محمد عربی سے ہے، عالم عربی !
از: محمد قمرالزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــ
کرے يہ کافر ہندی بھی جرات گفتار
اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!
يہ نکتہ پہلے سکھايا گيا کس امت کو؟
وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!
نہيں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد عربی سے ہے عالم عربی
مولانا علی میاں ندوی رح نے اپنی تقریر و تحریر میں اور خصوصاً اپنی مایہ ناز کتاب انسانی دنیا میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر میں اسلامی دنیا اور بطور خاص عالم عرب کی صورت حال کا مفصل جائزہ لیا ہے اور ان اسباب و عوامل کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے، جن سے آج پورا عالم اسلامی دو چار ہے، مولانا نے صرف مرض کی تشخیص ہی نہیں کی ہے، بلکہ اس کا علاج اور نسخہ بھی قرآن و حدیث اور تاریخ عالم کی روشنی میں بتایا ہے ۔ مولانا عرب کے حالات اور عربوں کی باہمی کشمکش پر کڑھتے تھے ،ان کو بیدار کرتے تھے، انہیں مہمیز لگاتے تھے ،وہاں کے سربراہان کو دردمندانہ خطوط لکھتے تھے اور یہ باور کراتے تھے کہ عربو! تم یہ سمجھو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم عربی کی روح ہیں ،ایمان عالم عربی کی طاقت ہے ،عالم عربی اسلام کا گہوارہ ہے ،انسانیت کی پناہ گاہ ہے ،عالمی قیادت کا مرکز ہے ،روشنی کا مینار ہے ، تمہارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم عربی کی جان ہیں ،اس کے عزت و افتخار کا عنوان اور اس کا سنگ بنیاد ہیں ،اگر تم اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جدا کر دوگے ،تو اپنی تمام قوت کے ذخیروں اور دولت کے چشموں کے باوجود تمہاری حیثیت ایک بے جان لاشہ اور ایک نقش بے رنگ سے زیادہ نہیں ہوگی ، تم سمجھو ! کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے ،جن کی وجہ سے عالم عربی وجود میں آیا ،اس سے پہلے تم منقسم اور منتشر اکائیوں میں بٹے اور باہم دست و گریباں تھے ،نیز قبیلوں غلام قوموں کی تمہاری حیثیت تھی اور تم بے مصرف صلاحیتوں کا دوسرا نام تھے اور تمہارے اوپر جہل و گمراہی کے دبیز بادل چھائے ہوئے تھے ،اس زمانہ میں تمہاری حیثیت پر کاہ کی بھی نہیں تھی اور اس زمانے کی بظاہر متمدن اور مہذب قوم تمہارے اوپر حکمرانی کے لیے بھی تیار نہیں تھے ۔ تہماری جو قسمت بدلی اور چمکی، عالم کے نقشے پر جو تم علمی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر تمام عالم کے مقابلے میں چھا گئے اور دنیا تمہارے سامنے سرنگوں ہوگئی اور تمہاری طاقت و قوت اور قیادت و سیادت کا لوہا مانا ، یہ احسان تھا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور یہ صدقہ تھا ان کی رسالت و نبوت اور ان کی پاکیزہ تعلیمات کا ۔
آج پھر دنیا کے نقشے میں تم بے حیثیت ہوگئے، ذلیل و خوار ہوگئے اور تمہاری حیثیت سمندر کے جھاگ کی مانند ہوگئی ہے ۔ یہ اس قصور اور غلطی کی بنیاد پر ہے کہ تم نے ایمان کو عالم عربی کی طاقت سمجھنا چھوڑ دیا اور محمد عربی کو عالم عربی کی روح سمجھنا چھوڑ دیا، تم نے قرآنی احکامات ، تعلیمات مصطفی اور سیاست رسول عربی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور یورپ و امریکہ کو اپنا ملجا و ماویٰ اور نجات دہندہ سمجھ لیا، جس کے نتیجہ میں آج تم کہاں پہنچ گئے ہو اور ذلت و رسوائی کے کس مقام تک پہنچ گئے ہو، یہ دنیا کے سامنے عیاں اور بیان ہے ۔ اگر تم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور محمد عربی کو عالم عربی کا روح نہیں سمجھے اور ایمان عالم عربی کی طاقت ہے، اس کو باور نہیں کیا اور تم نے عرب قومیت و وطنیت کے جاہلانہ نعرہ لگانا نہیں چھوڑا تو آگے بھی شطرنج کے مہرے کی طرح ماضی کی طرح اور ادھر ادھر بٹھاتے جاؤ گے اور ذلت و پستی کے قعر مذلت میں مزید دھنستے چلے جاؤ گے ۔
مولانا مرحوم نے ہمیشہ عربوں کو جھنجھوڑا اور انہیں ان کا مقام اور ان کی حیثیت عرفی یاد دلاتے رہے ۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے نہیں سمجھا اور اس وارنگ پر کون نہیں دھرا ،اب عرب جل رہا ہے ، شام و عراق اور لبنان و فلسطین خاک و خون میں مل رہا ہے، لیکن اب تو کوئی انہیں جنھوڑونے والا اور انہیں ان کا مقام یاد دلانے والا بھی نہیں مل رہا ہے کہ انہیں برملا ٹوکے اور انہیں ان کی غلطی پر نشان دہی کرے اور انہیں متحد ہونے اور باہم شیر و شکر کرنے کی تلقین و تاکید کرے ۔۔
