یہ ارتداد ، بے دینی اور مکاتب !

یہ ارتداد ، بے دینی اور مکاتب !

از:- شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

ــــــــــــــــــــــــــــــــ

پہلے دو واقعات پھر ان پر بات ! جمعہ کے روز جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر حافظ ندیم صدیقی سے اُن کے دفتر میں ملاقات ہوئی ، بڑے دکھ بھرے لہجے میں بتانے لگے کہ ان دنوں مہاراشٹر بھر میں ارتداد اور بے دینی کی ایک ایسی لہر پھیلی ہوئی ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ طوفان کی صورت اختیار کر سکتی ہے ۔ بتانے لگے کہ گزشتہ دنوں سلوڑ جانا ہوا تو ایک ایسے مسلمان گھرانے کا پتا چلا جس کے تمام کے تمام فرد ہندو دھرم میں داخل ہو گیے ہیں ۔ وہ بتانے لگے کہ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے ، ایسے متعدد واقعات پیش آئے ہیں ، اور مزید پیش آئیں گے ، کیونکہ مہاراشٹر کے دیہاتوں اور دوردراز کے ٹھکانوں پر ، عام مسلمان دین سے بہت دور ہیؓں ، انہیں پتا تک نہیں کہ مذہب اسلام کیا ہے ، بس وہ نام کے مسلمان ہیں ۔ ان کے لہجے میں بڑا تاسف تھا ۔ میرا سوال تھا کہ آپ اور آپ کی جماعت کیا کر رہی ہے اِس لہر کو روکنے کے لیے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ جمعیۃ کا ’ دینی تعلیمی بورڈ ‘ مہاراشٹر میں ایک سروے کر رہا ہے ، سروے کے بعد کوئی لائحۂ عمل طے کیا جائے گا ، مگر ہم مزید مکاتب کا قیام کریں گے ، ہمارے مکاتب چلتے ہیں ، لیکن اب ضرورت ہے کہ مکاتب مہاراشٹر کے ہر گاؤں میں قائم کیے جائیں کیونکہ مکاتب دین کو سمجھنے کی بنیاد ہیں اور افسوس کہ یہ بنیاد اب مٹ رہی ہے ۔ مزید ایک واقعہ ؛ ریاست میں قادیانی ’ مبلغ ‘ بھی خوب سرگرم ہیں ، اور لوگ قادیانیت کی طرف ، نیز ’ شکیلیت ‘ کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ ایک علاقے میں تو کئی ’ مرزاڑے ‘ بن گیے تھے ( اب تعداد کچھ کم ہوئی ہے ) اور لوگ مساجد کی جگہ اُن میں جاکر عبادت کرتے تھے ، اب بھی کرتے ہیں ۔ اور بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں لوگ خود کو مسلمان کہلاتے ہیں مگر ان کے رسومات ہندوؤں کی طرح ہیں ، اور مولوی وہاں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں ، کیونکہ لوگ اُن پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ اب بتائیں کہ ریاست کا یہ حال ہے ، اور وہ جو خود کو اسلام کا داعی سمجھتے ہیں ، بلکہ حقیقتاً داعی ہیں آپس میں دست و گریباں ہیں ! جس پتھر کو ہٹائیں اس کے نیچے سے ایک تنظیم ، جماعت اور ادارہ نکلے گا ، مسلمانوں کی ترقی اور اخلاقی و اصلاحی کاموں کا دعوے دار ، مگر میدان میں کوئی نظر نہیں آتا ! اصلاح کا کام عام مسلمان کے بس کا نہیں ہے ، یہ کام بڑی جماعتوں کے کرنے کا ہے ، اور انہیں یہ کام کرنا چاہیے ، اور اس کا سب سے بہتر طریقہ دینی مکاتب میں بچوں کو بھیجنا ہے ، اس کے لیے بڑے پیمانے پر مکاتب قائم کرنا ہوں گے ، مصلحین کو تیار کرنا ہوگا ، جو دوردراز کے علاقوں میں اپنا وقت لگائیں ۔ ہمارے پُرانے اور اکابر جو تھے وہ اس طرح کی اطلاعات پر بے چین ہوجاتے تھے ، اور پوری کوشش کرتے تھے کہ اصلاح کا عمل تیز رفتاری سے شروع ہو ، اب کوئی بے چین نظر نہیں آتا ! اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے