مسلم آیوگ نیپال: بلند ذمہ داریاں اور عملی کمزوریاں
از: ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
_____________________
مسلم کمیشن نیپال، جو مسلم آیوگ نیپال کے نام سے جانا جاتا ہے، کے قیام کا مقصد نیپالی مسلم کمیونٹی کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ یہ کمیشن ان کے حقوق کے تحفظ، سماجی اور اقتصادی ترقی، اور مجموعی طور پر کمیونٹی کو بااختیار بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا قیام اس امید کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ یہ مسلمانوں کے لیے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں مددگار ثابت ہوگا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔
آئین میں مسلم کمیشن کے فرائض اور اختیارات واضح طور پر درج ہیں۔ ان میں کمیونٹی کی سماجی، ثقافتی، اور اقتصادی بہتری کے لیے پالیسی سازی سے لے کر ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو مشورے دینے جیسے اہم ذمہ داریاں شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ادارہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور ان کے لیے ایک امید کی کرن بن سکتا ہے۔ تاہم، مسلم کمیشن نیپال کی عملی حالت آئینی توقعات سے کافی مختلف نظر آتی ہے۔ وہ ادارہ جو نیپالی مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لیے ایک بڑا اور مؤثر کردار ادا کر سکتا تھا، عملی طور پر اپنے مقاصد سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ اس کے اقدامات اور کارکردگی مسلم کمیونٹی کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس مضمون میں ہم مسلم کمیشن اور آیوگ کی ذمہ داریوں اور ان سے وابستہ توقعات کا جائزہ لیں گے، ساتھ ہی ناکامی کی وجوہات اور ان کے نتیجے میں کمیونٹی کو ہونے والے نقصانات پر بھی بات کریں گے۔ کمیشن کے قیام کا مقصد مسلم کمیونٹی کے حقوق کی حفاظت، ان کے مسائل کے حل اور ان کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا تھا، لیکن عملی کمزوریوں اور غیر مؤثر پالیسیوں کی وجہ سے یہ ادارہ اپنی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا۔ اس مضمون میں ہم اس بات کا بھی تذکرہ کریں گے کہ کس طرح ایک مضبوط حکمت عملی اور شفافیت کے ذریعے کمیشن کو فعال بنایا جا سکتا ہے، تاکہ کمیونٹی کی بہبود کا سفر کامیابی سے آگے بڑھ سکے۔
کمیشن کی ذمہ داریاں اور توقعات
مسلم کمیشن کو مسلم کمیونٹی کی قانونی، سماجی، اور معاشی حیثیت کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کے تحت کمیشن کو چاہیے کہ وہ کمیونٹی کو درپیش مسائل کا تفصیلی مطالعہ کرے اور ان کے حل کے لیے مناسب پالیسیز اور قوانین کی سفارشات پیش کرے۔ یہ پہلو مسلم کمیونٹی کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ مؤثر پالیسی سازی کے بغیر ترقی کا عمل ممکن نہیں۔
مسلم کمیشن کا ایک اہم فرض یہ ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اور پروگرامز تجویز کرے جو مسلم کمیونٹی کو بااختیار بنانے میں مددگار ثابت ہوں۔ ان پروگراموں میں تعلیم، صحت، روزگار، اور سماجی بہبود کے منصوبے شامل ہونے چاہییں، جو کمیونٹی کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ ان اقدامات کا مقصد کمیونٹی کو ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
مسلم کمیونٹی کے آئینی اور انسانی حقوق کا تحفظ کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے کمیشن حکومت کو ٹھوس اقدامات کی تجاویز پیش کرنے کا مجاز ہے، تاکہ مسلم کمیونٹی کو ان کے قانونی حقوق مل سکیں۔ یہ ذمہ داری کمیشن کے کردار کو مزید اہم اور بااثر بناتی ہے، کیونکہ حقوق کا تحفظ کسی بھی کمیونٹی کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔
مسلم کمیونٹی کی زبان، ثقافت، اور تاریخی روایات کے تحفظ کے لیے مسلم کمیشن کو عملی منصوبے تجویز کرنا ضروری ہے۔ یہ اقدامات کمیونٹی کی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہیں، تاکہ نسل در نسل ان کا ثقافتی ورثہ محفوظ رہے۔ کمیشن کو اس شعبے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے حکومت اور سماجی اداروں کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہیے۔
