Slide
Slide
Slide

ذات پات اور مسلمان​

ذات پات اور مسلمان

ان کے سرنیم؛ سابقے اورلاحقے

بات جب ہندو سماج اور ان کی مقدس کتاب میں طبقاتی درجہ بندی اور ہندو ہندو میں بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کی چلتی ہے تو مسلمان بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ الحمدللہ مسلم سماج اس سے بری ہے! اس لئے کہ اللہ نے کہا ہے ولقد كرمنا بني آدم.  یعنی تمام بنی نوع انسان کو اللہ نے مکرم بنایا ہے۔ کسی ایک ذات برادری کو نہیں ۔

 مسلم سماج میں کوئی برتر اور کوئی ابتر نہیں ہے۔ اس لئے کہ اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار ذات پات برادری اور نسل نہیں۔ تقوی ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: أن أكرمكم عند الله اتقاكم 

 اور آقائے نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر، نہ کسی غیر عرب کو عرب پر، نہ کسی گورے کو  کالے پر اور نہ کسی  کالے کو گورے پر کوئی فضیلت  ہے،  تقویٰ کے سوا ۔

 اللہ کی نظر میں تم میں سے  سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ گناہوں سے پرہیزگاری کرنے والا ہے، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے، صحابہ نے کہا: ہاں  یا  رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: (يا أيها الناسُ! إنَّ ربَّكم واحدٌ، وإن أباكم واحدٌ، ألا لا فضلَ لعربيٍّ على عجميٍّ، ولا لعجميٍّ على عربيٍّ، ولا لأحمرَ على أسودَ، ولا لأسودَ على أحمرَ إلا بالتقوى إنَّ أكرمَكم عند اللهِ أتقاكُم، ألا هل بلَّغتُ؟ قالوا: بلى يا رسولَ اللهِ قال: فيُبَلِّغُ الشاهدُ الغائبَ

جب ہم مذکورہ بالا آیت اور حدیث پیش کرتے ہیں تو عموماً غیر مسلم حضرات ہنستے ہیں۔ اس لئے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ برصغیر ہند کے  مسلمانوں میں بھی ذات برادری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

تو پھر ہم قرآن کی دوسری آیت ” قوله  تعالى : وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (13)

لتعارفوا تک پیش کرتے ہیں کہ دیکھیں اللہ نے خود قرآن مجید میں کہا کہ شعوب و قبائل کو خانوں میں رکھا تاکہ تمہاری شناخت رہے۔ لیکن اس کے ساتھ والی  آیت إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کا ذکر نہیں کرتے۔ جبکہ ذات پات کی اسی برتری کے سد باب کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی آیت میں ذکر کر دیا کہ شعوب و قبائل  کا غرض محض شناخت ہے نا کہ  نسلی برتری اور افضلیت۔

 وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ ) قال: الشعوب: الأنساب.

وقوله ( لِتَعَارَفُوا ) يقول: ليعرف بعضكم بعضا في النسب, يقول تعالى ذكره: إنما جعلنا هذه الشعوب والقبائل لكم أيها الناس, ليعرف بعضكم بعضا في قرب القرابة منه وبعده, لا لفضيلة لكم في ذلك۔

ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم سب سے اعلیٰ (برہمن ) جو مذہبی امور کے ذمے دار رہیں گے۔ مذہبی امور اور رسومات کی ادائیگی کرانے کا حق کسی دوسری ذات والوں کو نہیں ہوگا ۔ اس کے بعد کا درجہ دوم میں (کشتری یا چھتری ) جو دفاع اور نظم و نسق قائم کرنے کے ذمے دار ہوتے تھے۔  اس کے بعد درجہ سوئم میں (ویسیہ ) جن کے ذمے تجارت اور ذراعت ہوتی تھی۔ اور سب سے ادنیٰ درجہ چہارم میں (شودر )ہوتے تھے جن کے ذمے ان تینوں درجے کے ہندوؤں کے گھر دوار میں غلاظت کی صفائی ہوتی تھی ۔

اگر واقعی مسلمانوں میں ایسی کوئی طبقاتی تقسیم اور برتر و کمتر کی درجہ بندی نہیں ہے تو یہ سید ، خان ، مغل، شیخ، ملک، انصاری ، سیفی، منصوری اور ادریسی کیوں ؟ اس کا جواب ہے کہ یہ قرآن کی آیت "لتعارفوا” کے تحت ہے جس طرح اوس ، خزرج ، تمیم اور دارم یہ قبیلہ بتانے کے لئے اسی طرح خاندان بتانے کے لئے

وذلك إذا قيل للرجل من العرب: من أيّ شعب أنت؟ قال: أنا من مضر, أو من ربيعة. وأما أهل المناسبة القريبة أهل القبائل, وهم كتميم من مضر, وبكر من ربيعة‌ ۔

ہندوستان میں بھی بعض علاقوں میں اسماء کے ساتھ خاندان یا علاقہ کا سابقہ یا لاحقہ لگایا جاتا ھے۔ مہاراشٹر میں لاحقہ میں گاؤں کا نام کے ساتھ "کر” لکھتے ہیں جیسے گواسکر ، ہوڈیکر اور کیرلا میں سابقہ لگاتے ہیں۔

بادی النظر میں سید، خان ، انصاری، صدیقی ، فاروقی، عثمانی، علوی ، ملک وغیرہ برادری ظاہر کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں اور میرے خیال میں اس سے کسی برادری میں احساس تعلی نہیں ہوتا ہے۔  تاہم بعض مسلم برادریاں مولانا اشرف علی تھانوی اور سر سید احمد خان  رحمہما اللہ کی ” کفو سے متعلق  بعض تحریریں نقل کرتے ہیں :جن میں اشراف، ارذال اور اجلاف کی خانہ بندی کی گئی ہے۔  ان کی تحریروں کو ہم منزل من السماء نہیں مانتے ہیں۔ اس لئے کہ کفو سے مراد سماجی حیثیت میں برابری  ہے نا کہ کسی ذات برادری کی برتری یا کمتری ۔

 آج اس کا اعلان کر کے ہم برادری کے نام پر تصادم سے بچ سکتے ہیں۔‌  جس طرح مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہما اللہ کی بعض تحریروں کو سند مان کر بریلوی حضرات تمام دیوبندیوں کو کافر گردانتے ہیں اور تمام وضاحتوں کے باوجود لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں! وہ وضاحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ نہ کریں۔ لیکن دیڑھ سو سال پہلے کی بات کو پکڑ کر کافر قرار دینے اور فرقہ بندی پر مصر ہیں ۔ یہ اپنی الگ فرقہ قائم رکھنے پر اصرار کے مترادف ہے۔

جہاں تک برادری سید ، خان ، شیخ،  انصاری وغیرہ کی تفریق کی بات ہے۔ تو مسلمانوں میں ہندوؤں کی طرح اونچ نیچ اور چھوا چھوت  جیسا سلوک نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے دینی ادارے کے مہتمم ناظم شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر ، مفتی، فقیہ، قاضی،  ائمہ مساجد اور اساتذہ کی تقرری ان کی علمی صلاحیت مقام اور لیاقت کی بنیاد پر ہوتی ہے نا کہ ذات برادری کے نام پر کسی عہدے کے لئے کسی شخص کو فوقیت دی جاتی ہے۔

دراصل ذات برادری فقط شادی بیاہ کے موقع پر دیکھی جاتی ہے۔ میٹروپولیٹن بڑے شہروں میں اب یہ کلچر بھی معدوم ہو رہا ہے۔  پہلے شادی بیاہ طے کرنے سے پہلے خاندان اور نسب کی تحقیق ہوتی تھی اور کوشش ہوتی تھی کہ اپنے خاندان میں ہی ہو ۔ ہمارے یہاں ڈاکٹر عبدالغفور صاحب مرحوم ہڈی سے ہڈی ملانے یعنی شجرہ نسب کے ماہر تھے۔  آپ ان کے پاس  گئے وہ پوچھتے: کیا نام ہے ؟۔کہاں سے آئے ہیں؟۔ کس برادری سے تعلق ہے؟۔  آپ نے کہا: جھارکھنڈ سے ہیں اور یہ برادری ہے۔ تو وہ کہتے: جھارکھنڈ تو آدی واسیوں کی سرزمین ہے۔ یہاں یہ برادریاں کسی اور ریاست سے آئی ہوئی ہیں۔ والد کا نام بتایئے :آپ نے والد کا نام بتایا۔ بات نہیں بنی۔ تو پوچھتے: اور اوپر دادا کا نام بتایئے ۔ اس طرح وہ ہڈی سے ہڈی ملا کر بتاتے کہ دراصل آپ کا خاندان بہار یا یو پی کے فلاں جگہ سے آکر یہاں آباد ہوا ہے۔

یہ موضوع بحث طلب ہےکہ ہندوستان میں ایسےکتنے  مسلمان ہیں جن کے پاس شجرہ نسب محفوظ ہے اور وہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ اس لئے انصاری کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔ یا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں اس لئے صدیقی۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں اس لئے عثمانی۔  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں اس لئے فاروقی  کا لاحقہ۔ یا افغانستان کے فلاں خان کی نسل سے ہیں اس لئے خان کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔

لیکن شادی بیاہ کے وقت تحقیق اور ہڈی سے ہڈی ملانے اور گوتر میں رشتہ ڈھونڈنے سے قطع نظر ، روز مرہ کی زندگی میں یہ سابقے اور لاحقے اگر  نہ لکھا جائے تو کیا حرج ہے۔ عبد اللہ ، ابراہیم ، منظر جمیل ، آسیہ بیگم ، احمد اشرف، عائشہ صدیقہ ، فرحت جبیں ، شرافت حسین ، جیسے اسماء لکھنے اور بولنے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آپ کی برادری کیا ہے۔ اور جب یہ واضح نہیں ہو گا تو کسی میں احساس برتری تو کسی میں احساس کمتری کا امکان تک نہیں ہو گا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کا تعلق کس برادری سے ہے ؟۔  ظاہر ہے نہیں پتہ اور پتہ کرنا بھی نہیں چاہیئے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس منصب پر فائز ہوئے اتنا جاننا کافی ہے۔

ہمارے بعض اصحاب کو سیکولرازم لفظ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ حالانکہ اسی سیکولرازم کا دین ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام سے بات چیت اور معاملات میں برابر کا درجہ نہیں دینے پر اور  نیگرو کو نیگرو کہنا یا ان کے خلاف کسی اور ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا قابل سزا جرم ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کے سیکولر ممالک میں کسی بھی شہری سے ان کے وقار کو ٹھیس پہنچانے والے انداز میں مخاطب اور معاملات کرنا جیل تک پہنچا دیتا ہے۔ خود اس ملک ہندوستان میں دلت اتیاچار کے خلاف قانون ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ گرچہ مساوات کی اعلیٰ تعلیم کی بہترین مثال ہیں لیکن عملاً کہیں نہ کہیں اس بابت ہم قصوروار ہیں اور اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: