(سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے کی کتاب کا خصوصی مطالعہ)
تحریر: نایاب حسن
فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کی پیشانی پر بد نما داغ ہے اور افسوس کہ دنیا اور خود ہمارا ملک جس قدر ترقی کی راہوں پر آگے بڑھ رہا ہے،یہ داغ اتنا ہی زیادہ واضح،نمایاں اور قبیح تر ہوتا جارہا ہے۔اس کے بہت سے اسباب ہیں، زیادہ تر تو سیاسی ہیں ،جبکہ کچھ سماجی ،ثقافتی اور معاشی اسباب بھی ہیں۔اسی طرح اگر ملک کے کسی خطے میں فساد رونما ہوجائے تو اس پر قابو پانے کے لیے سرکاریں جو مشنری سب سے زیادہ استعمال کرتی ہیں،وہ پولیس ہے، مگر افسوس کہ پولیس کا کردار اس حوالے سے نہایت ناقص ؛بلکہ عموماً حد درجہ افسوس ناک ہوتا ہے،پولیس غیر جانب دارانہ طریقے سے حالات کو کنٹرول کرنے کی بجاے زیادہ ایک مذہبی فریق کا روپ دھار لیتی ہے اور پھر وہ فساد کو فرو کرنے کی بجاے شہریوں کے ایک طبقے پر ظلم و ستم ڈھانے لگتی ہیں۔
یہ باتیں ہوا ہوائی نہیں ہیں،ان کے پیچھے پختہ ثبوت و شواہد موجود ہیں ،انھی شواہد کو معروف مصنف و دانش ور اور سابق آئی پی ایس افسر جناب وبھوتی نارائن رائے نے اپنے ایک تجزیاتی و تحقیقی مطالعے کے ذریعے جمع کیا ہے اور اس حساس ترین موضوع پر فکر و عمل کی دعوت دی ہے۔وبھوتی نارائن ہندوستان کے ایسے گنے چنے پولیس افسران میں سے ایک ہیں،جنھوں نے اپنی ملازمت حقیقی معنوں میں سماج کی خدمت ،انصاف کے تحفظ اور ہر قسم کے ظلم و جور کے خاتمے کی کوشش کی نیت سے کی اور کئی نازک موقعوں پر اپنے ملک،اس کی جمہوری روح اور حق و انصاف کے تئیں اپنی غیر مشروط وابستگی کا ثبوت بھی دیا ہے،ان کے اس کردار سے پورا ملک واقف ہے۔ان کا تحریری،تصنیفی،ادبی و تخلیقی کریئر بھی بڑا دلچسپ اور قابلِ توجہ ہے،وہ انگریزی اور ہندی میں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،اہم اور سلگتے ہوئے سماجی موضوعات پر انھوں نے شہر میں کرفیو، تبادلہ تبادلہ،اور محبت کا طلسم خانہ جیسے مشہور و مقبول ناول تحریر کیے ہیں،ہاشم پورہ قتل عام پر چند سال پہلے ان کی کتاب ’ہاشم پورہ22 مئی‘ شائع ہوئی تھی، جو ہندی،انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں شائع ہوئی اور بہت پڑھی گئی، 1984سے وہ ہندی کا مشہور ادبی رسالہ ’ورتمان ساہتیہ‘ نکال رہے ہیں۔
انھوں نےسردار ولبھ بھائی پٹیل نیشنل پولیس اکیڈمی حیدرآباد کے فیلو کی حیثیت سے’فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس‘ کے موضوع پر ایک تحقیقی کام کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ کام پورا ہوگیا اوراس کے بعد اسے چھاپنے کی باری تھی تو خود اسی ادارے نے اسے شائع کرنے سے انکار کردیا، جس نے انھیں یہ پروجیکٹ دیا تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ وبھوتی ناراین نے اپنی تحقیق سے جو نتائج اخذ کیے تھے، وہ اس ادارے کی توقعات سے ہم آہنگ نہیں تھے، بالآخر نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن مسوری نے اسے شائع کیا۔
انگریزی میں یہ کتاب 1999 میں منظر عام پر آئی تھی،پھر یہ ہندی میں بھی شائع ہوئی اور اس کے بعد اس کا اردو ترجمہ بھی معروف صحافی معصوم مراد آبادی نے اپنے ادارے خبردار پبلی کیشنز سے شائع کیا تھا۔ ایک عرصے سے یہ کتاب نایاب تھی،اب انھوں نے پھر سے اسے شائع کیا ہے۔
کتاب گرچہ بہت ضخیم نہیں ہے، محض ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے،مگر مصنف نے اس میں ہندوستان میں فرقہ وارانہ فساد کی پوری تاریخ اور اس کے اسباب و عوامل پر بہت حقیقت پسندانہ و فکر انگیز گفتگو کی ہے،مثالوں اور شواہد سے انھوں نے یہ بتایا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ان پر قابو پانے میں پولیس کا کردارکیا ہوتا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟
کتاب کے پہلے باب میں انھوں نے اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فساد کی بنیادی وجہ فرقہ پرستی کے جذبات ہیں جو کم و بیش ہندو اور مسلمان دونوں طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔دونوں طبقوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شرپسندی کو ہوا دیتے اور مختلف حوالوں سے اسے بڑھاتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں تصادم اور خوں ریزی کی نوبت آجاتی ہے۔ جب فساد رونما ہوجاتا ہے تو اسے قابو میں کرنے کے لیے سرکاریں پولیس کا استعمال کرتی ہیں،جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ حالات کو قابو کرے،مگر چوں کہ پولیس بھی اسی معاشرے سے آتی ہے جہاں فرقہ پرستانہ جذبات پرورش پا رہے ہیں اور اس سے وہ بھی متاثر ہوتی ہے ؛اس لیے وہ متوقع کردار نہیں ادا کرتی۔وہ لکھتے ہیں:
’اکثر سرکاری تحقیقات میں پولیس کو مسلمانوں کے خلاف غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کے الزامات سے بری کردیا جاتا ہے؛لیکن دیگر تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ پولیس ایسی غیر جانبدار اور انصاف پسند نہیں ہوتی جیسا سرکاری اداروں کی تحقیقاتی دستاویز میں بتایا جاتا ہے‘۔(ص:15)
انھوں نے لکھا ہے کہ بیشتر فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا رویہ مسلمانوں کے تئیں جانب دارانہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے کہ پولیس میں چوں کہ غلبہ ہندووں کا ہے اور وہ اسی سماجی دھارے سے آتے ہیں ،جس میں فرقہ پرستی کے عناصر پنپ رہے ہیں؛اس لیے وہ لا اینڈ آرڈر بحال کرنے کے وسیلے کی بجاے فسادات میں ایک تیسرے فریق کی شکل میں کام کرتے ہیں، یعنی ایک تو یہ ہندو فسادیوں کے سہولت کار بن جاتے ہیں، دوسرے فسادیوں کو قابو کرنے کے نام پر مسلمانوں پر ہر ظلم و زیادتی کو روا رکھتے ہیں۔
دوسرے باب میں انھوں نے فرقہ وارانہ فساد کا تاریخی پس منطر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان میں منظم انداز کے فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ انیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوا جب انگریزی حکومت کی بنیادیں یہاں تقریباً مضبوط ہوچکی تھیں۔اس سے پہلے مغلوں کے دور حکومت میں مختلف ریاستوں یا ہندو اور مسلم حکمرانوں کے درمیان جو لڑائیاں ہوتی تھیں،ان کا تعلق جذبۂ کشور کشائی اور سیاسی کشاکش سے تھا،ان کا کوئی مذہبی اینگل عموماً نہیں ہوتا تھا،یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بعض دفعہ ہندو راجہ کا سپہ سالار مسلمان جبکہ مسلم حکمراں کا سپہ سالار ہندو ہوتا تھا۔ ان حکمرانوں کے درمیان لڑائیاں اور چھینا جھپٹی چلتی رہتی تھی، مگر عوام پر ان کا کوئی اثر نہیں تھا،ان کے باہمی تعلقات نارمل ہوتے تھے۔ انھوں نے سراغ لگایا ہے کہ آج کے معنوں میں پہلا فرقہ وارانہ فساد 1809 میں بنارس میں ہوا تھا،اس کے بعد 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے تک کم و بیش آدھا درجن فسادات ہوچکے تھے۔1857 کی جنگ میں چوں کہ انگریزوں کے خلاف ہندو اور مسلمانوں کے درمیان یک گونہ اتحاد ہوگیا تھا؛اس لیے چند سال حالات پر امن رہے، مگر 1871سے 1918 تک کے عرصے میں متحدہ ہندوستان کے مختلف خطوں میں کم ازکم دس فسادات رونما ہوئے۔اس کے بعد کے دو ڈھائی سال ترک موالات اور تحریک خلافت کے غلغلے کے تھے،جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے؛اس لیے اس دوران بھی فسادات نہیں ہوئے،مگر ان تحریکوں کی ناکامی کے ساتھ ہی پھر فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ وقفے وقفے سے چلتا ہی رہا ۔
اس باب میں انھوں نے اس نکتے پر بھی اچھی تجزیاتی گفتگو کی ہے کہ مغلوں کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات کیوں نہیں ہوئے اور برطانوی حکومت میں یہ واقعات کیوں لگاتار بڑھتے رہے؟انھوں نے یوپی، بہار، بنگال اور مہاراشٹر وغیرہ کے واقعاتی شواہد و دلائل سے یہ بتایا ہے کہ دراصل برطانوی حکومت حسبِ ضرورت خود ان فسادات میں شامل رہتی تھی اور جہاں مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہوتا، وہاں مسلم شرپسندوں کو شہہ دیتی اور جہاں ہندو طاقت ور ہوتے وہاں ہندو فسادیوں کو اکساتی تھی، اس کے نتیجے میں جہاں جو فرقہ طاقت ور ہوتا تھا،وہ غالب آجاتا تھا اور جو کمزور ہوتا وہ جانی و مالی نقصانات اٹھاتا تھا۔
تیسرے باب کا عنوان ہے’ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی نفسیاتی اور سماجی توضیحات‘۔ اس کے حصہ (الف) میں انھوں نے قدرے تفصیل سے یہ بیان کیا ہے کہ فسادات کیسے رونما ہوتے ہیں اور ان کے پس پردہ کس قسم کے نفسیاتی و سماجی عوام کام کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے جائزے کی روشنی میں بتایا ہے کہ فساد کی وجہ ہمیشہ مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی ہی نہیں ہوتی، بہت بار فساد کی وجہ معاشی اور سماجی مسائل سے بھی جڑی ہوتی ہے،کبھی دو فرقوں کے درمیان کاروباری رقابت بھی وجہ ہوتی ہے،جسے مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
اس باب کے حصہ(ب) میں مصنف نے اس نکتے سے بحث کی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے ہندوستان کے اکثریتی طبقے کی سوچ کیا ہے اور انھوں نے اپنے مشاہدے اور جائزے کی روشنی میں دو باتیں بتائی ہیں۔ ایک یہ کہ عموماً اس ملک کا ہندو یہ مانتا ہے کہ فساد ہمیشہ مسلمان شروع کرتے ہیں اور نقصان ہمیشہ ہندووں کا ہوتا ہے۔دوسرے ہندووں کے ذہن میں یہ خیال بھی پختہ ہوچکا ہے کہ مسلمان فطرتاً ظالم اور تشدد پسند ہوتا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں تصورات کے پیچھے کچھ ایسے نظریات ہیں جو ہندو عوام کی نفسیات میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔پھر انھوں نے حقائق کی روشنی میں ان دونوں تصورات کی تردید کی ہے اور 1968 سے لے کر 1980 کے دوران رونما ہونے والے فسادات میں مرنے والوں کی تفصیلات کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں جانی نقصان تو ہندووں سے دو گنا زیادہ مسلمانوں کا ہوا ہے ،تو پھر یہ دعویٰ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ فساد میں ہندووں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اور مسلمان تشدد پسند ہوتے ہیں؟
ابھی پیر کے دن میوات میں شوبھا یاترا کے دوران جو فساد ہوا ہے، اس کے حوالے سے قومی میڈیا نے یہ بیانیہ تخلیق کیا ہے کہ بجرنگ دل والوں کا جلوس گزر رہا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے سنگ باری ہوئی اور پھر حالات بگڑ گئے، یہ بہت کم لوگ بتارہے ہیں کہ اس سے کئی دن پہلے سے بجرنگ دل والے باقاعدہ ویڈیو بنا بناکر میوات والوں کو بھڑکا رہے تھے، ان کے خلاف نہایت نازیبا اور اشتعال انگیز زبان استعمال کر رہے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،ملک کے تقریبا سبھی علاقوں میں رونما ہونے والے ایسے ہر فساد میں یہی پیٹرن اختیار کیا جاتا ہے،یہ پتھربازی والی بات آج ہرہندو کے دماغ میں گھسی ہوئی ہے،آپ میوات سے متعلق خبروں اور ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے سوشل سائٹس پر کمینٹ سیکشن میں جاکر دیکھیں،وہاں اگر مثال کے طورپر امام مسجد حافظ سعد کی شہادت کی خبر ہے تو بھی نیچے سارے ہندو یہی لکھ رہے ہیں کہ یہ پتھربازی کا نتیجہ ہے،ایک ستر اسی سالہ بزرگ اپنی خاکسترشدہ گدوں کی دکان کے باقیات سمیٹ رہا ہے،جس کی تصویر وائرل ہوئی تو اس پر بھی سارے ہندو یہی کمینٹ کر رہے ہیں کہ اس کی دکان پتھربازی کی وجہ سے جلی ہے۔
آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات ان کے ذہنوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے انڈیلی گئی ہے، مگر اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ان کے دماغ میں کئی نسلوں سے چلی آتی ہے۔ وبھوتی نارائن نے اپنی اس کتاب میں رانچی (1967)، بھیونڈی(1970)، جمشیدپور(1979)، بنارس(1977) فسادات سے پہلے اور بعد کے حالات کا تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہندو فرقہ پرستوں نے طویل عرصے سے یہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے کہ وہ پہلے کسی علاقے کو اپنا ہدف بناتے ہیں، پھر وہاں کے مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات دیتے ہیں یا اپنے جلوسوں میں اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں اور جب مسلمانوں کی طرف سے فطری رد ِعمل کا مظاہرہ ہوتا ہے، تو اس ہنگامے کا سارا الزام مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں ؛چنانچہ فساد کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ نقصان مسلمانوں کا زیادہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ اس میں پولیس ہندوفسادیوں کی مدد کرتی ہے اور ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتی ہے،جس کی وجہ سے وہ بلا خوف و خطر مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر بعد میں مجرموں کو سزا دینے کے نام پر زیادہ تر مسلمانوں کو ہی پس دیوار زنداں ڈالا جاتا ہے۔سڑکوں،چوک چوراہوں اور عوامی مقامات پر پائی جانے والی بے کار لوگوں کی بے قابو عوامی بھیڑ کو بھی انھوں نے فسادات کی ایک وجہ بتایا ہے،جسے کوئی بھی آسانی سے استعمال کرلیتا ہے۔
چوتھے باب میں انھوں نے فسادات کے تعلق سے پولیس کے ذہن میں پائے جانے والے عام تصور کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے اور اس رجحان کو کم کرنے کے لیے تین چیزیں نہایت ضروری ہیں:اول تو یہ کہ پولیس میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی ایسی ذہنی تربیت کی جائے کہ وہ ان موقعوں پر کام کرتے ہوئے ہندو یا مسلم کی حیثیت سے سوچنے کی بجاے لااینڈ آرڈر کی تنفیذ کے وسیلے اور عامل کے طورپر کام کریں ،دوسرے پولیس محکمے میں آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کا تناسب ہونا چاہیے۔انھوں نے مختلف شواہد کی روشنی میں پہلے تو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں مسلمانوں کی آبادی اور پولیس محکمے میں ان کی موجودگی کی تفصیلات فراہم کی ہیں،جو نہایت ہی ناقابل اطمینان ہے،پھر مثالوں سے بتایا ہے کہ پولیس میں مسلم نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے فسادات میں خود پولیس والے ملوث پائے گئے یا بڑی آسانی سے انھوں نے متاثرین کو فسادیوں کی بھیڑ کے حوالے کردیا،جیسے کہ بھاگلپور(1989) فساد کے دوران ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کیا یا 92 کے ممبئی فسادات کے دوران پولیس کنٹرول روم سے ہندو فسادیوں کو اکسایا جارہا تھا،جسے معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ نے ریکارڈ کرکےعام کردیا تھا۔ابھی منی پور کے انسانیت کش فسادکے دوران بھی پولیس کا یہ شرمناک چہرہ سامنے آیا ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کے لیے انھوں نے تیسرا ضروری اقدام ذمے داری کے تعین کو قرار دیا ہے،یعنی اگر کسی علاقے میں فساد کو قابو کرنے میں پولیس محکمہ ناکام ہوتا ہے،تو اعلیٰ افسران جیسے ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی کو ذمے دار ٹھہرایا جائے اور قصور وار پائے جانے پر انھیں فوراً سزا بھی دی جانی چاہیے؛تاکہ انھیں اپنی ذمے داری کا احساس ہو اور چھوٹے موٹے پولیس اہلکاروں کو بلی کا بکرا بنانے کی بجاے اعلیٰ افسروں کی جواب دہی طے کی جاسکے۔
ہندوستان میں فسادات کی تاریخ، نوعیت،اسباب و محرکات کو سمجھنے کے حوالے سے یہ کتاب غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ انھوں نے ان کی روک تھام کے لیے جن تین بنیادی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے،ان کی اہمیت مسلم ہے،مگر ہندوستانی سیاست اور ایڈمنسٹریشن نے پولیس محکمے کا ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا ہوا ہے کہ شاید ہی ان پر عمل ہو،خود مصنف نے ذکر بھی کیا ہے کہ یوپی میں پولیس اصلاحات کے تعلق سے کچھ منصوبہ بندی کی بھی گئی تھی، مگر بہ وجوہ ان پر عمل نہیں ہوسکا۔ ویسے اس معاملے میں صرف پولیس کو بھی موردِ الزام کیوں ٹھہرایا جائے، ان کی ڈور تو اصلاً قاتل اور سفاک حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔بہرکیف،کتاب اپنے موضوع پر نہایت عمدہ اور فکرانگیز ہے،ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسائل و فسادات کے حقیقی عوامل و اسباب جاننا چاہیں، تو اس کا مطالعہ ضرور کریں ۔