سچ تو مگر کہنے دو؛ جاگو ورنہ…..!
سچ تو مگر کہنے دو
جاگو ورنہ…..!
از:- ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
_________________
اترپردیش کے ضلع امروہہ کے ایک گروکل کی ویڈیو کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔ایک منٹ کی یہ کلپ دیکھ کر آپ کے رونگٹھے کھڑے ہو جائیں گے۔ سناتنی کے عنوان سے تیار کی گئی اس کلپ سے آنے والے کل کے ہندوستان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس جس طرح سے تیاری کر رہی ہے اس ملک کو زعفرانی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کوئی نئی کلپ نہیں ہے بلکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تبھی سے اس قسم کی تصاویر مختلف رسائل و جرائد میں دیکھتے رہے ہیں۔ ویسے آر ایس ایس نے کبھی بھی ان کے عزائم کی پردہ پوشی نہیں کی بلکہ علی الاعلان اپنے ارادے عوامی جلسوں، میڈیا کے ذریعے ظاہر کئے ہیں۔ چونکہ ابھی تک عام ہندوستانیوں کیلئے، بالخصوص مسلمانوں کو ہندوستان کے سیکولر کردار پر پورایقین تھا، اور یہ بھی یقین رہا کہ اس ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ اگرچہ کہ ہندوں پر مشتمل ہے تاہم زیادہ تر ہندو آبادی سیکولر نظریات اور اقدار کی حامل ہے۔ سب سے زیادہ بھروسہ عدلیہ پر تھا کہ سب بدل سکتے ہیں مگر ہندوستان کا عدلیہ نہیں بدل سکتا۔ کیونکہ قانون کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انصاف کرتے وقت اسے نہ ہندو نظر آتا ہے اور نہ مسلمان مگر اب ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ پٹی اسلئے باندھی گئی ہے کہ سوائے اکثریتی طبقے کے کوئی اور نظر ہی نہ آئے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران عدلیہ نے جو فیصلے کئے اس سے مسلمانوں کا بھرم عدلیہ پر سے ختم ہونے لگا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ججس کو اعلی عہدوں کے پیش کش یا لالچ نے عدالتی نظام کو آلودہ کردیا ہے۔ ایک دور تھا جب برسر خدمت ججس کسی سے بھی مذہبی تقریب میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔ مگر اب کچھ ججس اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے ہندوتوا تنظیموں کی میٹنگس میں نہ صرف شرکت کر رہے ہیں بلکہ علی الاعلان ہندوتوا نظریات کی حمایت کر رہے ہیں۔ جیسا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو نے وشوا ہندو پریشد کی میٹنگ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہئے کہ ملک اکثریت کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ اور یونیفارم سول کوڈ ایک حقیقت ہوگا۔جسٹس شیکھر یادو نے اس سے پہلے بھی کئی متنازعہ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے گیتا اور رامائن کو اسکول کی نصاب میں شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ گائے واحد جانور ہے جو تنفس کے درمیان آکسیجن لیتی بھی اور خارج بھی کرتی ہے۔ جسٹس یادو نے ہمیشہ وزیر اعظم مودی کی ستائش کی ہے۔ مختلف سیاست دانوں نے ان کے خلاف کاروائی اور انکوائری کامطالبہ ہے۔دیکھنا ہے کہ رسمی طور پر ہی سہی ان پر کاروائی ہوتی ہے یا مزید ترقی دی جاتی ہے ویسے وہ 15 اپریل 2026 تک برسر خدمت رہیں گے۔ وی ایچ پی کے صدر الوک کمار نے جسٹس شیکھر یادو کی شرکت اور ان کے ریمارکس کی حمایت کی ہے اور اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کردیا۔بہرحال شیکھر یادو ہو یا رنجن گگوئی یا پھر جسٹس چندر چور کسی نے برسر خدمت رہتے ہوئے اور کسی نے سبک دوشی کے بعد اپنے اصلی رنگ ظاہر کئے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوتوا تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کے اثرات اس قدر بڑھتے جارہے ہیں۔ ویسے بھی سرکاری ملازمین کی آر ایس ایس میں شمولیت پر جو امتناع تھا 9 جولائی 2024 ء کو برخاست کردیا گیا۔ امتناع کے باوجود بھی کئی سرکاری ملازمین آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور آر ایس ایس سے سرکاری ملازمین کی وابستگی پر امتناع عائد کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی سے متعلق امتناع بر قرار ہے جس سے ملک کی موجود صورتحال اعلی قیادت کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