آج عالم عربی کی کیا صورت حال ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ جس شام میں صبح کی روشنی پھیلی تھی اور یہ امید ہو چکی تھی کہ کئی دہائیوں کے بعد اب اہل شام کو سکون و اطمینان ملے گا ۔ آج وہاں عالمی طاقتوں کی بری طرح مداخلت ہے ،حالیہ انقلاب کے بعد ابھی بھی تصادم اور کشاکش کا سلسلہ جاری ہے، بعض داخلی گروہ اور عالمی طاقتیں ملک شام میں پھر سے سرگرم ہونے کی کوششیں کر رہی ہیں اور منصوبے کر رہی ہیں، ایران ،امریکہ روس اپنی اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ترکی اور اسرائیل کے اپنے اپنے مفادات ہیں، وہ ان کو حاصل کرنے میں لگے ہیں ، کردستان کا الگ نعرہ لگ رہا ہے وہ اپنا الگ ملک اور خطہ بنانا چاہتے ہیں ۔
شام میں کیا کچھ پردے کے پیچھے چل رہا ہے یہ عالم عربی پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جان رہے ہیں ، عربوں کی یہ بدقسمتی اور تباہی دین و شریعت سے دوری اور محمد عربی کو عالم عربی کی روح نہ سمجھنے کی بنا پر ہے اور جب سے انہوں نے یہ روش اختیار کی ہے، اس دن سے ذلت و پستی ان کے مقدر میں آچکی ہے ۔ مولانا علی میاں ندوی رح نے عربوں کی حالت زار بہت پہلے لکھا اور کہا تھا کہ
،، آج کی دنیا جس عالم اسلام کا سامنا کر رہی ہے وہ ذہنی افلاس کے کگار پر کھڑی ہے اور وہ اپنی تباہی دیکھ رہی ہے ۔ اچکوں اور رہزنوں کا منظم گروہ ہے،جو پوری انسانیت پر شب خون مارہا ہے، کوئی اس کی فریاد رسی کرنے والا نہیں ہے۔ایسے نازک ترین حالات اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوا کرتی ہے ،لیکن سید الانبیاء کی آمد کے بعد اب کوئی نیا دین آنے والا نہیں ،البتہ مجدد دین اور اصحاب دعوت و عزیمت تجدید دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔ (میر کارواں,از مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی رح ص، 335)
اس وقت ضرورت ہے کہ وہ علماء جن کی عالم اسلام میں ایک پہنچان ہے، ایک مقام ہے اور جن کی تحریروں اور تقریروں میں تاثیر ہے ،طاقت ہے قوت ہے ، عالم عرب کے حکمران بھی ان کو جانتے ہیں، انہیں دعوت اسٹییج دیتے ہیں اور وہ علماء کرام جو تحقیق و تخریج اور تصنیف و تالیف کا کام عالمی پیمانے پر کر رہے ہیں اور نت نئے روز اپنی تحقیقات پیش کر رہے ہیں، یقینا وہ بھی دین کی بہت بڑی خدمت ہے ، لیکن آج جو عالم انسانیت سسک رہی ہے اور خصوصاً عالم عربی خاک و خون میں مل رہا ہے ، لوگ بھوک و پیاس اور بعض جگہ ٹھنڈ میں ٹھٹر کر مر رہے ہیں، نان شبینہ کے محتاج ہیں ، سر پر سایہ تک نہیں ہے ، بدن پر صحیح طور پر کپڑے تک میسر نہیں ہیں،فلسطین پر برسوں سے قیامت صغری بپا ہے ،اس وقت وہ علماء کرام کچھ مدت تک کے لیے تحقیق و تخریج کو چھوڑ کر پوری طاقت عالم عربی میں بلکہ پوری دنیا میں امن و امان اور صلح و آشتی کو برپا کرنے میں جھونک دیں ۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج اگر ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء و محدثین و متکلمین ہوتے اور عالم عربی کی یہ صورت حال دیکھتے تو وہ بھی کچھ وقت کے لیے تدوین فقہ و حدیث کا کام روک دیتے اور انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے پورے طور پر یکسو ہو جاتے ۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قومیت وطنیت علاقیت اور قبائلی و خاندانی نظام پر مبنی سوچ سے باہر نکالا جائے اور مسلمان پہلے خود عالمی اخوت اور حق و انصاف کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں ۔
آج کتنے مسلم حکمران ہیں ،جو اپنے اقتدار کی مضبوطی اور حفاظت کے لیے ظالم طاقتوں سے ہاتھ ملائے ہوئے ہیں اور مظلوموں کا ساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں ۔ کیا مسلمانوں کا یہ طریقہ اسلام کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے ؟ اور کیا ہر حال میں اپنی برادری قبیلہ خاندان علاقہ یا مسلک کی بالادستی کی بات کرنا اور اس کے لیے قتل و غارتگری تک کرنا جائز ہے؟ یہ سب کچھ آج عرب عوام اور وہاں کے حکمرانوں کو سمجھانا ہے ۔ آخر یہ کن کی ذمہ داری ہے اور یہ کن کا فرض منصبی ہے؟ ۔۔ ہم لوگ تو متوسط سے بھی کم درجے کے لکھنے والے ہیں، اپنا درد اور اپنا شکوہ اپنے بڑوں تک پہنچا دیتے ہیں تاکہ وہ اس درد کو جس کو وہ ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں، عربوں تک اپنی آواز اور اپنی تحریر اور اپنے درد اور سوز میں پہنچا دیں ۔