🖊 ظفر امام قاسمی
پروردگارِ عالم نے نامِ ”استاذ“ میں ایک ایسا تاثر ودیعت کیا ہوا ہے کہ اس نام کے ذہن میں گردش کرتے ہی ایک طرح کے تقدس، احترام، جلال، عزت، تعظیم، تکریم اور وقار کا ریلا وجود میں امڈ پڑتا ہے،انسان جتنا مؤدب بن کر باپ کے سامنے نہیں بیٹھتا اس سے کئی گنا زیادہ وہ استاذ کے سامنے سہم اور سکڑ کر بیٹھتا ہے،اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان کے دل میں باپ کی عظمت بمقابلہ استاذ کی عظمت کے کم ہوا کرتی ہے،بلکہ یہ ایک اَن بتائی ہوئی قوت ہوتی ہے کہ انسان اپنے استاذ کو دیکھ کر چونک جاتا اور ایک غیر مرئی طاقت اسے استاذ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
اور اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو دنیا کی تاریک راہوں میں صرف لاکر چھوڑدینے کا ذریعہ ہوتا ہے، جبکہ استاذ ان تاریک راہوں میں اپنے شاگرد کے لئے مشعلیں فروزاں کرکے اسے مستقبل کی منزلیں دکھاتا اور مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے،جب بچہ اپنے ماں باپ کی گود سے آزاد ہوکر استاذ کے آستانے پر آ بیٹھتا ہے تو اس وقت اس بچے کی قیمت سرِ راہ پڑے ایک بےوقعت پتھر اور بےقیمت خاک سے اوپر کی نہیں ہوتی، پھر استاذ اس پتھر کو تراشنے اور اس خاک کو قیمتی بنانے میں اس قدر منہمک ہوجاتا ہے کہ ایک دن وہی بےوقعت پتھر ہیرا اور وہی بےقیمت خاک کندن بن کر دنیا کی نگاہوں کے سامنے ظاہرہوتی ہے، پتھرکو ہیرا اور خاک کو کندن بنانے میں ایک استاذ کی جو کوشش کارفرما ہوتی ہے اس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے احترام و تقدس اور ادب و عزت کے یہ فرسودہ نام بے معنی سے لگتے ہیں، انسان اگر پوری زندگی بھی اپنے استاذ کے سامنے سراپا ادب بناْ بیٹھا رہے تب بھی اس کوشش کی ادنی سی قیمت بھی ادا نہیں کرسکتا۔
استاذ کا مرتبہ اور مقام بتلانے کے لئے وہ حدیث کافی ہے جس میں نبئ اکرم، معلمِ اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” بُعِثْتُ مُعَلِّماً “( میں معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں) صفتِ تعلیم سے بڑھ کر اگر کوئی لفظ منصبِ نبوت کی شان کو شایاں ہوتا تو اللہ کے نبیؐ تعلیم کی بجائے اس صفت کا تذکرہ کرتے، معلوم ہوا کہ تعلیم سے بڑھ کر کوئی صفت نہیں اور معلم سے اونچا کوئی مقام نہیں۔
اسی ”استاذ“ کے عالی مقام کو اجاگر کرنے اور اس کی لازوال کوششوں اور گراں بہا کد و کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے پورے ملک ہندوستان میں ہر سال ٥/ ستمبر کو ” یومِ اساتذہ “ منایا جاتا ہے،اس معنی کر آج ” یومِ اساتذہ “ ہے، پورے ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں ۵/ ستمبر کو گہماگہمی کا ماحول ہوتا ہے،ہر طالب علم اپنے انداز اور اپنے رنگ میں اپنے استاذ کو خراجِ تحسین پیش کرتا نظر آتا ہے۔
ہندوستان میں ” یومِ اساتذہ “ ایک عظیم بھارتی سیاست داں، فلسفی اور آزاد بھارت کے نائب صدر سروپلی رادھا کرشنن ( ۵/ ستمبر ۱۸۸۸ء _ ۱۷/ اپریل ۱۹۷۵ء ) کی یاد میں منایا جاتا ہے،رادھا کرشنن بیسویں صدی کے ایک ممتاز بھارتی مفکر،دانشور اور فلسفی تھے،تعلیمی و تدریسی میدانوں میں کنگ جارج پنجم چئیر آف مینٹل اینڈ مورل سائنس، کلکتہ یونیورسٹی (۱۹۲۱ تا ۱۹۳۲) سے منسلک رہے،نیز جامعہ آکسفورڈ کے مشرقی ادیان اور شعبۂ اخلاقیات کے ( ۱۹۳۶ تا ۱۹۵۲ ) پروفیسر بھی رہے۔
رادھا کرشنن ۵/ ستمبر ۱۸۸۸ء میں ایک تیلگو برہمن خاندان میں مدراس پریسی ڈینسی میں واقع تھیروتانی کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے،یہ گاؤں ریاست آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی سرحد پر واقع ہے،ان کے والد کا نام سروپلی ویرا سوامی اور ماں کا نام سیتاما تھا،ان کے والد زمیندار کے یہاں مالیات کے نائب افسر تھے،ان کی ابتدائی تعلیم تروتانی کے بورڈ ہائی اسکول میں ہوئی۔
جب وہ بھارت کے صدر دوم منتخب ہوئے تو ان کے کچھ شاگردوں اور دوستوں نے درخواست کی کہ انہیں اپنا یوم پیدائش منانے کی اجازت مرحمت فرمائیں، جس کے جواب میں انہوں نے لکھا ”میرے یوم پیدائش منانے کے بجائے اگر ۵/ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ فخر ہوگا“ اسی دن سے رادھاکرشنن کا یوم پیدائش بھارت میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اسلام میں ایام کی قید و بند کا تصور نہیں ملتا،مذہبِ اسلام ہمیشہ ایام اور اوقات کی بیڑیوں سے اوپر اٹھ کر اپنے ماننے والوں کو راستہ بتاتا ہے،یومِ اساتذہ کی رسم جاری ہونے سے کافی پہلے ہی سے بشمول اسلام کے تمام ادیان اور مذاہب میں استاذ کی عزت اور ان کے احترام کا پتہ ملتا ہے،اسلامی تاریخ کے خلیفۂ دوم فاروق کے لقب سے مشہور حضرت عمر بن الخطابؓ سے کسی نے ایک مرتبہ پوچھا کہ ” اتنی بڑی مملکت کے حاکم ہونے کے باوجود اب بھی آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے “؟ اس پر آپ نے بےساختہ فرمایا ” کاش میں ایک معلم ہوتا “۔
ہردور میں استاذ کو معاشرے اور سماج میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے دنیا کی جتنی بھی قدآور ہستیاں گزری ہیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی استاذ کی تربیت یافتہ تھیں،اساتذہ کے بغیر ان کا علوم و معارف کی منزلیں طے کرنا اور ان کا علم کی دیواروں پر کمندیں ڈالنا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال تھا۔
یہی وجہ ہیکہ ہر ایک نے اپنے اساتذہ کے تئیں بےنظیر احترام اور تکریم کی مثال قائم کی، چنانچہ شہرۂ آفاق کتاب ” معارف مثنوی “ کے نامور مصنف،مشہور صوفی و زاہد مولانا رومؒ اپنے استاذ حضرت شمس تبریزیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
امام الفقہاء،مقتدائے مجتہدین حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ” میں نے کبھی اپنے استاذ کی قیام گاہ کی سمت اپنی ٹانگیں نہیں پھیلائیں “ غالباً آپ ہی کا واقعہ ہے کہ ایک بار آپ درس دے رہے تھے،آپ کے سامنے طلبہ کا جمِ غفیر ہالہ بنائے موجود تھا،دورانِ درس کبھی کبھی آپ اچانک اٹھ کھڑے ہوتے پھر تھوڑی دیر بعد بیٹھ جاتے، ایسا کئی بار ہوا، درس کے اختتام پر شاگردوں نے آپ سے پوچھا ” حضرت! آپ کے اس عمل کے پیچھے کیا راز ہے؟اس طرح تو کرتے ہوئے ہم نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا“ اس پر آپ نے جواب دیا کہ ” در اصل جب میں تمہیں درس دے رہا تھا تو میرے استاذ کا چھوٹا سا لڑکا کھیلتے کھیلتے سامنے کے دروازے پر پہونچ جاتا تھا، میرا دل گوارہ نہیں کر رہا تھا کہ میرے استاذ کا لڑکا وہاں کھڑا رہے اور میں یہاں بیٹھا رہوں، میں اسی کے احترام کی وجہ سے کھڑا ہوجاتا تھا “ اللہ اکبر یہ ہے استاذ کی عظمت کہ استاذ کے معصوم بیٹے کو دیکھ کر بھی امام الوقت کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
استاذ کی عظمت اور ان کی تقدیسی شخصیت نے وقت کے شاہ زادوں کو بھی اپنے آستانے پر جھکنے پر مجبور کردیا ہے، چنانچہ ہارون رشید بادشاہ جو بذات خود علماء دوست انسان تھے،جب ان کے دربار میں کوئی عالم یا استاذ آجاتے تو آپ ان کی عقیدت و احترام میں اپنے مسند سے اتر جاتے،آپ کے دوبیٹے مامون اور امین حضرت امام نسائی کے پاس علم حاصل کر رہے تھے،دونوں اپنے استاذ کی خدمت میں متنافسانہ مزاج رکھتے تھے،ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ وہ آگے بڑھ کر استاذ کے کام آئے،اسی تنافسانہ اقدام میں دونوں بھائیوں میں ایک بار لے دے ہوگئی،ہوا یہ کہ جب ان کے استاذ کہیں جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو دونوں اس بات پر اڑ گئے کہ استاذ کی جوتیاں میں سیدھی کرونگا،بات جب بننے میں نہ آئی تو استاذ نے تصفیہ کیا کہ ہر ایک ایک ایک جوتی سیدھی کرے،یہ ہے استاذ کا مقام کہ شہزادے اور مستقبل کے بادشاہ اپنے استاذ کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لئے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
زاویہ نامی کتاب کے مصنف اشفاق احمد اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ’’ برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا،میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا،کمرۂ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا؟تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں، اس لیے میں چالان جمع نہیں کرسکا،یہ سن کر جج کے چہرہ پر حیرانی کا تاثر آگیا اور بے ساختہ جج یہ کہتے ہوئے The Teacher is in the court ( ٹیچر کورٹ میں کیسے آگیا؟) میرے احترام میں کھڑا ہوگیا،ان کے علاوہ باقی جتنے بھی جج وہاں بیٹھے تھے وہ بھی کھڑے ہوگئے،اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جا ن گیا‘‘۔
اور حضرت علیؓ کا تو مشہور مقولہ ہے کہ ” جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں ان کو اختیار دیتا ہوں، چاہے تو وہ مجھے غلام رکھ لے یا آزاد کردے “
ان کے علاوہ اکابرین دیوبند میں سے کسی بزرگ ( غالبا یہ حضرت نانوتوی کا قصہ ہے) کا قصہ مشہور ہے کہ ان سے ایک بھنگی نے کتے کے ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے کی وجہ بتائی تو وہ اس کے بعد سے اس بھنگی کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی اساتذہ کی عظمت کے ترانے گائے اور ان کے احترام کے آگے سرنگوں ہوئے کامیابی اور کامرانی کا سہرا اس کے سر سجا،وہ عزت و رفعت کے آسمان میں جا پہونچی، آج بھی امریکہ،برطانیہ،جاپان، فرانس،ملائیشیا اوراٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ایک معمولی سے استاذ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ وہاں کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک استاذ تاریک راہوں کا مشعل بردار ہے جس کی چکاچوند روشنی میں گم کردۂ راہ کو اپنی منزل نظر آجاتی ہے،ایک استاذ ایک ایسا انمول تحفہ ہے جن کے دم قدم سے ہی زندگی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، ایک ایسا رہبر ہے جن کی راہ نمائی کے بغیر انسان ادھورا اور نامکمل ہے:
دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر
غرض یہ کہ استاذ ایک ایسا معمارِ قوم ہے جو اجڑے قوم کی تعمیر میں ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے،امن کا ایک پیامبر ہے جو فتنہ فساد کی آندھیوں میں امن کا چراغ روشن کرتا ہے،ایثار و غم خواری کا ایک پیکرِ مجسم ہے جو اپنے شاگردوں کو پروان چڑھانے کے لئے اور ان کی شخصیت سازی کے لئے اپنی راحت،اپنا آرام، اپنی خواہش اور اپنا من سب کچھ ان پر نچھاور کردیتا ہے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :
رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے
استاذ یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
آج تعلیمی جولان گاہ کی اس وسعت و فراخی میں ناچیز بھی ایک ادنی سا استاذ بنا ہوا ہے،تاہم ناچیز کے اس مقام تک پہونچنے کے لئے یکے بعد دیگرے جن جن اساتذہ کی بھی محنت اور کد و کاوش کارفرما ہے،ناچیز کا ہر بُنِ مو ان تمام اساتذہ کا مقروض ہے،یہ ناچیز آج بھی ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھتا ہے،لیکن یوم اساتذہ کے اس موقع پر اپنے ان دو بنیادی استاذوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے اپنا اولین فريضہ سمجھتا ہے جن کی بےلوث توجہات اور بے مثال عنایات نے ناچیز کو اس مقام تک پہونچانے کے لئے خشتِ اول کا رول ادا کیا۔
ان میں سے ایک میرے ابتدائی اسکول کے استاذ جناب ماسٹر رئیس صاحب ( ہرپور ارریہ ) مدظلہ ہیں، جن کے پاس ناچیز نے بغدادی قاعدہ سے لیکر پارۂ عم تک کا سفر طے کیا،آہ! میں اس وقت کو کیسے بھول سکتا ہوں جب میرے یہ استاذ برسات کے موسم میں مجھے اپنی گود میں اٹھا کر اسکول لے جایا کرتے تھے، اور بڑے پیار سے سبق پڑھایا کرتے تھے۔
دوسرے وہ استاذ ہیں جن کے پاس میں نے اردو اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں، (حفظ سے پہلے میں نے فارسی کی اکثر کتابیں انہی استاذ کے پاس پڑھ لی تھیں، پھر حفظ کے بعد از سر نو دوسرے اساتذہ کے بعد انہی کتابوں کو پڑھا،بعد میں جن اساتذہ سے میں نے پڑھا ان کی فہرست کافی طویل ہے،جن کے احسان تلے میری گردن دبی جاتی ہے) ان سے میری مراد استاذ مکرم حضرت مولانا اسلام الدین صاحب مدظلہ ( بگولاہانکی، ٹیڑھاگاچھ، کشن گنج، استاذ مدرسہ منور العلوم ڈھیم ڈانگی، ٹیڑھاگاچھ، کشن گنج ) کی بلند شخصیت ہیں، اس ناچیز کو تراشنے اورخراشنے کے لئے حضرت والا کی جو لازوال قربانی اور بے مثال تگ و دو کارفرما ہے وہ میرے لوح قلب پر ہمیشہ نقش رہےگی،میں آپ کے اس احسان کو کیسے بھول سکتا ہوں جب میں مدرسہ کی چہار دیواری سے اکتا کر گھر بھاگ کھڑا ہوتا تھا،تو ایسا کئی بار ہوا کہ حضرت بنفس نفیس مجھے سائیکل سے لانے کے لئے میرے گھر تک جا پہونچے اور سمجھا بجھا کر مدرسہ لائے۔(اللہ حضرت کی زندگی دراز کرے)۔
جہاں حضرت تھوڑے سخت مزاج تھے وہیں آپ کے اندر پدرانہ شفقت بھی موجزن تھی،آج مجھے اس دن کا ایک قصہ یاد آرہا ہے، جسے رقم کئے بغیر دل آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا کہ ایک بار حضرت نے مجھے ایک کاغذ پر ایک تقریر لکھ کر دی،میں نے اسے زبانی یاد کرلی،پھردنوں کی آمد و رفت اور میرے لاابالی پن نے اس کاغذ کو مجھ سے روپوش کردیا، میں نے اس کاغذ کے گم ہونے کے حادثہ کو اپنے سینے میں دفن کر لیا،اس پر چند مہینے بیت گئے،کاغذ کے نقوش میرے ذہن میں کچھ دھندلا سے گئے۔
ادھر میرے یہ استاذ اس خیال میں تھے کہ کاغذ میرے پاس محفوظ ہے،چند مہینوں کے بعد جب مدرسے میں میٹنگ ہونی طے پائی تو میرے استاذ نے چند دنوں پہلے ہی مجھے آگاہ کردیا کہ ” میٹنگ میں تجھے تقریر کرنی ہے “ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے،کیونکہ کاغذ تو کب کا ہی گم ہوچکا تھا،میری عمر بھی اتنی نہیں تھی کہ کہنے کی جسارت کرپاتا،اگر کہہ ڈالتا تو مار کھانے تک کی نوبت پہونچ سکتی تھی،سو میں نے مارے ڈر کے چپی سادھنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔
میٹنگ کی صبح میں چند بچوں کے ساتھ چاول وصول کرنے کے لئے اس بستی میں جا داخل ہوا جہاں میرے اس استاذ کا گھر تھا، وہ بستی مدرسے سے چند ہی گز کے فاصلے پر واقع تھی،استاذ نے جب مجھے وہاں ٹہلتا ہوا دیکھا تو پہلے خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھورا،پھر کہا کہ جلدی یہاں سے بھاگو اور جاکر تقریر یاد کرو، اب میں کیا کہتا کہ کاغذ گم ہوگیا ہے؟ اس وقت یہ کہنا گویا قیامت کو دعوت دینا تھا،میں دل میں ڈر اور خوف کا سمندر لئے مدرسے کی طرف چل دیا، ابھی میں مدرسہ پہونچا ہی تھا کہ میرے یہ استاذ بھی سائیکل لے کر مدرسے میں داخل ہوگئے، اور سائیکل اسٹینڈ کرکے میرے سر پر جا کھڑے ہوئے،اور جاتے ہی ایک تھپڑ زور سے رسید کر ڈالا یہ تھپڑ گھومنے جانے کے جرم میں تھا،پھر کہنے لگے کہ چلو تقریر سناؤ،یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں یا کیا جواب دوں؟ بالآخر زبان سے پھسلتے پھسلتے یہ بات پھسل ہی گئی کہ تقریر میں بھول چکا ہوں اور کاغذ بھی کب کا ہی گم ہوچکا ہے،اتنا سننا تھا کہ میرے استاذ طیش میں آگئے اور اس زور سے مجھے سامنے کی طرف دھکا دیا کہ میں قلابازیاں کھاتا ہوا ایک کنستر پر اوندھے منہ جا گرا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناک کے نیچے اوپر کے ہونٹ پر زخم آگیا، جس سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔
شاید میرے خون کے فوارے نے میرے اس استاذ کے دل میں میرے تئیں رحم و کرم کی لہر دوڑا دی،ان کے قلب پر پدرانہ شفقت جوش مارنے لگی،یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدرسے کی اس چہار دیواری میں میں ہی ان کی آخری امید تھا جو چند گھنٹوں میں دوسری تقریر یاد کر کے سنا سکتا تھا، اگر زیادہ زد و کوب کرتے تو میں اس لائق نہ رہتا،وجہ جو بھی رہی ہو انہوں نے مجھے اٹھایا اور سائیکل پر سوار کرکے اپنے گھر لے گئے، سب سے پہلے اپنی اہلیہ سے تیل گرم کرکے میرے زخم پر لگانے کو کہا، اس کے بعد مجھے وہاں سے اٹھا کر ناشتہ کے دسترخوان پر بٹھا دئے،اس بیچ میرے آنسو تھم گئے تھے، تاہم آنکھیں اب بھی سوجی ہوئی لگتی تھیں۔
میرے وہ استاذ بلا کے ذہین تھے،آپ ان کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے وہی تقریر جو چند مہینے پہلے لکھی تھی الفاظ کے کچھ ہیر پھیر کے ساتھ دوبارہ سے لکھ کر مجھے تھما دی، اور مجھے لاکر مدرسے کے ایک کمرے میں بٹھادیا،میں ایک دو گھنٹے مسلسل از سرِ نو وہ تقریر یاد کرتا رہا، اللہ نے کرم کیا کہ میں نے اپنے اس استاذ کی لاج رکھ لی،آج جب کہ اس واقعہ کو پیش آئے تقریبا ۱۷/ ۱۸ سال کا ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے، مگر جب بھی مجھے یادوں کے قافلے اس دن کی پیٹھ پر لے جا بٹھاتے ہیں اور مجھے اپنے اس استاذ کا اپنے تئیں وہ مشفقانہ رویہ اور عنایتانہ توجہ یاد آتی ہے تو آنکھیں نمناک ہوجاتیں اور دل کے دروازے دعا کے لئے کھل جاتے ہیں۔
بہرحال اب زمانہ کافی ترقی کرچکا ہے، آئے دن زمانہ انقلابی کروٹیں لیتا رہتا ہے، اب اس دور میں اساتذہ کے تئیں طالب علموں میں وہ بات نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی،تاہم اس دورِ تنزلی میں بھی ایسے بہت سے خوش نصیب طلبہ مدارس اور اسکول کالجوں میں موجود ہیں جو اپنے استاذ کی عظمت کو اپنا اولین فریضہ اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنی فلاح و کامرانی کا ضامن تصور کرتے ہیں۔