خوش فہمی کی چادر
خوش فہمی کی چادر
از: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
_________________________
مضمون لکھنے بیٹھا تو مجھے خیال آیا کہ شہ سرخی میں "خوش فہمی” کی جگہ "غلط فہمی” زیادہ ٹھیک رہتا لیکن یہ سوچ کر رہنے دیا کہ امن و آشتی کے علم بردار مجاورین کے لیے غلط فہمی کا لفظ نا مناسب سا ہے ان کی بلند و بالا قامت اور فکری پرواز پر خوش فہمی کا اطلاق ہی شایان شان رہے گا۔
خیر !!
قدیم روایت کے مطابق بھارت کے وزیر اعظم نے عرس غریب نواز کی نسبت سے مزار شریف کے لیے اپنی چادر روانہ کر دی۔گذشتہ سال کچھ صوفی حضرات نے بذات خود وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر مودی جی کے ہاتھوں سے چادر غریب نواز وصولنے اور ان کے فرستادہ بن کر اجمیر جانے کا شرف حاصل کیا تھا۔اس بار ان بزرگوں کو دعوت نہیں ملی یا پرمیشن، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اس بار مودی جی نے بی جے پی اقلیتی مورچے کے صدر جمال صدیقی اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو کو غریب نواز کی چادر سونپی اور انہیں اپنا نمائندہ بنا کر اجمیر شریف روانہ کیا۔چادر غریب نواز ہاتھوں میں آتے ہی کرن رجیجو صاحب میں بڑی حیرت انگیز تبدیلی آئی اور انہوں نے "بے وسیلہ” اجمیر جانے کے بجائے "وسیلہ” استعمال کرنے کا فیصلہ لیا یعنی اجمیر جانے سے پہلے درگاہ خواجہ نظام الدین اولیا، درگاہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی میں حاضری کا فیصلہ لیا تاکہ ارادت مندانہ حاضری میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
اظہار عقیدت میں کہاں تک نکل آئے
ہم اہل یقیں وہم و گماں تک نکل آئے
خوش فہمی:
_______سر پر سفید رومال لگائے کرن رجیجو صاحب کی خدام غریب نواز کی جانب سے دستار بندی ہوئی، اعزاز کے ساتھ چادر پیش کرائی گئی اور بڑے شوق و وارفتگی کے ساتھ وزیر اعظم کی لمبی عمر اور صحت و عافیت کی دعائیں بھی کی گئیں۔دعا کرتے وقت کرن رجیجو صاحب کے چہرے کی جو کیفیت ظاہر ہو رہی تھی اگر کوئی قیافہ شناس ہوتا تو صاف صاف معلوم ہو جاتا رجیجو صاحب یقیناً یہی کہہ رہے ہوں گے؛
"مسلمان واقعی بڑی بھولی قوم ہے۔جو قوم وقف ترمیمی بل کے ذریعے ہمارے منصوبے سے واقف ہونے کے بعد، درگاہ پر مندر ہونے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اور مسلمانوں کے تئیں ہماری سابقہ و حالیہ پالیسی کے اظہر من الشمس ہونے کے بعد بھی محض ایک چادر پر جس قدر نیازمندی کا اظہار کر رہی ہے پورے بھارت میں اس سے بڑی خوش فہم قوم بھلا اور کون سی ہوگی؟
دنیا جانتی ہے کہ درگاہ غریب نواز پر مندر کا مقدمہ کرنے والے ہوں، یا سنبھل کی جامع مسجد پر فساد مچانے والے، شاہی گیان واپی کے تہ خانے میں پوجا شروع کرانے والے ہوں یا مسجد کے وضو خانے کو سیل کرانے والے، ان سبھی افراد کا فکری و نظریاتی تعلق کس پارٹی سے ہے، کسی سے چھپا نہیں ہے، اس کے باوجود محض ایک چادر اور وزیر اعظم کے رسمی سے پیغام نے ان سب مجاورین پر کیسا اثر ڈالا ہے کہ یہ لوگ سب کچھ بھول کر ہمارے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔ہمیں تو لگا تھا کہ بھارت کے سب سے بڑے ولی اور سلطان الہند کی بارگاہ میں پہنچ کر خود کے عام ہونے کا احساس ہوگا لیکن یہاں پہنچ کر ہمیں بادشاہوں جیسا پروٹوکول ملا جس کے آگے منسٹری پروٹوکول بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔پروٹوکول کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری دعائیں بھی ملیں، اتنی اچھی اچھی دعائیں تو آج کل فقیر بھی نہیں دیتے۔
آج معلوم ہوا کہ نہرو جی نے یہاں چادر بھیجے کی روایت کس لیے ڈالی تھی، واقعی پنڈت جی نبض شناس آدمی تھے، یہ چادر تو بڑی کراماتی چادر ہے۔ہندو دھرم میں گنگا کی ایک ڈبکی سارے پاپ دھو ڈالتی ہے تو وہی کام یہاں محض ایک عدد سرکاری چادر سے ہو جاتا ہے۔خدا سے دعا ہے کہ خوش فہمی کی یہ چادر سدا مجاورین آستانہ اور قوم مسلم کے سروں پر سایہ فگن رہے اور ہم اسی طرح ملک کی خدمت کرتے رہیں۔”
آخری پیراگراف ختم ہی کیا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی:
وائے خوش فہمی کہ پرواز یقیں سے بھی گئے
آسماں چھونے کی خواہش میں زمیں سے بھی گئے