27 ستمبر 2025ء کو آر ایس ایس اپنی قیام کے 100 سو سال مکمل کر لے گی۔ ہیڈ گوارے نے سو برس پہلے ہندو قوم پرستی کے نام پر راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد ڈالی تھی اور 100 برس میں ان کے عزائم کی تکمیل تقریبا ہوچکی ہے۔ آج آر ایس ایس کی لگ بھگ 85 ہزار شاکھائیں ہندوستان میں موجود ہیں اور 39 ممالک میں باقاعدہ ان کا وجود ہے۔ مشرق وسطی میں باقاعدہ ان کی شاکھائیں نہیں ہے مگر مختلف شخصیات کے گھروں یا ٹھکانوں پر ان کی میٹنگس ہوتی ہے۔آر ایس ایس کی باقاعدہ ممبر شپ نہیں ہوتی اس کے باوجود ان کا نیٹ ورک منظم اور فعال ہے۔ وہ کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے بلکہ بھارت ماتا ان کے لئے سب کچھ ہے اور بھگوا جھنڈا ان کا گرو ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 60 ہزار شاکھائیں روزانہ ورزشی سیشن اور 17 ہزار سے زائد شاکھائیں ہفتہ وار سیشن کا اہتمام کرتی ہے۔ انہوں نے اسکولی طلبہ سے ان کی ذہن سازی اور ایک ہندو راشٹریہ کے لئے تیاری کامیاب طریقے سے کی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 30 ہزار اسکولس آر ایس ایس کے تحت قائم ہیں جنہیں سرس وتی شیشو مندر کہا جاتا ہے۔ جن میں 30 لاکھ طلبہ پڑ رہے ہیں اور انہیں دیڑھ لاکھ اچاریہ تعلیم دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1946 میں ایم ایس گول والکر نے کروک شیترامیں پہلا اسکول قائم کیا تھا۔ اور نانا جی دیش مکھ نے 1952 میں گورکھپور میں سرسوتی شیشو مندر تیار کیا تھا۔ 80 برس سے کم عرصے میں ان اسکولس کی تعداد 30 ہزار پہنچ گئی جس سے ان کی مستقل مزاجی عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کا وجود جن سنگھ اور بی جے پی سے پہلے بھی تھا۔ سیاسی نظریات کے تحت ہندوستان کو چلانے کیلئے بی جے پی قائم ہوئی۔ طلبہ کیلئے اے بی وی پی اسکولس کیلئے ویدیا بھارتی، ہندوتوا تحریک کیلئے وی ایچ پی، سوشل سروس کیلئے سیوا بھارتی، نیشنل والنٹیرس کیلئے راشٹریہ سیویکا سمیتی، ویویکانند نظریات کے پرچار کیلئے ویویکا نند کیندر قائم ہے۔ اس کے علاوہ سیول سرونٹس، سرکاری ملازمین، عدلیہ سے وابستہ ارکان کیلئے ان کی الگ الگ برانچس ہیں جن کے اثرات ہمیں زندگی کے ہر شعبہ حیات میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اب بھی آر ایس ایس کے نظریات کی مخالفت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے سرکاری ملازمین کی وابستگی پر سے امتناع کی برخاستگی کے خلاف 115 سابق سول سرونٹس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اپنے مکتوب میں یہ بتایا تھا کہ ملک میں ہونے والے گزشتہ فسادات کیلئے ذمہ دار عناصر کا تعلق آر ایس ایس سے ہے۔ اس مکتوب میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 6 عدالتی کمیشنوں نے ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والے فسادات پر جو انکوائری رپورٹ پیش کئے تھے اس میں احمدآباد فسادات 1996 ء، بھیونڈی فسادات 1970ء، ٹلی چرلی 1971ء، جمشید پور 1979ء، کنیاکماری 1982 ء، بھاگلپور 1989ء، فسادات میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے کی رپورٹ پیش ہوئی تھی مگر موجودہ حکومت نے 58 سالہ پابندی برخاست کردی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی کبھی بھی کسی فساد میں نہ حصہ لیا اور نہ اس کے خلاف کوئی ایسی شکایت کی گئی اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک سماجی، فلاحی، تنظیم ہونے کی سزا دی گئی ہے۔
