جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول
جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں بقائے باہم کے اصول ✍️ مسعود جاوید ___________________ پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا […]

saile rawan

حقوق کا مطالبہ اور ذمہ داریوں سے غفلت

   محمد قمر الزماں ندوی ،مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

  اہل مغرب  (یورپ و امریکہ)کی طرف سے جو مزاج اور رجحان پیدا ہورہا ہے، بلکہ خود ہماری بھی عملی کمزوریوں اور معاملات و حقوق ادا کرنے میں کوتاہیوں  کی وجہ سے جو برائیاں، کمزوریاں اور لعنتیں ہمارے سماج اور معاشرہ میں آئی ہیں، ان میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی سے زیادہ اپنے حقوق اور حق الخدمت کا مطالبہ ہے، اور اس کے لئے دھرنا،احتجاج، اسٹرایک اور ریلیاں کرنا ہے، ممکن ہے بعض لوگ اس کو تسلیم نہ کریں، لیکن حقیقت ہے کہ اس طرح کا رجحان ہمارے سماج میں دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔

  اسلامی تعلیم تو یہ ہے کہ حق کا حصول فرض کی ادائیگی کے بغیر بددیانتی ہے، اسلام اپنے ماتحتوں اور اپنے ماننے والوں کو اس کا مکلف اور پابند بناتا ہے، کہ وہ نہ صرف فرائض کی ادائیگی پر مکمل دھیان دیں، بلکہ وہ اپنا محاسبہ بھی کرتے رہیں کہ کہیں فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے؟ 

    قرآن و حدیث میں متعدد مواقع پر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی اور فرض منصبی نہ ادا کرنے پر وعیدیں آئی ہیں، سورہ تطفیف میں خاص طور پر اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی شناعت بیان کی گئی ہے ، تطفیف کیل میں اوقات میں کمی کرنا اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی کرنا بھی شامل ہے۔ 

   مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح لکھتے ہیں: قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے،کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے، انہی کے ذریعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حق دار کا حق ادا ہوگیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے، اس میں کمی کرنا حرام ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کیساتھ مخصوص نہیں ، بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کا یہی حکم ہے، خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے، ہر ایک میں حقدار کے حق سے کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے،، (معارف القرآن، جلد، ۸ تفسیر سورہ التطفیف) 

    مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا، جلدی جلدی نماز ختم کرڈالتا ہے، تو اس کو فرمایا لقد طففت یعنی تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کردی، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک رح نے فرمایا لکل شئی وفاء و تطفیف یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے، یہاں تک کہ وضوء طہارت میں بھی، اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کا مجرم ہے، اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے، اس میں کوتاہی اور سستی کرنا بھی تطفیف ہے، اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتا،، (معارف القرآن، تفسیر سورہ تطفیف) 

     اسلام اس سلسلہ میں بہت حساس واقع ہوا ہے اور وہ اس سلسلہ میں کسی طرح کی رعایت کو روا نہیں رکھتا کہ انسان تطفیف کیل کرے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی کرے۔ 

     آج ہر جگہ لوگوں کو اپنے حقوق نہ ملنے کا شکوہ ہے اور یہ کہ ہمارے ساتھ حق تلفی ہورہی ہے، لیکن کما حقہ فرائض کی ادائیگی ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس کا احساس کم لوگوں کو ہے۔ سچائی یہ ہے کہ لوگ اپنے اندر فرائض کی ادائیگی کی فکر پیدا کر لیں، تو حقوق خود بخود ادا ہونے شروع ہو جائیں اور حق تلفیوں کی شرح گھٹتی چلی جائے۔

      ہمارے اکابر نے اپنی ذمہ داریاں جس طرح نبھائیں اور اپنے فرائض کو جس حسن خوبی کے ساتھ انجام دیا اور اپنے حقوق کے مطالبے میں جس طرح محتاط رہے، وہ ایک بہترین نمونہ اور گائیڈ لائن ہے۔ ہم یہاں صرف ایک نمونہ پیش کرتے ہیں:

  شیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی رح  (متوفیٰ ۱۹۲۰ء) ماضی قریب کی ان عظیم ہستیوں میں سے تھے، جن کی مثالیں ہر دور میں گنی چنی ہوا کرتی ہیں۔ جب وہ دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کے طور پر تدریسی خدمت انجام دے رہے تھے تو دار العلوم کی مجلس شوریٰ نے محسوس کیا کہ ان کی تنخواہ ان کے منصب اور ان کی خدمات کے لحاظ سے بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، ان کا کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے، چنانچہ مجلس شوریٰ نے باتفاق رائے فیصلہ کیا کہ مولانا کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے، اس مضمون کا ایک حکم نامہ مجلس شوریٰ کی طرف سے جاری کر دیا گیا۔ ۔۔۔۔۔ جو صاحب مولانا کے پاس اس فیصلے کی خبر لے کر گئے، انہیں یقیناً یہ امید ہوگی کہ مولانا یی سن کر خوش ہوں گے۔ لیکن معاملہ برعکس ہوا، مولانا یہ خبر سن کر پریشان ہوگئے اور فوراً ایک درخواست لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ ٠٠ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ دار العلوم کی طرف سے میری تنخواہ میں اضافہ کیا جارہا ہے، یہ اطلاع میرے لیے سخت تشویش کا موجب ہے، اس لیے کہ میری عمر کی زیادتی اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے اب دار العلوم میں میرے ذمہ پڑھانے کے گھنٹے کم رکھے گئے ہیں، جبکہ اس سے پہلے میرے ذمہ زیادہ گھنٹے ہوا کرتے تھے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ مجلس شوریٰ میری تنخواہ کم کرنے پر غور کرتی، چہ جائیکہ میری تنخواہ میں اضافہ پر سوچا جائے۔ لہذا میری درخواست ہے کہ میری تنخواہ بڑھانے کا فیصلہ واپس لیا جائے اور اوقات کے لحاظ سے تنخواہ کم کرنے پر غور کیا جائے۔ ( ذکر و فکر از مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)           

  آج کے دور میں اس طرح کی تحریر، درخواست یا خط اگر کوئی انتظامیہ کو بھیجے تو اسے انتظامیہ کے خلاف زبردست طنز و تعریض سمجھا جائے گا، لیکن ہمارے اسلاف اور اکابر نے ایسا کر دکھایا ہے۔ چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانوی رح نے تھانہ بھون میں جو مدرسہ قائم کیا تھا، اس میں ہر استاد کا یہ معمول تھا کہ اگر اسے مدرسہ کے اوقات میں اپنا کوئی ضروری کام پیش آجاتا یا ملازمت کے اوقات میں ان کے پاس کوئی ذاتی مہمان ملنے کے لیے آجاتا تو گھڑی دیکھ کر اپنے پاس نوٹ کر لیا کرتے کہ اتنے اوقات اپنے ذاتی کام میں صرف ہوا اور مہینے کے ختم پر ان اوقات کا مجموعہ بنا کر انتظامیہ کو از خود درخواست پیش کرتے تھے کہ اس ماہ ہماری تنخواہ سے اتنے روپئے کاٹ لیے جائیں کیونکہ ہم نے دوسرے کام میں خرچ کیا ہے۔ (ذکر و فکر) 

   آج پوری دنیا میں ہر شعبے میں حقوق کی ادائیگی اور شرح تنخواہ کے اضافہ اور رعایتوں کی مانگ کے لئے یونین، ٹریڈ، تنظیمیں اور تحریکیں قائم ہیں، اور حقوق کی ادائیگی کے لئے اور اس نام پر احتجاج، دھرنے ریلیاں اور مظاہرے آئے دن ہوتے ہیں اور مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں حکومت کے املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے ، عام پبلک کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا فرائض کی ادائیگی کی کوششوں کے لیے کوئی تحریک اور تنظیم ہے؟ کیا اس نام پر کبھی احتجاج کرتے لوگوں کو دیکھا یا سنا گیا؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیالوگوں نے اس پہلو سے کبھی سوچا؟ 

      ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے، کہ ہم کو اپنے حقوق کی زیادہ فکر ہے یا فرائض کی ادائیگی کی؟ ہم جس ادارے سے وابستہ ہیں ہمیں وہاں کی فکر زیادہ ہے یا ہم نے الگ سے جو ادارہ یا سوسائٹی اور فاونڈیشن قائم کرلیا ہے، اس کی زیادہ فکر ہے؟ یا سائڈ بزنس اور ٹیوشن میں زیادہ دل لگتا ہے ؟ان تمام پہلووں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔۔۔ادارے کے ذمہ داران بھی حقوق کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں، غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے، جس کے نتیجے میں حقوق کی ادائیگی میں غفلت ہوتی اور برتی جاتی ہے۔ چھ چھ سات سات مہینے اساتذہ کی تنخواہ رکی رہے اور ہم ان اساتذہ سے فرائض کی کما حقہ ادائیگی کی توقع اور امید رکھیں یہ خام و خیال ہے، دیوانے کا خواب ہی اسے کہا جاسکتا ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ ذمہ داران اور ماتحت دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں، اور عند الله مواخذہ سے بچنے کی فکر کریں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔ آمین ۔ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: