حلیم یا لحیم: ایک لسانی مغالطہ

حلیم یا لحیم: ایک لسانی مغالطہ

از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

جناب خلیل اللہ خان صاحب کا مراسلہ "حلیم یا لحیم” روزنامہ منصف میں 5 فروری 2025 کو نظر نواز ہوا، جس میں انہوں نے "حلیم” کو غلط اور "لحیم” کو درست قرار دیا، اس سے پہلے "دلیم” کوبھی یہ عزت مل چکی ہے، لیکن یہ ایک لسانی مغالطہ ہے، اولاً، "حلیم” صرف اسمائے حسنیٰ میں سے نہیں بلکہ ایک عام صفت بھی ہے، جیسا کہ قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک صفت کے طور پر "حلیم” کا استعمال ہوا ہے، اور عام عربی واردو میں بھی "رجل حلیم” (بردبار آدمی) مستعمل ہے، اسی طرح "کریم”، "رشید”، "مجید” جیسے نام بھی عام افراد کے لیے رائج ہیں، اول وآخر، ظاہر وباطن، قابض، شہید، جامع اور رقیب سب کا یہی حال ہے، بلکہ رقیب تو اردو میں حریف کو بھی کہتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صرف نگہبان ونگران کے معنی میں بولا جائے گا۔

مزید برآں، زبان میں الفاظ لغوی قواعد کے بجائے عرف اور تاریخی استعمال سے رائج ہوتے ہیں، جیسے قانون داں کو "وکیل”، ترکہ پانے والے کو "وارث”، طبیب کو "حکیم” اور فوٹوگرافر کو "مصوّر” کہا جاتا ہے، حالاں کہ یہ بھی اسمائے حسنیٰ میں شامل ہیں، مگر ان کا استعمال جائز ہے کیوں کہ یہ ان صفاتی ناموں میں سے نہیں جو باری تعالیٰ کے لیے مختص ہیں جیسے "الرحمن” اور "الرزاق” وغیرہ، پھر اللہ کے لیے ان کی مراد ذات باری کے شایان شان ہوتی ہے، "لحیم” کا مطلب عربی میں "پر گوشت” یا "موٹا تازہ” ہوتا ہے، مقتول کو بھی "لحیم” کہا جاتا ہے، اردو میں بھی تنو مند انسان کے لیے "لحیم شحیم” مستعمل ہے، مگر "حلیم” ایک خاص غذا کے طور پر زمانہ سے معروف ہے، ایران وافغانستان کی بھی پسندیدہ ڈش ہے۔

منصف میں شائع مراسلہ

ابن الکریم بغدادی کی "کتاب الطبیخ”، جو پکوان کی سب سے قدیم عربی کتاب سمجھی جاتی ہے، اس میں "هريسة” کا ذکر ہے جسے "ہریس” بھی کہا جاتا ہے، حیدرآباد کے بارکس علاقہ کی "ہریس” سب سے زیادہ مشہور ہے، جو یہاں کے عربوں کے ذریعہ نظام ششم میر محبوب علی خان کے زمانہ میں متعارف ہوئی، اسے "جریش” بھی کہا گیا، "حلیم” اسی کی بدلی ہوئی شکل ہے جو حیدرآبادی ذوق کے مطابق ڈھل گئی، اور مختلف علاقوں کے لوگوں نے اپنے ذوق کے مطابق اس میں صحیح یا غلط مزید تبدیلیاں کر لیں، الطبیخ میں تو ایک کھانے کا نام "ابراہیمیہ” بھی مذکور ہے، مگر اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی بے حرمتی نہیں سمجھی گئی؛ عربی میں "الشراب” ہر مشروب کو کہتے ہیں، کوئی اس لفظ کو نہ حرام قرار دیدے۔

اردو وعربی کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے، عربوں نے دودھ کے لیے قرآنی لفظ "اللبن” کو چھاچھ کے لیے لے لیا، اور دودھ کو "الحلیب” کہنے لگے، قرآن میں مچھلی کو "لحم” کہا گیا، لیکن عرف میں اسے گوشت نہیں کہتے تو اگر کوئی قسم کھالے کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور مچھلی کھالے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، وہ حانث نہیں ہوگا، اسے کفارہ نہیں دینا پڑے گا، فقہی قاعدہ ہے: "العرف قاض على اللغة” یعنی زبان میں الفاظ اور اصطلاحات کے معانی کا تعین صرف لغوی قواعد کے بجائے عرف (رائج استعمال) کی بنیاد پر ہوتا ہے؛ لہٰذا، زبان میں صدیوں سے رائج الفاظ کو غیر ضروری طور پر بدلنے کی کوئی علمی بنیاد نہیں، اور "حلیم” کو "لحیم” کہنا تاریخی، لسانی اور ثقافتی طور پر نا درست ہے، اس موضوع پر شریعت ولسانیات کے ماہرین ہی گفتگو کریں تو اچھا ہے، ورنہ:
غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: