اتحاد ملت قربانیوں سے قائم ہوتا ہے

اتحاد ملت قربانیوں سے قائم ہوتا ہے

از:- سید سرفراز احمد

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بچپن سے ایک مشہور کہانی سنتے آرہے ہیں جو کتابوں میں بھی دستیاب تھی ایک گاوں میں ایک کسان رہتا تھا اس کے چار بیٹے تھے وہ چاروں آپس میں بہت جھگڑتے رہتے تھے، کسان انکی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا، ایک دن کسان کو ایک ترکیب سوجھی اس نے لکڑیوں کا ایک گٹھا منگوایااس کے بعد اپنے چاروں بیٹوں کو بلاکر ان سے کہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس گٹھے کو توڑنے کی کوشش کرے جو بھی کامیاب ہو گا اسے انعام دیا جائے گا۔

کسان کے چاروں بیٹوں نے گٹھے کو توڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے، پھر کسان نے اپنے بیٹوں سے کہا گٹھا کھول کر اس کی ایک ایک لکڑی کرکے توڑو، تو ان چاروں نے ساری لکڑیاں آسانی سے توڑ دیں کسان نے اپنے بیٹوں سے کہا دیکھو اگر تم سب مل جل کے آپس میں خوش رہو گے توکوئی دوسرا تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن اگر تم اسی طرح لڑتے جھگڑتے رہو گے اور بکھرتے جاؤ گے پھر دوسرے تمہیں نقصان پہنچانے میں دیر نہیں کریں گے شائد اس کہانی کو کتاب کی زینت اسی لیئے بنایا گیا کہ نسلیں اپنی زندگی اپنا مستقبل اتحاد و اتفاق کے ساتھ گذار سکیں۔

موجودہ دور حکمرانی کا دورانیہ گیارہ سال کے قریب قریب پہنچ رہا ہے لیکن نہ ظلم کی شدت میں کمی واقع ہوئی نہ نا انصافی کے بادل چھٹے ان گیارہ سالوں میں ظلم کی ایک طویل داستان لکھی جاسکتی ہے لیکن عملی طور پر نہ ہی مرض سے چھٹکارا ملا نہ ہی اس کی دوا کو متعارف کروایا گیا اگر کروایا گیا بھی ہوتو تب بھی اس کو نافذ نہیں کیا جاسکا اس بات سے کونسا شخص لاعلم ہوگا کہ اس ملک میں مندر مسجد کی سیاست نے ملک کی ترقی کا بیڑہ غرق کردیا۔

ہاں لیکن اسی مندر مسجد کی سیاست میں سیاستدانوں کے بڑے بڑے مفادات شامل ہوتے ہیں شائد اس بات سے پورا ملک واقفیت نہ رکھتا ہو لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس ملک میں فسطائی طاقتوں کا عروج اسی نظریہ پر ارتقاء ہوا ورنہ ان کی پہنچ اکائی دہائی تک ہی محدود تھی جو خواب گولوارکر نے دیکھا تھا اسی نظریہ کو آگے بڑھانے کے لیئے ہندو مسلم مندر مسجد کا علم لے کر قافلہ آگے بڑھتا گیا ملک میں بد امنی فسادات قتل و غارت گیری جھوٹ پر مبنی مذہب کی سیاست کے لیئےاس ملک کے اکثریتی طبقہ کی ذہن سازی کرتی رہی اور بالآخر وہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے رہے جن کا نشانہ صرف اس ملک کا مسلم طبقہ تھا جنھیں طرح طرح کی سازشوں کے ذریعہ سرکاری مشنری کو اپنے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا۔

موجودہ سرکار کی رواں میقات میں بھی مندر مسجد تنازع کو ہوا دی جارہی ہے جیسے رام مندر کا قصہ تمام ہوا بعد از کوئی سیاسی ایجنڈہ باقی نہ رہا لہذا وقفہ وقفہ سے پھر وہی مسجدوں میں مندروں کو تلاش کیا جانے لگا سب سے سنگین صورت حال سنبھل کی رہی جہاں کی شاہی جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعوی کیا گیا اور منظم انداز میں تشدد برپا کیا گیا پولیس کی جانب داری نے ناحق پانچ مسلم نوجوانوں کو موت کے گھات اتاردیا۔

یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا یوپی سرکار کی ناکامی اور جانبداری کا سب سے شرم ناک سانحہ تھا ان شہید پانچ مسلم نوجوانوں سے ان کے والدین کیا کیا خواب نہیں سجایاتھا ہوگا لیکن سب ایک ہی لمحے میں غارت کردیا گیا گھروں میں گھس کر نوجوانوں اور خواتین کو نکال کر جیلوں میں بھرا گیا لیکن اس حلقہ میں مسلم قیادت کے باوجود یہ سب ظلم و جبر چلتا رہا ایسے ڈھیروں مسائل ہے جہاں ملک کے الگ الگ گوشے میں ظلم و ستم کا ننگا ناچ چل رہا ہے لیکن ملت کی اعلی قیادتیں اپنے ہی آنگن میں دانہ چگ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے اس طرح کی ظلم و ذیادتی کے لیئے کس طرح کادفاعی منصوبہ بنا رکھا ہے؟ایسے حالات امت مسلمہ پر ہی کیوں آرہے ہیں؟پھر ان مسائل اور ظلم کے چھٹکارے کا علاج کیا ہے؟اگر ہم نے منصوبہ بندی کی ہے تو ہم اس میں ناکام و نامراد کیوں ہورہے ہیں؟سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ملت میں ہر طرح کے مسائل کا حل صرف افرا تفری کا شکار ہے اتحاد کے بجاۓ انتشار کا شکار ہیں حالیہ مہاراشٹر انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح مذہبی و سیاسی قائدین میں تصادم ہوتا رہا متحدہ جماعتوں کا پلیٹ فارم مسلم پرسنل لابورڈ جیسے اداروں میں قیادت کے لیئے دھینگا مشتی دیکھی گئی۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت کے اندرونی خلفشار اتنے ذیادہ ہے کہ ہم ملکی سطح کے مسائل کو حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ ان مسائل کو بصیرت کی نگاہ سے بھی دیکھنا محال ہے ہر چھوٹے پلیٹ فارم سے لے کر بڑے پلیٹ فارم تک انتشار کا رعب ہے تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ملت ان ظلم و ستم کا مقابلہ کرسکتی ہے ایسے اندرونی انتشار کیوں پیدا ہوتے ہیں؟قربانی دینے کا جذبہ نہ ہوں زمینی کاموں سے منہ موڑا جاۓ دانش مندی و جرات مندانہ فیصلوں سے گریز کیا جاۓ تب ہی ایسے مسائل کا انبار لگ جاتا ہے۔

ضرورت ہے ان کمزوریوں کو دور کریں ملت کی مذہبی و سیاسی قوت میں اختلافات کے باوجود اتحاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں سیاسی قیادت کو چاہیئے کہ وہ مذہبی قیادت کا احترام و پاس و لحاظ رکھیں اور مذہبی قیادت کو چاہیئے کہ وہ سیاسی قیادت کو سیاسی بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں اگر ان دونوں قیادتوں کے ہاں یہ آپسی تال میل مضبوط اور فکری پتختگی کے ساتھ برقرار رہا تو تب ہی ملت کے اندر بھی یہ اتحادقائم ہوسکتا ہے۔

اگرچہ کہ ہماری سیاسی قوت مضبوط نہیں ہے لیکن سیاسی بصیرت کو ہم اس نگاہ سے تو دیکھ سکتے ہیں جو اس دور کو مطلوب ہے اس ظلم و جبر سے بہترین دفاع تب ہی کیا جاسکتا ہے جب ہماری سیاسی اور مذہبی قوت اختلاف کے باوجود ملت کے مفادات کی خاطر سر جوڑ کر ایک منظم لائحہ عمل ترتیب دیں ورنہ فسطائی طاقتیں ہماری صفوں میں موجود ان کمزوریوں کا فائدہ تو اٹھا رہی ہے اور آگے بھی اٹھاتی رہے گی پھر ہمارا چیخنا رونا دھونا کچھ کام کا نہیں ہوگا۔

اس نازک دور میں ملت پر آنے والےہر ایک وبال کے زمہ دار ہم خود ہیں لیکن ہم کانوں سے سن کر آنکھوں سے دیکھ کر بھی اپنی انا کو قربان کرنے تیار نہیں ہے اور نہ ہوش کے ناخن لے رہے ہیں حالات جب پوری طرح سے جانبدار ہوجاتے ہیں سرکاری مشنری کا جھکاؤ اور بہاؤ ایک طرفہ ہوجاتا ہے تو ملت کی ٹٹولتی آنکھیں قیادت کی طرف دیکھتی ہے اس امید کہ ساتھ کہ یہی ہمارا سہارا ہے تو ضرورت ہے ملت کی قیادت کے اندر مضبوط اتحاد کی تب ہی یہ اتحاد ملت کے اندر بھی سرائیت کرسکتا ہے اور ملت کے مشترکہ مسالک کے عام افراد بھی باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرسکتے ہیں کیونکہ اتحاد ہی وہ مضبوط رشتہ ہے جس کے سامنے حکومتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

جس کی مثالیں ہمارے اپنے ہی ملک کی دی جاسکتی ہیں کسان کو ہم نے دیکھا سکھ برادری کو ہم نے دیکھا دلت کے اتحاد کو ہم نے دیکھا لیکن ہماری صفوں میں مسلکی انتشار اور مذہبی و سیاسی تصادم سے ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہورہا ہے اور فسطائیت ہمارے اوپر غالب آرہی ہے اس اتحاد کے لیئے جو چیزیں مطلوب ہے ہر اس چیز کی قربانی دیں تو دور نہیں کہ یہی ہمارا اتحاد فسطائیت پر غالب آسکتا ہے یاد رہے کہ اتحاد ملت کا نعرہ لگانا الگ بات ہے اور اس کو قائم کرنا الگ بات ہے اور جب تک قربانیوں کو پیش نہیں کیا جاۓ گا جب تک ایک دوسرے کے اندر جذبہ ایثار پیدا نہیں ہوگا جب تک ہم اپنی انا کو قربان کرنے والے نہیں بنیں گے یہ اتحاد قائم کرنا نا ممکن ہے۔

اگر ہم ان تمام چیزوں کو قربان کرنے تیار ہیں تو آئیں ایک ایک قدم آگے بڑھائیں اور ساتھ مل کر چلنے کا عہد کریں جاپانی کہاوت ہے ہزار میل کا فاصلہ بھی ایک قدم سے شروع ہوتا ہے تو ضرورت ہے اس ایک قدم کو ہر ایک اپنی طرف سے پہل کرتے ہوۓ اٹھانا چاہیئے تب ہی ہمارا یہ سفر کامیاب ہوگا اور ہماری قربانیاں بھی رائیگاں نہیں جاۓ گی بقول علامہ اقبال
ایک ہوں حرم کی پاسبانی کے لیئے
نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کاشغر

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