے پڑھا تھا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ؟” آپ ﷺ نے مزید فرمایا: "ہمیں لوگوں کی نیتوں کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، یہ معاملہ صرف اللہ کے سپرد ہے۔”یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی کو کافر یا فاسق کہنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے، اور ہمیں ہر صورت میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ امت کے اتحاد اور بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچے۔

اسلامی تاریخ میں بھی علماء نے ہمیشہ تکفیر کے حوالے سے احتیاط کی تلقین کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ جیسے علماء نے اس بات پر زور دیا کہ حق کی تلاش میں غلطی کرنے والے شخص کو کافر یا فاسق قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس کی نیت اور اجتہاد کی کوشش کو مدنظر رکھ کر اس کی خطا کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: "کوئی بھی شخص جو حق کی جستجو میں کوشش کرے اور غلطی کا شکار ہو جائے، اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کی غلطی معاف کی جائے گی۔”

انہوں نے اپنے فتاویٰ میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں، جن میں خلفائے مسلمین کی غلطیوں پر نرم رویہ اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى” (23/349) میں کہتے ہیں: "امام احمد رحمہ اللہ نے ان مسلمان خلیفوں پر بھی "رحمہ اللہ” کہتے ہوئے دعا کی ہے جنہوں نے جہمی نظریات سے متاثر ہو کر قرآن مجید کو مخلوق سمجھ لیا تھا اور اسی موقف کے داعی بن گئے تھے، امام احمد نے ان کیلیے دعائے مغفرت بھی کی؛ کیونکہ امام احمد جانتے تھے کہ ان مسلمان خلفائے کرام پر یہ بات واضح ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ [قرآن کریم کو مخلوق مانتے ہوئے] غلط ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں، نہ انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے تاویل کی تھی اور اسی تاویل میں انہیں غلطی لگی، اور ایسے لوگوں کی تقلید کر بیٹھے جو خلق قرآن کے قائل تھے”

اسی طرح "مجموع الفتاوى” (12/180) کی ایک اور جگہ کہتے ہیں: "کسی کو کافر قرار دینے کے متعلق صحیح قول یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جو شخص تلاش حق کیلیے جد و جہد کرے اور غلطی کا شکار ہو جائے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کی یہ غلطی معاف کر دی جائے گی۔ البتہ جس شخص کیلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی بات کا علم ہو گیا اور اس کے با وجود ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی مومنین کا راستہ نہ اپنائے تو وہ کافر ہے۔ اور اگر ہوس پرستی کے غلبہ میں تلاش حق میں کوتاہی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور لا علمی کے باوجود شرعی امور میں گفتگو کرتا ہے تو وہ نافرمان اور گناہگار ہے اس لیے وہ فاسق ہو گا، ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے زیادہ ہوں” "تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ مغفرت کا حق دار ہے۔” (یہ گفتگو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: "القواعد المثلی” کے آخر سے لی گئی ہے، ساتھ میں کچھ اضافے بھی ہیں)

ابن تیمیہؒ کی تعلیمات میں یہ واضح ہے کہ اگر کسی شخص کو نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کا علم نہ ہو، یا وہ اجتہاد کرتے ہوئے غلطی کا مرتکب ہو جائے، تو اسے کافر قرار دینا جائز نہیں۔ ایسی غلطیوں کو معاف کرنا شریعت کے عین مطابق ہے، جب تک کہ وہ شخص جان بوجھ کر ہدایت سے انحراف نہ کرے۔ اسی اصول کو واضح کرنے کے لیے ابن تیمیہؒ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا جس میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے جو اللہ کے خوف سے اپنی لاش کو جلا کر اڑا دینے کی وصیت کرتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی قدرت پر شک تھا۔ تاہم، اللہ تعالیٰ نے اس کے خوف اور خلوص کی بنیاد پر اسے معاف کر دیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اجتہاد کرنے والے یا غلطی کرنے والے مومن کے لیے بخشش کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، بشرطیکہ اس کی نیت درست ہو اور وہ سنت رسول ﷺ کی پیروی کی کوشش کر رہا ہو۔

اس کے برعکس، آج کے دور میں کچھ مسلمان دوسروں پر کفر کے فتوے جاری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ رویہ اس وقت اور بھی افسوسناک ہو جاتا ہے جب یہ لوگ خود اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں کوتاہ ہوتے ہیں، لیکن دوسروں کو کافر، گمراہ، یا فاسق قرار دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف امت کے اندر فکری انتشار اور تقسیم پیدا کر رہا ہے بلکہ اسلامی اخوت اور رواداری کے اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ حسنہ کو اپناتے ہوئے امت میں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے اور تکفیر جیسے حساس معاملات میں انتہائی احتیاط برتی جائے۔

تکفیر کا حکم: اسلامی اصول اور احتیاط کی ضرورت

اسلامی شریعت میں کسی مسلمان کو کافر یا فاسق قرار دینا ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے، اور اس کا فیصلہ کرنے کا حتمی حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو حاصل ہے۔ یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ اس میں غلطی نہ صرف شدید گناہ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ امت مسلمہ میں انتشار اور تنازعہ بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تکفیر کے بارے میں اسلامی اصولوں کو پوری طرح سمجھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔

  • 1. قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل کی موجودگی:

کسی شخص کو کافر قرار دینے کے لیے واضح اور غیر مبہم شرعی دلیل ضروری ہے۔ اگر دلائل موجود نہ ہوں، تو کسی پر کفر یا فسق کا حکم لگانا شرعاً حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور جو ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے علاوہ کسی اور راستے پر چلے، ہم اسے اسی راستے کے سپرد کر دیتے ہیں جس پر وہ چلا ہے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔” (النساء: 115) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کسی کو کفر کا مرتکب قرار دینے سے پہلے ہدایت کا مکمل طور پر واضح ہونا ضروری ہے۔

  • 2. شخصی تکفیر کے لیے مخصوص شرائط کا پورا ہونا:

کسی شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے پہلے مخصوص شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ متعلقہ شخص کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کا قول یا عمل شرعی لحاظ سے کفر یا فسق کا باعث ہے۔ اگر کسی سے کفریہ فعل غیر ارادی طور پر یا مجبوری میں سرزد ہو تو اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کسی شخص نے اجتہادی غلطی کی ہو یا تاویل کی بنا پر کوئی ایسا قول یا فعل کیا ہو، تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا، کیونکہ اس کا عمل نیت پر مبنی ہے اور نیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ضروری ہے۔

  • 3. کفر کا حکم لگانے کے نتائج:

کسی مسلمان کو کافر کہنے کے عمل کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنا گویا اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے کے مترادف ہے، کیونکہ اللہ ہی دلوں کا حال جانتا ہے اور کفر کا حتمی فیصلہ کرنے والا ہے۔ اگر وہ شخص جس پر کفر کا الزام لگایا گیا ہے، حقیقت میں کافر نہ ہو تو کفر کا یہ حکم خود فتویٰ دینے والے پر واپس آ جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو یہ حکم ان دونوں میں سے کسی ایک پر لاگو ہو جاتا ہے۔” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ان اصولوں کی روشنی میں واضح ہے کہ تکفیر کا حکم انتہائی احتیاط اور شرعی اصولوں کے تحت ہی دیا جانا چاہیے۔

معاشرتی نقصانات

امت مسلمہ کے اندر موجود اختلافات، جو فکری یا فقہی بنیادوں پر ہوتے ہیں، اگر ان کا مناسب طریقے سے حل نہ کیا جائے تو وہ احترام اور گفت و شنید کی بجائے ذاتی عناد اور دشمنی کا رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا رویہ نہ صرف باہمی رشتوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اختلافات کا مثبت حل تبھی ممکن ہے جب ان کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر، حکمت، اور مکالمے کو اپنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کے دور میں اختلاف کو دشمنی اور نفرت کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، جس کے سبب امت کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

اسلام کی اصل روح محبت، رہنمائی، اور ہدایت پر مبنی ہے۔ تاہم، جب اختلافات کو ذاتی عناد میں بدلا جاتا ہے تو دعوتِ دین کا مقصد پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ لوگ دین کی دعوت دینے اور اس کے حقیقی پیغام کو عام کرنے کے بجائے اپنے ذاتی نظریات اور ایجنڈے کو اہمیت دینے لگتے ہیں۔ اس سے دین اسلام کا اصل پیغام، جو امن، محبت، اور انسانیت کی بھلائی پر مبنی ہے، دھندلا جاتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔

امت مسلمہ کے اندر بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور اختلافات غیر مسلم اقوام کے سامنے اسلام کی منفی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ رویہ اسلام کے پرامن اور عادلانہ پیغام کو غیر مسلم دنیا کے لیے غیر واضح بنا دیتا ہے۔ جب مسلمان ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے اور اختلافات کو شدت پسندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، تو اس سے اسلام دشمن عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ امت کے اندرونی اختلافات کو مزید ہوا دیں۔ نتیجتاً، غیر مسلم اقوام میں اسلام کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، اور اسلاموفوبیا جیسی منفی سوچ پروان چڑھتی ہے، جو دعوتِ دین کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔

نتیجہ اور اصلاح کی راہ

یہ مسائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ امت مسلمہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور اختلافات کو دشمنی کے بجائے محبت اور گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ دین کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے اتحاد، اخوت، اور دعوتِ دین کے پرامن طریقوں کو اپنانا ہی ایک بہتر معاشرتی اور عالمی تصویر پیش کرنے کا واحد راستہ ہے۔ جب تکفیر جیسے حساس معاملے کے نتائج اتنے سنگین اور دوررس ہیں، تو یہ نہ صرف عام افراد بلکہ دین کے طالب علموں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ایسے مسائل میں پڑنے سے گریز کریں۔ ایک مبتدی طالب علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ علم نافع کے حصول کی کوشش کرے، تاکہ وہ اپنی دنیا و آخرت سنوار سکے۔ اسی طرح، عام مسلمانوں کو بھی اپنے رویے میں اصلاح لانے کی ضرورت ہے۔

تکفیر کے بجائے ہمیں نبی کریم ﷺ کی سیرت کو اپنانا چاہیے، جو اخوت، برداشت، اور صبر کی عملی مثال ہے۔ علماء کرام اور دینی رہنما اس معاملے میں امت کی رہنمائی کریں اور معاشرتی اختلافات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں پر کفر اور فسق کے فتوے لگانے کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دے اور امت کے اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کام کرے۔ ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کو کافر اور فاسق قرار دینے کا حق صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ہے۔ اس لیے ایسے معاملات میں احتیاط کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ امت مسلمہ کی ترقی اور بقا اسی میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور محبت، رواداری، اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔

اے الله ہمیں اُن لوگوں میں شامل کر جو مسلمانوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اتحاد و تعاون کو بڑھاتے ہیں۔ اے الله ہمیں اپنی امت میں امن و رحمت کے پھیلاؤ کا سبب بنائے، ہمیں تسامح اور سمجھ بوجھ پھیلانے کی طاقت عطا فرما، اور ہمیں ہمیشہ اپنے دین اور امت کی خدمت میں مخلص رہنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: