مشرق وسطی کی بل کھاتی زلف گرہ گیر

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

ایران دہائیوں سے دو فریقی مسئلہ تھا: ایران ایک فریق اور اسرائیل و امریکہ فریق دوم؛ لیکن ٹرمپ اپروچ نے اسے سہ فریقی نزاع میں بدل دیا ہے، اسرائیل جاری مذاکرات پر نالاں ہے اور بہ ہر صورت ایران کی جوہری تنصیبات پر فیصلہ کن یلغار چاہتا ہے، ٹرمپ وہ غنڈہ ہے جو دھمکیوں سے الو سیدھا کرنے میں یقین رکھتا ہے؛ جب کہ اسرائیل سیانا ہے، اسے ادراک ہے کہ ایران "ٹرمپ دام” میں آنے والا نہیں، اس صورت حال میں بہت کچھ دل چسپ ہو گیا ہے۔

اہم گفتگو اگر مراحل اختیار کرتی ہے تو وہ مثبت رخ پر ہے، فریقین بنیادی نکتے پر متفق ہیں، تفصیلات طے ہونی ہیں اور اس کے لیے وقت درکار ہے، یعنی ایران-امریکہ معاہدہ نوشتۂ دیوار ہے، ٹرمپ اس قماش کا انسان ہے کہ ایران کی تمام شرائط مان کر بھی اپنی فتح کا اعلان کرے گا، امریکہ نے ٹرمپ جیسا ڈینگیں مار دیکھا ہے نہ باقی دنیا نے، خود ستائی کا اسیر اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے تو حیرت نہیں، تعجب تو امریکیوں پر ہے کہ وہ اس کے جھوٹے بیانیے پر آمنا وصدقنا کہیں گے، ہمیں بتایا گیا تھا کہ امریکی معاشرہ تعلیم یافتہ ہے اور اندھ بھگتی جاہلوں کی بیماری ہے، ٹرمپ ہنگاموں نے اس بھرم کو پاش پاش کر دیا، عوام کبھی کالانعام کی کینچلی سے باہر نہیں آسکتی، یہ پبلک کی اندرونی کم زوری ہے، عوام کو بازیچہ کردار پسند ہے، مداری ٹرمپ ہو یا مودی۔

ایران خطرے پر اسرائیل اپنے حصے کا کام پورا کر چکا ہے، ایران کا سب سے بڑا تکیہ حزب اللہ تھا، تہران کا یہ اہم ترین انویسٹ زمین دوز ہو گیا، اس کی بارعب قیادت بھی مدفون ہے، یہودیوں نے حزب کی تاریخ اور تاریخ ساز کرداروں کے صفحات لپیٹ دیے، جس گروہ نے مشرق وسطی کو رول کیا تھا، آج لبنان میں یتیم ہے، جس ملک میں جماعت حرف آخر تھی وہاں اسے غیر مسلح کرنے کی چہ میگوئیاں سرکاری سطح پر ہو رہی ہیں، حزب کے دن لد گئے، آئندہ اس کے کسی رول کی پیشین گوئی بہت بعید ہے۔

ادھر حماس کی کشتی تخت تخت ہے، اب طائفۂ منصورہ خالص ایمان کی آکسیجن پر ہے، گو کہ ایمان ناقابل تسخیر ہے اور آخرش اسرائیل نامراد ہوگا؛ مگر اسباب کی میزان میں اسرائیل اپنے پلڑے کے ثقل پر بغلیں بجا رہا ہے، غزہ کا اونٹ کسی بھی کروٹ جائے اتنا طے ہے کہ حماس کا ڈراؤنا خواب یہودیوں کا مزہ کرکرا کرتا رہے گا، 7 اکتوبر کا اعادہ اب تنطیم کے لیے ممکن نہیں؛ لیکن غزۂ عز وشرف سیف البحر کی حیثیت سے محروم نہیں ہوگا؛ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے۔

بشار الاسد کا شام تو ایران کی چھاؤنی تھا، پاسداران انقلاب نے شام کو محاذ کے طور پر تیار کیا تھا، ایرانیوں کی قیمت پر شامیوں کو ڈالروں میں نہلایا گیا؛ مگر مہرہ جہادیوں کے ہاتھوں پٹا اور جنگی ساز وسامان یہودیوں نے اپنے ہاتھوں سے چن چن کر خاکستر کیا؛ یہاں تک کہ ملک شام کی عسکری حیثیت فلسطین کے مغربی کنارے والی ہو گئی، سنیوں کا نیا ملک شام اس پر قانع ہے کہ خالص مذہبی حکومت فراہم ہو گئی ہے، یہ درست ہے کہ ملک شام میں دین داری عام ہوگی، معروف برملا منکر کی جگہ لے گا، مساجد ومدارس کا دور دورہ نظر آئے گا، دین کی ایک بہار وہاں سر راہ ہے؛ مگر طالبان کی طرح انھوں نے بھی اسرائیلی مقابلہ آرائی میں تاویل کر لی ہے، طالبان کی توجیہ مضبوط ہے کہ یہودی رسائی سے دور ہیں، جولانی تاویل بھی کم زور نہیں کہ وہ اسرائیل سے محاذ آرائی کے متحمل نہیں، شام کی طرف سے عسکری مزاحمت اردگان پر موقوف ہے؛ مگر وہ ہنوز واچ اینڈ ویٹ کے موڈ میں ہے۔

