محمد قمر الزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
امینہ طیب جی اہلیہ عباس طیب جی :
امینہ طیب جی جنگ آزادی کی مہم میں پورے طور پر شریک رہیں اور ،شروع سے اندین نیشنل کانگریس کی رکن رکین رہیں ۔ان کا تعلق گجرات کے ایک علمی و سیاسی خاندان سے تھا ،امینہ طیب گجرات کے ممتاز سیاسی رہنما عباس طیب جی کی بیوی اور بدرالدین طیب جی کی بیٹی تھیں ۔امینہ طیب کی پیدائش 1866ء اور انتقال 1942ء میں ہوا ۔اپنے شوہر کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں ہر موقع اور ہر محاذ پر شریک رہیں اور کبھی عزم و ہمت میں کمی نہیں آئی ،حوصلے پست نہیں ہوئے ،شوہر کی گرفتاریوں نے ان کی ہمت کو حوصلہ اور مہمیز ہی نہیں لگایا بلکہ قومی محاذ پر خود بھی انہوں نے آگے پڑھ کر مورچہ سنبھالا اور اپنی خدمات پیش کیں ۔ سودیشی تحریک میں بھی انہوں نے اپنے کو آگے رکھا اور اس میں ہر طرح سے حصہ لیا ۔سوت کاتنے کی مہم کے لئے گاندھی جی نے جو کمیٹی تشکیل دی ،اس میں امینہ طیب جی کو صدر اور میتھیو بہن کو سکریٹری بنایا گیا تھا ۔ بحیثیت صدر کمیٹی اس پر عزم اور دھن کی پکی خاتون نے اس کام کو اتنے انہماک اور مستعدی سے کیا کہ گاندھی جی نے ایک مجلس میں ان کا نام کے کر دوسروں کو ان سے سبق لینے کے لئے کہا اور ان کو مبارکباد پیش کی ۔انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر ودیشی کپڑوں و شراب کی دکانوں پر خواتین کی زبردست تحریک چلائی ۔دوبارہ گرفتار ہوئیں اور سزا ہوئی ۔ سچ ہے کہ
مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
شہید مائی بختارو اہلیہ ولی محمد لاشاری :
جنگ آزادی میں شریک خواتین میں ایک نمایاں نام شہید مائی بختارو کا بھی ہے جو ایک سندھی کاشت کار گھرانے کی پروردہ تھیں ۔ان کے شوہر کا نام ولی محمد لاشاری تھا ۔ شہید مائی بختارو نے اس لڑائی میں اپنے کو وقف کردیا ،وہ محاذ پر آگے رہتیں اور جنگ آزادی کے لئے عورتوں کا حوصلہ بڑھاتی ،ان کو مہمیز لگاتی اور تحریک آزادی میں شریک جیالوں اور دیوانوں کی خدمت کرنا ان کے شوق میں شامل تھا ۔جب زمین داروں نے 1946ء میں لاشاری کے کسانوں اور کاشتکاروں کے اناج پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا تو گاؤں والوں کیساتھ مل کر آپ نے بڑی بہادری اور ہمت سے ان کا مقابلہ کیا ۔پولیس نے نہتے کسانوں پر گولیاں برسائیں ،جس میں 24/ جون 1946ء کو آپ شہید ہوگئیں ۔آپ نے آخری وقت یہ جملہ کہا تھا کہ ،، دیکھو کسی بھی طرح وہ ہمارے اناج کو لے جانے میں وہ کامیاب نہ ہونے پائیں ۔مشہور سندھی ادیب منیر مائک نے شہید مائی بختارو کی حیات پر 1967ء میں ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے۔ (ماخوذ لہو بولتا بھی ہے)
عابدی بانو بیگم بی اماں والدہ محمد علی جوہر :
جنگ آزادی میں جن خواتین نے اپنی اولاد کو ہر طرح سے اس لڑائی کے لئے تیار کیا ،ان کا حوصلہ کو بڑھایا ،ان میں شوق شہادت کو پیدا کیا اور اس کام کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کے تلقین کی، ان میں سب سے نمایاں نام عابدی بانو بیگم معروف بی اماں والدہ محمد علی جوہر رح کا نام سر فہرست ہے ۔۔ جو رجزیہ اشعار پڑھتیں اور اپنے دونوں لخت جگر کو خلافت کے لئے جان دینے پر آمادہ کرتیں ۔۔۔
