ہندوستانی سماج میں اخلاقی قدروں کازوال ، مسلمانوں کا بھی بُرا حال

ہندوستانی سماج میں اخلاقی قدروں کازوال ، مسلمانوں کا بھی بُرا حال

از:- جاوید جمال الدین

گزشتہ ہفتے کی ایک خبر نے رونگٹے کھڑے کر دیئے کہ ایک کروڑ پتی ادیب شری ناتھ کھنڈیلوال کادوران علاج ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا اور وہ ایک ‘ اولڈ ایج ہوم’ رہ رہے تھے۔ انہوں نے چار سو کتابیں لکھی تھیں۔ امسال 7مارچ سے کھنڈیلوال کاشی کشٹھ سیوا سنگھ اولڈ ایج ہوم میں رہ رہے تھے۔ انہیں علالت کے سبب لونگیونی اسپتال میں داخل کیا گیا اور انہوں نے وہاں ہفتہ کو آخری سانس لی۔طلاع دینے کے بعد بھی ان کے گھر سے کوئی نہیں آیا۔

شری ناتھ کھنڈیلوال کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی سوشل رہنماء کبیر امن دوستوں کے ساتھ اسپتال پہنچ گئے ۔ انہوں نے مکھ اگنی دے کر پنڈ دان کیا۔ کبیر امن نے ہی کھنڈیلوال کو اولڈ ایج ہوم میں رکھوایاتھا۔ اولڈ ایج ہوم کے نگراں رمیش چندر شریواستو نے بتایا کہ انہیں 25 دسمبر کو سینے میں کف اورسانس لینے میں دشواری اور کڈنی میں مسئلہ کے سبب اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ہفتہ کی صبح دوران علاج ان کی موت ہو گئی۔ رمیش چندر شریواستو نے فوری طور پر اس کی اطلاع سب سے پہلے کمشنر کو شل راج شرما کو واقعہ کی اطلاع دی گئی جس پر انہوں نے اہل خانہ کو اطلاع دینے کیلئے ہدایت کی، بیٹے کوفون کیا گیا تو انہوں نے باہر ہونے کی بات کہہ کر آنے میں معذوری ظاہر کی، جبکہ بیٹی نے فون نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی میسج کا جواب دیا۔

اس افسوسناک واقعہ پرابوالاعلی سید سبحانی نے ایک بہترین تحریر پیش کی ہے۔
چار سو کتابوں کا مصنف،زندگی بھر مذہبی امور ومعاشرے کو درپیش مسائل پر قلم چلانے والا!ملک میں اکثریتی طبقے کی مذہبی بیداری پر زندگی بھر کام کرنے والا!جبکہ دولت کی ریل پیل، ریکارڈ کے مطابق اسی کروڑ کی پراپرٹی کا۔مالک بھی تھا۔
دنیا بھر کے تعلقات، حتی کہ ملک کا وزیر داخلہ ذاتی طور پر فون کرتا رہتا تھا،لیکن آخری وقت میں محرومی کا شکار رہا۔
محرومی کی انتہا دیکھیے کہ
آخری عمر میں کوئی ساتھ رہنے والا نہیں تھا،بچے اور تمام گھر والے اپنی دنیا میں مصروف رہے۔عمر کے آخری ایام میں انہیں اولڈ ایج ہوم پہنچا دیا گیا اور یں گزارے!
آخری رسومات تک میں بچے آنے کے لیے وقت نہیں نکال سکے!یہ کہانی ہے، شری رام کھنڈیل وال کی!مگر سینکڑوں معاملات بکھرے ہوئے ہیں ۔ میں س بات سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں، اگر:
آپ کا گھر اخلاق واقدار سے محروم ہے،آپ کا گھر خاندانی روایات سے محروم ہے!

آپ کے گھر میں خونی رشتوں کا پاس ولحاظ نہیں ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر گھر اور خاندان کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔گھریلو اور خاندانی اقدار اور روایات کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔خونی رشتوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔خونی رشتوں کے احترام اور ان کی پاسداری کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ میری رہائشی سوسائٹی میں ایک خاندان کے قریبی رشتہ دار شدید علیل ہوگئے اور موذی مرض کی وجہ سے اسپتال سے چھٹی دے دی گئی،مہاراشٹر کے ایک شہر میں جو دن بھر کی مسافت پر واقع ہے،دونوں بیٹے ان کی عیادت کے لیے نہیں آئے،انہوں نے اپنے بھتیجوں کے گھر میں آخری سانس لی اور زندگی میں ان کی دیکھ بھال کرنے بلکہ عیادت کے لیے نہیں آنے والے بیٹوں نے ضدکی اور تدفین میں پندرہ گھنٹے دیرکردیا گیا۔یہ صرف غیر مسلم کا طریقہ کار نہیں ہے بلکہ۔مسلمان بھی اس کا شکار بن چکے ہیں ۔اگر جو یہ کہہ کر سینہ ٹھوکتے ہیں کہ مسلمانوں میں ‘اولڈایج ہوم’ کا کلچر نہیں ہے،وہ جھوٹ بولتے ہیں۔انہیں بے یار ومددگار اکیلے چھوڑ دینے اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ساتھ دورافتادہ مقام میں رہنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