محمد عمر فراہی
اندلس سے مسلمانوں کی سلطنتوں کا خاتمہ ہو چکا تھا اور علماء اسلام اندلس کے مسلمانوں کی ہجرت اور زبوں حالی پر متفکر تھے اور تحقیق کر رہے تھے کہ جہاں سات سو سال تک اہل ایمان نے حکومت کی اور اس ملک کو اپنی علمی خدمات اور ٹکنالوجی سے مزین کرتے ہوۓ سر سبز و شاداب بنایا اس کے بعد بھی ایسی کیا وجہ ہوئی کہ نہ صرف ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا پورے اسپین سے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا ۔
یہ بحث ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغرب کی یلغار نے مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کی عظیم سلطنتوں کو بھی یونان و مصر و روما اور بابل کی عظیم سلطنتوں کی طرح ماضی کا قصہ بنا دیا ۔سر سید نے اس کا حل ڈھونڈا کہ مسلمان جدید تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہیں ۔ملا نے سمجھا کہ مسلمان دین سے دور ہونے کی وجہ سے بدحال ہیں ۔علی گڑھ اور دیوبند تحریک اسی سوچ کی بنیاد پر وجود میں آئی لیکن ان دونوں تحریکوں سے مسلمانوں کی اپنی پسماندگی میں نہ صرف ذرہ برابر کوئی فرق نہیں پڑا وہ قدآور اور مخلص شخصیتیں جو اس تحریک سے پہلے پیدا ہوئیں ان کی پیداوار بھی منجمد ہو گئی ۔ علی گڑھ تحریک سے نہ دوسرا سر سید پیدا ہوا اور نہ ہی دیوبند سے کوئی اور حسین احمد مدنی ! یعنی دونوں ادارے کچھ لوگوں کے پیٹ کی بھوک تو مٹا رہے ہیں دماغ کی اور ذہنیت کی بھوک کا مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے ۔اس کا مطلب یہ دونوں ہی تحریکیں ناکام ہوئیں اور مسلمانوں کی زبوحالی اور پسماندگی کی وجہ کچھ اور تھی ۔
مولانا نجیب آبادی نے تاریخ اسلام میں اسپین سے مسلمانوں کی حکومتوں کے خاتمے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ ان کا داخلی انتشار تھا ۔
جو تاریخ کے طالب علم ہیں انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اندلس کے بعد سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت کے زوال کا سبب یہ نہیں تھا کہ ان تینوں ممالک کے مسلمان تعلیمی پسماندگی کا شکار تھے بلکہ اس کی وجہ ان کا داخلی انتشار تھا جبکہ دوسری قومیں اقتدار سے دور ہونے کے بعد جو نقصانات اٹھا رہی تھیں انہوں نے اپنی پسماندگی کی بھوک سے اقتدار کی اہمیت کا اندازہ لگایا اور اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہونا شروع کر دیا ۔بلکہ یوں کہیں کہ ہزار اختلافات کے باوجود یہود و نصارٰی اور ہنود کے اعلیٰ ذہن بھی غیر محسوس طریقے سے اس بات پر متفق تھے کہ کسی طرح نظام عالم کو مسلمانوں کی بالادستی سے آزاد کرانا ہے ۔جیسا کہ آج انڈیا کے نام سے بھارت کی وہ تمام پارٹیاں بھی کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کو شکست دینے کے لئے متحدہ محاذ بنا چکی ہیں جنھوں نے آج سے پندرہ سال پہلے کانگریس کو ہرانے کے لئے اسی بی جے پی سے اتحاد کیا تھا ۔
علامہ اقبال نے یوں تو امت مسلمہ کے زوال اور عروج پر مختلف زاویے سے اپنے ہزاروں اشعار کے ذریعے روشنی ڈالی ہے اور ان کا ہر مصرع سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں :
پرواز ہے دونوں کی مگر ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
یا پھر انہوں نے قومیت کے علمبرداروں کو مخاطب کر کے کہا کہ
وہ شکست خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کی کیا ہے رہ رسم شاہ بازی
لیکن انہوں نے اپنے ایک مصرعے میں قوموں کے عروج کا ایک مکمل فلسفہ بیان کر دیا ہے کہ
قوموں کی تقدیر وہ مردہ درویش
جس نے نہ ڈھونڈھی سلطان کی درگاہ
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ امت مسلمہ خاص طور سے ملت اسلامیہ ہند کا اجتماعی شعور مردہ ہو چکا تھا ۔اسی جھنجھلاہٹ میں اقبال نے کہا کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
ایسا نہیں کہ ملت کے لئے صرف اقبال نے آنسو بہاۓ اقبال سے پہلے جب مولانا حالی نے یہود و نصارٰی اور ہنود کی بیداری کو دیکھا اور اہل ایمان کے قافلے کو پست ہوتے ہوے دیکھا تو انہوں نے
ائے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
کے نام سے پوری نظم لکھی ۔
حیرت اور افسوس ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے علماء اور اہل دانش پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ۔وہ آج بھی بے حسی کے عالم میں ہے ۔انہیں یہود و نصارٰی اور مغرب کے نیو ورلڈ آرڈر کے طوفان کا بھی بالکل اندازہ نہیں ہے جس نے کبھی مسلمانوں سے ان کی سلطنتوں کو چھینا اب ان کے ایمان اور عقیدے پر حملہ اور ہے ۔
ہمیں اندلس غرناطہ اور سمر قند بخارا اور ترکی کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔آنکھیں کھول کر دیکھیں تو ہمیں آج کے بھارت کے مسلمانوں کی پسماندگی کی یہ تصویر ان کے مسلکی اختلاف اور داخلی انتشار میں نظر آ جاۓ گی ۔کسی زمانے میں لگتا تھا کہ مدرسے اسلام کے قلعے ثابت ہوں گے مگر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیر میں مدرسے اور مولوی بھی چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں !
سچ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو تو اندازہ بالکل نہیں ہے اور وہ مادہ پرستی کے نشے میں مست ہے اہل مدرسہ بھی کسی طوفان سے آشنا نہیں ہیں ۔بے چارہ اقبال بھی انسان ہی تھا ۔جب اس طبقے نے بھی اس کی نہ سنی اور اپنے کفر کے فتوے کے ساتھ اس کی طرف دوڑ پڑا تو اس نے کہہ دیا
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الااللہ
اب تو صورتحال پہلے سے بھی زیادہ بدتر اور تشویشناک ہے اور ہو رہی ہے جبکہ شاعر مشرق نے مسلمانوں کے انتشار کے تعلق سے اپنی تشویش اور پریشانی کا اظہار تقریبا سو سال پہلے ہی کر دیا تھا کہ
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ
مری نواۓ پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون میخان