بھیڑ کا صحیح استعمال: وقت کی اہم ضرورت
بھیڑ کا صحیح استعمال: وقت کی اہم ضرورت
از: آفتاب اظہر صدیقی
کشن گنج، بہار
_______________________
آج کے دور میں امت مسلمہ کے پاس جو سب سے بڑی طاقت ہے، وہ اس کی تعداد ہے۔ مسلمان ملک کے ہر کونے میں موجود ہیں اور اپنے اتحاد کے ذریعے وہ کسی بھی بڑی تحریک کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم اپنی اس طاقت کو صحیح سمت میں استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔
آج کشن گنج میں جمعیۃ علماء ہند کے محمود مدنی گروپ کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے کی تیاریاں مہینے بھر سے کی جارہی تھیں، مساجد میں اعلانات کیے گئے، گشت کرکے عوام کو متوجہ کیا گیا اور لاکھوں روپے کا چندہ جمع کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس جلسے میں شامل کیا جا سکے۔ لیکن آخر میں، جب جلسہ منعقد ہوا، تو مشکل سے پندرہ سے بیس ہزار افراد کا مجمع اکٹھا ہوسکا۔
مولانا محمود مدنی نے اس مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر کیا۔ انہوں نے صبر و تحمل کی بات کی، جو یقیناً ایک اچھی نصیحت ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف نصیحت کرنا کافی ہے؟ کیا ایسے بڑے مجمع کا مقصد صرف جلسہ جلوس میں شرکت کرنا اور پھر گھر لوٹ جانا ہے؟
ہماری قوم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی بھیڑ کو صحیح اور جرات مندانہ طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مجمع صرف نعرے لگانے یا مقررین کی تقریریں سننے کے لیے نہیں ہے۔ یہ وقت ہے عملی اقدامات کا، اپنی طاقت کے اظہار کا اور حکومت کو یہ باور کرانے کا کہ ہم اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
آج مولانا محمود مدنی اور ان کی قیادت کے لیے سنہری موقع تھا کہ وہ ان بیس ہزار افراد کے ساتھ مل کر ایک پُرامن، مگر مضبوط احتجاج کرتے۔ اگر یہ مجمع ریلوے ٹریک پر بیٹھ کر حکومت کو یہ پیغام دیتا کہ جب تک وقف بل واپس نہیں لیا جاتا اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے، تو یہ ایک تاریخی اقدام ہوتا۔
ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ حکومت پر دباؤ بڑھتا، بلکہ مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے اور وہ یہ محسوس کرتے کہ ان کی قیادت حقیقی معنوں میں ان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس طاقت کو صرف ایک جلسہ تک محدود رکھا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے وسائل، وقت اور جذبے کا بے جا استعمال کیا گیا۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی طاقت کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ہمارے وسائل کو صحیح سمت میں لگائے، ہماری بھیڑ کو طاقت میں تبدیل کرے اور ایسے عملی اقدامات کرے جو واقعی قوم کے حالات بدلنے میں معاون ثابت ہوں۔ جلسے، جلوس اور کانفرنسز تب تک بے معنی ہیں جب تک وہ عملی نتائج نہ دیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی جدوجہد کو صرف تقریروں سے نکال کر میدانِ عمل میں لے آئیں۔
کوئی بتائے کہ جو قائدین ملت مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اسلاف کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ہمارے اسلاف نے جانوں کی قربانیاں دے کر اس ملک کو آزاد کیا ہے” "ہم شریعت کے معاملے میں چپ نہیں رہیں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے” کیا وہی قائدین صرف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسٹیج سے یہ زبانی دعوے چہ معنی دارد؟ کیا اسلاف کی جرات کی رتی بھر جھلک بھی آپ میں نظر آتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر اسلاف کا نام لینا بھی چھوڑ دیجیے اور تنظیموں کے عہدوں سے بھی دستبرداری کا اعلان کر دیجیے۔ ملت پر آپ کا بڑا احسان ہوگا۔