مولانا محمد اسلام قاسمی: کچھ یادیں اور باتیں
تحریر: محمد عمر غزالی
مولانامحمداسلام قاسمی صاحب رحمة الله عليه صدر شعبہ عربی زبان وادب دارالعلوم دیوبند (وقف) کے نام سے پہلی مرتبہ اس وقت شناسائی ہوئی جب میں عربی کے ابتدائی درجہ میں داخل ہوتے ہی ٹائیفائیڈ کا شکار ہوگیا اور ڈیڑھ مہینہ علیل رہا ، جب افاقہ ہوا تو ٹیسٹ سر پر تھے،اسباق گزر جانے کی وجہ سے کسی عربی کتاب کو حل کرنا ایک مبتدی کے بس سے باہر تھا، اس بھنور میں گِھر جانے کے بعد بہت تلاش بسیار اور ساتھیوں سے مدد کی استدعا کے نتیجہ میں جو "سفینۂ نوح” نصیب ہوئی وہ مکتبہ فیض القرآن سہارنپور سے چھپی ہوئی "حل القراءة الراشدة” تھی ، اس کشتی کے ناخدا مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی مرحوم ہی تھے،چند دنوں تک استفادہ جاری رہا،لیکن جلد ہی شروحات کے سلسلہ میں مدرسہ اور گھر کے سخت رویہ کے نتیجہ میں یہ شرح والد مرحوم کے ہاتھوں ضبط ہوگئی،اس کے بعد مولانا اسلام صاحب کے تعلق سے ذہن میں پہلا تأثر یہ قائم ہوگیا کہ یہ بھی شرح نویس مولویوں کی قبیل کے کوئی صاحب ہیں۔
لیکن پھر مطالعہ کا دائرہ کچھ بڑھا تو مولانا کی نگارشات کو بھی پڑھنے کا موقع ملا، ان تحریروں سے اور مولانا کے تعلق سے معلوم ہونے والی تفصیلات سے جو شخصیت اور خصوصیات سامنے آئیں انہوں نے سابقہ تأثر کو زائل کردیا، یہ درد ہمیشہ دل میں رہا کہ ان حلقوں کی نہایت باکمال اور مایہ ناز شخصیات شروحات لکھ کر اپنی شہرت کو سطحی رخ ملنے پر کیونکر راضی ہوجاتی ہیں؟۔
مولانا عمومی طور پر عربی زبان وادب کی تدریسی،صحافتی اور تحریری خدمات کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے،آپ کے بے شمار فیض یافتگان دنیا بھر میں فیض رسانی کررہے ہیں جن میں سے ایک معتد بہ تعداد معروف اور مستند علماء و ادباء اور قلمکاروں کی ہے، غالبا آپ ادیب العصر حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رح کے دانشکدہ علم وادب کے ایک سعادت مند میخوار تھے،مولانا کیرانوی کے اس مربیانہ کمال اور رجال سازی کا ایک جہان معترف ہے کہ انکے میخانہ کا ہر بادہ کش اپنے اپنے میدان میں شانِ امتیاز رکھتا ہے۔
مولانا 1982 تک متحدہ دارالعلوم دیوبند میں نمایاں خدمات انجام دے رہے تھے اور معروف ادیب مولانا بدر الحسن قاسمی (کویت) صاحب کے ساتھ دارالعلوم سے شائع ہونے والے عربی زبان کے مشہور مجلہ” الداعی ” کی ادارت وترتیب میں مصروف عمل تھے،1982 میں مخصوص طبقہ کی فساد انگیزیوں اور حضرت حکیم الاسلام رح پر ناروا ستم کے بعد جن لوگوں نے بددل ہوکر علیحدگی اختیار کرلی ان میں مذکورہ دونوں حضرات بھی تھے،مولانا اسلام صاحب نے اس کے بعد دارالعلوم وقف سے وابستگی اختیار کرلی،حجۃ الاسلام اکیڈمی کے قیام کے بعد مجھے دارالعلوم وقف سے شائع ہونے والے عربی واردو مجلات اور لٹریچر سے دلچسپی ہوئی تو مولانا کی کاوشیں بھی کثرت سے سامنے آنے لگیں اور علم ہوا کہ مولانا عربی کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی دلنواز صاحب قلم ہیں اور آپ کا اسلوب بہت البیلا اور سلیس ہے۔
مولانا M Islam Qasmi سوشل میڈیا پر بھی ایکٹیو رہتے تھے اور پوسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم عمروں اور خوردوں کی مختلف پوسٹوں پر تبصرے بھی فرماتے تھے جو بساوقات اہم ہوتے تھے اور یہ مولانا کی تواضع کا بھی مظہر ہوتے،ورنہ چھوٹوں کی پوسٹ کو عموما ایسی نمایاں شخصیات لائق اعتنا نہیں سمجھتیں۔
2018 میں جب پہلی مرتبہ دیوبند کا سفر ہوا تو شام کو ایک خاندانی تقریب کے دوران مولانا اسلام صاحب رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی،ہمیں انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ وہ حضرت نانا محترم مدظلہ العالی کے دوست اور رفیق درس ہیں،(مولانا ہمارے خال محترم مولانا نقیب اشرف ندوی حفظہ اللہ اور خانوادہ کے دیگر کئی اعمام واخوال کے بھی استاد تھے) بہرحال وہ موقع ہی ایسا تھا کہ بہت مختصر سی ملاقات ہوپائی،لیکن اگلے روز جب دیوبند کی سیر کے دوران برادرم عادل اشرف کے ہمراہ حجۃ الاسلام اکیڈمی جانا ہوا تو وہاں مولانا رح کے ساتھ علامہ انور شاہ کشمیری کے حفید مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رح بھی تشریف فرما تھے،دونوں حضرات نے ہمارا بہت شفقت کے ساتھ استقبال فرمایا،بے حد خوردنوازی فرمائی اور خاندان کے افراد کے متعلق بھی دریافت فرمایا۔
کچھ عرصہ قبل آخر الذکر کی رحلت کا سانحہ پیش آیا تھا ، آج اول الذکر بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ، اللہ دونوں حضرات کی کامل مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کا شایان شان اجر بخشے۔
دارالعلوم وقف دیوبند (جو حضرت قاسم العلوم اور حکیم الاسلام رح کی روایات اور وراثت کا امین وپاسباں ہے) آخری چند سالوں میں حضرت مولانا سالم صاحب، مولانا اسلم صاحب، مولانا غلام نبی صاحب ، مولانا نسیم اختر صاحب کی رحلتوں جیسے عظیم سانحات سے دوچار ہوا ہے، اللہ اس ادارہ کو لاحق ہونے والے خساروں کی تلافی فرمائے اور اسے علمی ،فکری وانتظامی تقویت بخشے۔