مسلم کمیشن کو کمیونٹی کی مجموعی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے مؤثر سفارشات اور منصوبے پیش کرنا چاہیے۔ اس میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا، تعلیم کو فروغ دینا، اور خواتین و نوجوانوں کو بااختیار بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یہ ذمہ داری مسلم کمیونٹی کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔
مسلم کمیشن کو مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے کسی بھی قسم کے استحصال یا امتیازی سلوک کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کرنے چاہیے۔ یہ ذمہ داری کمیونٹی کے وقار اور مساوی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے، تاکہ مسلم کمیونٹی کو دیگر اقوام کے برابر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- نیپال میں مسلمانوں کی اقتصادی اورسماجی حیثیت
- کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
- کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کا مشورہ کیوں دیاگیا
- سچ تو مگر کہنے دو! جاگو ورنہ
ناکامی کی وجوہات
مسلم کمیشن نیپال کے قیام کے کئی سال گزرنے کے باوجود، یہ ادارہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ آئینی طور پر جن بلند توقعات کے ساتھ اس کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، ان کا عملی نفاذ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج یہ ادارہ زیادہ تر سماجی تقریبات اور چھوٹے پیمانے کے پروگرامز پر مرکوز ہے، جو کسی عام این جی او کے ذریعے بھی انجام دیے جا سکتے ہیں۔ ایسی سرگرمیاں نہ صرف کمیشن کی ذمہ داریوں سے انحراف کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ مسلم کمیونٹی کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔
کمیشن کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس کی قیادت میں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تعیناتیاں ہیں۔ عہدوں پر ایسے افراد کا قبضہ ہے جن کی تقرری قابلیت کے بجائے سیاسی تعلقات کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ یہ صورتحال قابل اور وژنری قیادت کے فقدان کا باعث بنی ہے، جس کے نتیجے میں کمیشن بڑے پیمانے پر کوئی مؤثر کام انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔
کمیشن کے پاس مسلم کمیونٹی کی ترقی کے لیے نہ کوئی طویل المدتی وژن ہے اور نہ ہی کسی قسم کے عملی منصوبے۔ کمیونٹی کے مسائل کو گہرائی سے سمجھنے اور ان کے حل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی کمی نے اس ادارے کو غیر فعال بنا دیا ہے۔ ایسے حالات میں کمیشن کا کردار محض رسمی ادارے کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
کمیشن حکومت کو مسلم کمیونٹی کے حقوق، اصلاحات، اور ترقی کے حوالے سے مؤثر سفارشات دینے میں ناکام رہا ہے۔ آئینی طور پر کمیشن کا اہم فرض یہ ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایسی پالیسیز تجویز کرے جو ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ تاہم، اس شعبے میں کمیشن کی کارکردگی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اپنے بنیادی فرائض سے غافل ہے۔
کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے برعکس اپنے دائرہ کار کو سماجی تقریبات اور رسمی سرگرمیوں تک محدود کر لیا ہے۔ یہ سرگرمیاں کمیونٹی کی مجموعی ترقی یا ان کے مسائل کے حل میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتیں۔ ایسے میں کمیشن کا وجود ایک بوجھ بن کر رہ گیا ہے، جو مسلم کمیونٹی کی توقعات پر پورا اترنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
کمیونٹی کے لیے نقصان
مسلم کمیشن نیپال کی کارکردگی میں ناکامی کا براہ راست اثر مسلم کمیونٹی پر پڑ رہا ہے۔ اہم مسائل جیسے کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ، معاشی ترقی، اور سماجی انصاف جوں کے توں ہیں۔ کمیشن کی سست روی اور غیر مؤثر اقدامات نے ان مسائل کے حل میں کوئی نمایاں پیشرفت نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی آج بھی اس بات سے پریشان ہے کہ ان کے حقوق کی مکمل حفاظت نہیں ہو رہی، اور وہ اقتصادی ترقی میں دیگر اقلیتی گروپوں سے پیچھے ہیں۔ اس کے علاوہ، کمیونٹی کی زبان، ثقافت اور تاریخی ورثے کے تحفظ میں بھی کمیشن کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کی کمی ہے۔ مسلمانوں کی شناخت اور ان کے ثقافتی ورثے کا تحفظ انتہائی اہم ہے، اور اس میں غفلت نہ صرف کمیونٹی کے اندر ایک تشویش کا باعث بن رہی ہے بلکہ قومی سطح پر بھی اس کمیونٹی کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
آگے کا سفر
کمیشن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسے افراد کو تعینات کیا جائے جن کے پاس کمیونٹی کے مسائل کو حل کرنے کا وژن اور عزم ہو۔ اس وقت کمیشن میں بیشتر افراد سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تعینات ہیں، جو کمیونٹی کے مسائل کے حل میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیادت میں تبدیلی لانے سے کمیشن کی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے اور مسلم کمیونٹی کے لیے مؤثر پالیسیز کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔
مسلم کمیونٹی کی ترقی کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس وقت کمیشن کے پاس نہ تو کوئی واضح وژن ہے اور نہ ہی اس کے لیے مضبوط اور جامع منصوبے تیار کیے گئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کی تعلیمی، معاشی، اور سماجی ترقی کے لیے ایک مکمل منصوبہ تیار کرنا ضروری ہے جو نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرے بلکہ مستقبل میں کمیونٹی کے لیے پائیدار ترقی کی راہیں بھی کھولے۔
مسلم کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو ٹھوس اور جامع قانونی تجاویز فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت کمیشن کی طرف سے ایسی کوئی مضبوط قانون سازی نہیں کی جا رہی جس سے مسلمانوں کے حقوق کی مکمل حفاظت ہو سکے۔ حکومت کو مسلم کمیونٹی کے مسائل پر سنجیدہ قانونی تجاویز دی جائیں تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور انہیں دیگر اقلیتی گروپوں کی طرح مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔
مسلم کمیونٹی کی زبان، ثقافت، اور ورثے کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کمیونٹی کے ثقافتی ورثے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور اس کے بارے میں کوئی جامع حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ کمیونٹی کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی ورثے کی حفاظت کے لیے خاص منصوبے تیار کیے جائیں تاکہ نئی نسل اس ورثے سے آگاہ ہو اور اس کی اہمیت کو سمجھ سکے۔
کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر کمیشن کے اقدامات کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں، علماء، اور عوامی نمائندوں کو کمیشن کے منصوبوں میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی ضروریات اور مسائل کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔ کمیونٹی کی مکمل شمولیت سے نہ صرف کمیشن کے منصوبے کامیاب ہوں گے بلکہ اس سے کمیونٹی کے اندر ایک نیا جذبہ اور اعتماد پیدا ہوگا۔
نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم کمیشن نیپال ایک اہم ادارہ ہے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کی حالت کو بہتر بنانا، ان کے حقوق کا تحفظ کرنا، اور ان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ کمیشن وہ ادارہ ہو سکتا ہے جو مسلم کمیونٹی کی زندگی میں حقیقی اور دیرپا تبدیلی لا سکے، مگر افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اپنے فرائض سے بہت دور نظر آ رہا ہے۔ اگر کمیشن اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتا رہا اور صرف رسمی سرگرمیوں میں مشغول رہا، تو اس کے اثرات کمیونٹی پر بہت منفی ہوں گے۔
مسلم کمیونٹی کی حقیقی ترقی اور تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ کمیشن اپنی ترجیحات کو واضح کرے اور ان پر عمل کرے۔ اس وقت مسلم کمیونٹی کو کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے کہ ان کے حقوق کا تحفظ، اقتصادی و سماجی ترقی، ثقافت کا تحفظ، اور امتیازی سلوک کا خاتمہ۔ اگر کمیشن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا، تو یہ ادارہ صرف ایک رسمی ڈھانچہ بن کر رہ جائے گا جو اپنی اصل مقصد سے ہٹ چکا ہو گا۔
یہ وقت ہے کہ کمیشن اپنے کاموں میں سنجیدگی اور وژن کے ساتھ بہتری لائے، تاکہ وہ مسلم کمیونٹی کی امیدوں پر پورا اتر سکے اور انہیں ان کے حقوق، ثقافت، اور معاشی ترقی کے حوالے سے مناسب مواقع فراہم کر سکے۔ اگر کمیشن اپنے مقاصد کی طرف توجہ دے گا اور ایک مؤثر حکمت عملی اپنائے گا تو وہ نہ صرف مسلم کمیونٹی کے لیے ایک قابل اعتماد ادارہ بنے گا، بلکہ نیپال کی مجموعی ترقی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرے گا۔