مسلم تنظیمیں ، کچھ تعریف اور کچھ تنقید !
مسلم تنظیمیں ، کچھ تعریف اور کچھ تنقید !
از: شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
_____________________
اس جمعہ کو نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو چند احباب مل گیے ۔ کھڑے کھڑے ہی باتیں ہونے لگیں ۔ سیاست سے لے کر مسلمانوں کی ابتر حالت تک کوئی ایسا موضوع نہیں تھا ، جس پر تبادلۂ خیال نہ ہوا ہو ۔ گھوم پھر کر بات مسجدوں – مندروں تک آ پہنچی ، ایک صاحب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلہ بہت عمدہ دیا ہے ۔ ان کا اشارہ ’ پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ‘ کے بارے میں فیصلے کی جانب تھا ، جس کے تحت اب کسی عبادت گاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں کو کوئی مقدمہ لینے سے روک دیا گیا ہے ۔ ان صاحب نے کہا کہ اس مقدمہ میں مسلم اداروں ، جماعتوں اور تنظیموں کا کردار بہترین تھا بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کا ۔ یقیناً اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم اداروں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر ، ایک ایسے مسٗلے کا قانونی حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش کی ، جو ایک خطرناک رُخ اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ ہندوتوادیوں کے پاس ایک لمبی چوڑی فہرست ہے ، کوئی تین سے ساڑھے تین ہزار مسجدوں ، مقبروں ، مزاروں اور مسلم آثار کی ، جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ہندو مندروں پر بنی ہیں ، اور اب انہیں واپس لیا جائے گا ۔ اس فہرست میں دہلی کی جامع مسجد اور ممبئی کی جامع مسجد بھی شامل ہیں ۔ خیر ، بات مقدمہ لڑنے والی مسلم تنظیموں ، اداروں اور جماعتوں کی ہو رہی تھی ، جنہوں نے کوئی جلسہ جلوس نکالنے سے بہتر عدالت جانا سمجھا ۔ یہ مسلم تنظیموں کا ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا ، کیونکہ جلسے جلوسوں سے فریقِ مخالف کو ’ طاقت ‘ ہی ملتی ہے ، اور نفرت کو ، جو پہلے ہی سے سارے ملک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے ، مزید تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ ہمیں مسلم تنظیموں ، اداروں اور جماعتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہ ضروری بھی ہے ، اس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ان میں کام کرنے کا جذبہ پختہ ہوتا ہے ، لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس مقدمے میں کئی ہندو جماعتیں بھی مسلم جماعتوں کے ساتھ کندھے سے کندھا لگائے ہوئے کھڑی تھیں ، بلکہ ابھی بھی کھڑی ہوئی ہیں کیونکہ اس مقدمے کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے ۔ سی پی آئی ایم ، شرد پوار کی این سی پی ، آر جے ڈی کے ایم پی منوج کمار جھا مقدمہ میں پیش پیش تھے ، اور غیر مسلم وکلاء کی ایک بڑی تعداد تھی ۔ یہ سب بھی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں ۔ ابھی یہ مقدمہ ختم نہ سمجھا جائے ، ابھی تو صرف تاحکمِ ثانی نچلی عدالتوں کو مقدمہ لینے سے روکا گیا ہے ، لیکن وہ مقدمے جو پہلے سے قائم ہیں ، وہ تو قائم ہی ہیں ، اب ان کے بارے میں سوچنا اور کوئی مٖضبوط قانونی لائحہ عمل طے کرنا ہے ۔ سنبھل کی جامع مسجد کا معاملہ ہے ، وارانسی اور متھرا کی شاہی مسجدوں کے معاملے ہیں ، اور ایسے ہی نہ جانے کتنے معاملے ہیں جو عدالتوں میں زیر التواء ہیں ، کسی میں سروے کا عدالتی حکم ہے ، تا کسی میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ یہ جگہ مندر ہی ہے ۔ مسلم تنظیموں ، اداروؓں اور جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ، اور مشترکہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔ لیکن شاید یہ کام مشکل ہے ، کیونکہ مذکورہ فیصلے کا ہی کریڈٹ لینے کے لیے تمام مسلم جماعتیں یوں لگتا تھا جیسے سڑکوں پر نکل آئی تھیں ، سب کا دعویٰ تھا کہ جج صاحبان کا فیصلہ تو بس ان ہی کی پٹیشن پر آیا ہے ! کریڈٹ کی یہ ہوڑ کیوں ؟ شاید اس کے پسِ پشت یہ سوچ ہو کہ ہمیں کریڈٹ ملے گا تو ہمیں چندہ بھی خوب آئے گا ۔ چندے کے نام پر یاد آیا کہ مذکورہ احباب نے مسلم جماعتوں کے سر پر ان کے اچھے کاموں کا سہرا پوری ایمانداری سے باندھا ، لیکن کچھ تنقید بھی کی کہ ان مسلم جماعتوں ، اداروں اور تنظیموں پر جو لوگ قابض ہیں وہ ’ حساب کتاب ‘ میں شفاف نہیں ہیں ، کہیں بھی رقم خرچ کردیتے ہیں ، اپنوں کی جیبیں بھرتے ہیں ، ضرورت مندوں کو ٹرخاتے ہیں ، اور منصب پر قابض رہنے کے لیے جماعتوں کی دولت خوب اڑاتے ہیں ۔ اس الزام سے چھٹکارے کے لیے بس ایک ہی طریقہ ہے ؛ حساب کتاب کی شفافیت ۔ حساب کتاب اس قدر صاف رکھا جائے کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے ۔ کیا یہ ممکن ہو سکے گا ؟