حوثی دور ہیں، درمیان میں سعودی سرحدیں آتی ہیں، سعودی فضائی حدود کی پامالی ابن سلمان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے، اس لیے یمن محاذ امریکہ کو تفویض ہوا، مدعا یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنے تئیں سارے سوراخ بند کر کے اللہ کی طاقت کے سامنے راست چیلنج رکھ دیا ہے۔

یہ سنی توہم ہے کہ اسرائیل اور ایران دشمن نہیں، اس درجہ بے بنیاد فکر پالنا سنیوں کے عالی شعور کا ننگ ہے، اسرائیل تادم تحریر ایران کے ہاتھ پاؤں کاٹ چکا ہے، اس کی امنگوں کے تمام افق مٹا چکا ہے؛ بل کہ نیرنگی زمانہ ہے کہ یہودیوں کی ایران مخالف جنگی مہموں نے سنیوں کو بلاواسطہ راحت پہنچائی، پھر بھی یہ کہنا کہ شیعہ ساز باز رکھتے ہیں بے عقلی، تعصب اور جانبداری کی حد ہے، ہمیں حکم ہے کہ دشمنوں کے باب میں بھی دامنِ انصاف تھامے رہیں، سچ یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ساز باز ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے کے لیے سنیوں کے پاس منہ نہیں ہے، سنی بلاک نے اسرائیل کے ساتھ علانیہ معاہدے کیے ہیں، وہ باضابطہ تعلقات میں ہیں، علانیہ رشتے رکھتے ہیں اور ایرانیوں کو خفیہ تعلقات کا طعنہ دیتے ہیں۔

ٹرمپ اس گمان میں ہے کہ ایران کا راست مذاکرات پر آنا اس کے ڈر کا مظہر ہے؛ جب کہ حقیقت میں یہ اسرائیل کی چو طرفہ مار کا اثر ہے، ایران پابندیوں سے جاں گسل تھا، ایجنٹوں کے ادبار کا صدمہ آخری کیل ثابت ہوا، دم بخود فارسیوں کے لیے ٹرمپ دعوت مژدہ تھی، فوری لبیک آیا، ٹرمپ کو نام نہاد معاہدہ چاہیے، آگے اپنے جھوٹے بیانیے کی تشہیر وہ خود کر لے گا، ایران ایٹم بم کی دہلیز پر ہے اور قدم پیچھے نہیں لے گا، ٹرمپ انانیت کی تسکین کے لیے اتنا کافی ہے کہ ایران باقی ماندہ آخری قدم نہ اٹھائے، ٹرمپ کے حساب کتاب میں ایران جنگ خسارے کا سودا ہے؛ اس لیے وہ خود بھی گریز کرے گا اور اسرائیل کو بھی یہی تلقین دے گا؛ مگر اسرائیل کے لیے ایران کے ایٹمی امکانات وجود کا مسئلہ ہیں؛ اس لیے وہ اکیلا بھی پہل کر سکتا ہے، ماضی اس کی تائید میں ہے، 1981 میں اسرائیل نے امریکی صدر جمی کارٹر کے علی الرغم یہی قدم اٹھایا اور صدام حسین کے ایٹمی ڈھانچے کو تباہ کیا، 2007 میں بعینہ کارروائی شام میں کی، ایران چوں کہ مشکل ہدف ہے؛ اس لیے نیتن یاہو سو بار سوچ رہا ہے اور رہ رہ کر ٹرمپ کی طرف دیکھ رہا ہے، الغرض! ایران کو لے کر امریکہ اور اسرائیل ایک پیج پر نہیں ہیں اور اس کا نتیجہ حیران کن ہو سکتا ہے، سچائی یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل سے ہے، اسرائیل امریکہ سے نہیں، اسرائیل کے تجربے میں امریکہ اب تک طفل معصوم رہا ہے، ٹرمپ کی اضافی ہوشیاری اسرائیل کو سرپرائز پر مجبور کر سکتی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