آپ کی پیدائش 1852ء میں موجودہ امروہہ سابق ضلع مرادآباد میں ہوئی تھی ۔آپ کی شادی ریاست رام پور کے عبد العلی خاں صاحب سے ہوئی ۔آپ کے شوہر عبد العلی خاں کا انتقال جوانی میں ہی ہوگیا تھا ،بی اماں کو بیوگی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ آپ کے دو لڑکے تھے ۔بڑھے کا نام محمد علی اور چھوٹے کا نام شوکت علی تھا ۔ان دونوں کو یتیمی کی زندگی گزارنی پڑی ،لیکن ماں کی بے مثال تربیت کی وجہ سے ان دونوں نے نہ صرف خاندان کا بلکہ پورے ملک کا نام دنیا میں روشن کیا ۔ یہی دونوں بھائی آگے چل کر علی برادران سے ملک و بیرون ملک مشہور ہوئے اور نیک نامی حاصل کی اور پورے طور پر ہندوستان کی آزادی میں شریک ہوئے ۔۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ 19/ ویں صدی کے مسلم معاشرہ میں بیوگی اور پردے داری کے باوجود اپنی جائیداد کے انتظام ،بچوں کی پرورش اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا یقینا مشکل اور دشوار کام تھا ۔مگر اس دور میں بی اماں نے جانبازی اور بلند حوصلگی کا ثبوت پیش کیا اور دقیانوسی فکر کو نظر انداز کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ اگر عزم محکم اور حوصلہ جوان ہو تو خواتین بھی زندگی کے ہر شعبہ اور تمام میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے سکتی ہیں ۔
بی اماں کہتی تھیں کہ میرے بچوں کو ان کا مکمل حق ملنا چاہیے ،تاکہ وہ اپنی ماں کو الزام نہ دے سکیں ۔
مولانا محمد علی کی تربیت اور شخصیت بھی بی اماں کی وجہ سے تھی ،جس کا اعتراف انہوں نے خود کیا ہے ،کہ مجھے اپنے والد بالکل یاد نہیں ،مگر والدہ مرحومہ کو کبھی بھول نہیں سکتا ۔میں آج جو کچھ بھی ہوں یا جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ مجھے اپنی والدہ اماں بی ہی سے ملا ہے ۔۔
بی اماں کا سیاسی سفر کی شروعات پہلی جنگ عظیم سے ہوتی ہے ،یہ وہ دور اور زمانہ تھا جب ملک میں ہر جگہ ہوم رول لیگ کا چرچا ٹھا۔ لوک مانیہ تلک اور مسیز اینی بیسنٹ کی سرپرستی میں مہاراشٹر ہوم رول لیگ کی شاخ ملک میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ بی اماں نے بھی ہوم رول لیگ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے لکھا تھا کہ میں نے اپنے گھر کے تمام لوگوں کے ساتھ اس لیگ کی رکنیت و ممبری کا حلف لے لیا اور خود آگے بڑھ کر خلافت اور نان کو آپر یٹیو مومنٹ کی قیادت کی۔ آپ میٹنگوں میں تقریر کرتی تھیں، تو لوگوں میں جوش پیدا ہو جاتا تھا ۔1917ء میں جو کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا اس میں بھی شریک رہیں ۔1919ء کے مومنٹ کی قیادت بھی آپ نے کی ۔انگریز لیڈر آپ کو خطرناک لیڈر کے نام سے نوازتے تھے ۔اس کے آپ کے اندر انسانیت نوازی وطن پرستی اور ملک کی آزادی کا جنون ایسا تھا کہ بہت کم لوگوں میں ایسا جنون آزادی کے لئے تھا ۔۔آزادی ایک نعمت ہے ،اس کو حاصل کرنے کے لئے انسان بہت کچھ قربان کر دیتا ہے ۔ لیکن بہت سے لوگ اس موقع پر لڑکھڑا جاتے ہیں لیکن مجاہد بیٹوں کی اس مجاہد ماں نے جس جرات ہمت ،شجاعت جانبازی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ملک کی خدمت کی جو روشن مثال پیش کی، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ بی اماں نے اس زمانے میں بڑے گھرانوں کی پردہ نشین خواتین بہن بیٹیوں کو اپنی جوشیلی تقریروں سے جنگ آزادی کی مہم میں شامل کیا اور ان سے اس میں ہر طرح سے معاونت لی، دامے درمے سخنے اور قدمے اس مہم میں شریک کیا۔ آپ ہر مجاہد آزادی کی ماں کے درجہ میں تھیں اور ہر ایک آپ کو بی اماں کہہ کر پکارتے اور ہر کوئی اپنی بات آپ سے آسانی سے کہہ لیتا اور کوئی بھی مدد کسی بھی وقت لے سکتا تھا ۔ آپ کو گاندھی جی بھی امی جان کہہ کر پکارتے تھے اس بہادر خاتون مجاہد آزادی اور مدر انڈیا کا 13/ نومبر 1924ء کو انتقال ہوا ۔۔۔( مستفاد از کتاب لہو بولتا بھی ہے)۔ (جاری)