آر ایس ایس سے متعلق اس تحریر کا مقصد اس کی تعریف یا اپنی قوم کو خوف زدہ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان کی مستقل مزاجی،اتحاد، نیٹ ورک سے ہم کچھ کیوں نہیں سیکھ سکتے؟ اس کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ہر جگہ ذلیل و رسوا ہونے کے باوجود قدموں کے نیچے سے زمین کو کھسکتے ہوئے محسوس کرنے کے باوجود ہم آخر خواب غفلت سے جاگنے کیلئے تیار کیوں نہیں ہیں۔ ہم کب تک ناانصافی، ظلم کا رونا روتے رہیں گے؟ ہم تو وہ قوم ہیں جو صرف اور صرف اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان ہے۔ فراست ہمارا ہتھیار ہے۔ہمارے اسلاف، آباؤ اجداد نے اللہ کے دین کی تبلیغ اور ایسے مسلمان اپنی پہچان کیلئے جو قربانی دی ہے ہم اپنے تساہل اور عمل سے اس کی قدر و قیمت کھو رہے ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے! کہ ہمارے عبادت گاہوں پر حرام نسل کے لوگ اپنے پرچم لگاتے ہیں۔ اور ہم انہیں روکنے کے بجائے اپنے موبائل فون سے اس کی ویڈیو گرافی کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کرکے لائک، شیئر اور کامنٹ کی خواہش کرتے ہیں۔ اس قوم کو اگر ہر طرف سے مار پڑتی ہے تو وہ اس کے مستحق ہیں۔ جو خود کا دفاع نہیں کرسکتے انہیں جینے کا حق کیسے ملے؟ اور دفاع کیلئے جسم میں طاقت اور فطری طور پر ہمت و جرأت کی ضرورت ہے۔ وہ اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم واقعی مسلمان بن جائیں۔ بارات میں نوٹ اڑانے والے، شادی بیاہ کی تقاریب میں ناچنے والیوں پر دولت لٹانے والے فارم ہاؤسس میں پارٹیوں کے نام پر عیاشی کرنے والے، جائیداد چاہے یتیم، بیوا، کی ہو یا وقف کی اس پر ناجائز قبضہ کرنے والے ملت کی سوداگری کرکے اپنے پرچم لہرانے والے مسجدوں میں منبروں سے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرکے اپنی دکان چمکانے والے کیا مسلمان ہوتے ہیں؟ جب یہ برائیاں ہمارے سماج میں سرایت کر جائے تو قدر ت کی سزا واجب ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ گلیمر ورلڈ ہو یا اسپورٹس کی دنیا یہاں کوئی مسلمان نام کماتا ہے اس پر دولت کی بارش ہوتی ہے تو یہ ہمارا آئیڈیل بن جاتا ہے۔ حالانکہ نام کے ان مسلمانوں نے اجتماعی طور پر قوم کو رسوا کیا ہے۔ عام مسلمان سیدھاسادھاہوتا ہے وہ ہر نامور مسلمان کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے۔ اور وہ ہیرو یا کھلاڑی جسکے لئے سیدھا سادھا مسلمان دعاء بھی کرتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی عیار، مکار، سازشی، اداکاروں، موڈلس کے جال میں پھنس جاتا ہے اور پھر سب کچھ لٹاکر جہاں تھا وہیں واپس ہو جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں غیر قوم کے اداکارا ہو یا کھلاڑی انہوں نے اپنے مذہب کیلئے، قوم کیلئے، سماجی، فلاح و بہبود کیلئے اپنی دولت وقف کردی۔ ایودھیا میں مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہوئی تو بیشر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کچھ نام و نہاد مسلمان اداکاروں نے کروڑوں روپیوں کا عطیہ دیا۔ کیا کسی مسلم کھلاڑی یا نام کے مسلم ادکاروں نے مسلمان کے فلاح و بہبود کیلئے چیریٹی کیلئے کوئی کام کیا ہے؟ بات مسلمانوں پہ آجاتی ہے تو انسانیت اور سیکولرزم کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ بہرحال ہمیں موجودہ حالات سبق لیتے ہوئے اپنے آپ کو اپنے ہی پیروں پر کھڑا کرناہے ورنہ دوسری قوم آپ کو روندنے کیلئے تیار ہے۔