Slide
Slide
Slide

جامع مسجد بنارس گیان واپی کے کئی قابل توجہ پہلو

مولانا عبدالحمید نعمانی 

بھارت اور اس کے برہمن وادی طبقے کو سمجھے بغیر کوئی بھی موثر و مفید اقدام نہیں کیا جا سکتا ہے، ہندو مسلم ذہن میں کئی طرح کا فرق ہے، اس کی طرف کئی اہل علم نے اشارہ کیا ہے، علامہ سید سلیمان ندوی رح نے اس کے متعلق بارہا لکھا ہے، ایک بار پروفیسر نجیب اشرف ندوی رح نے ہندو مسلم ذہن کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا :

"ہندوؤں اور مسلمانوں کے طریقہ کار اور خصوصیات فطرت کا پتہ ان کی تحریکوں کے نتائج سے لگتا ہے، مسلمان اپنے کام کو شروع کرتے وقت اپنی تمام قوت، اپنے تمام ذرائع اور اپنے سارےوسائل بیک دفعہ صرف کر دیتے ہیں اور پھر چند روز کی دلچسپی میں اپنی محنت کا ثمرہ نہ پا کر بد دل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کام صرف اثری و تاریخی دلچسپی کی چیز بن کر رہ جاتی ہے ۔لیکن ہندو جو کام کرتے ہیں اس میں وہ اپنی قوت، اپنے اسباب اور اپنے ذرائع کو مختلف مدارج میں منقسم کر دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کے نتیجے کا انتظار کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک مدت کے بعد اس کا نتیجہ، ایک مکمل عمارت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے "(ماہنامہ معارف مارچ 1925)

یہ تجزیہ انتہائی تحقیق و مشاہدہ پر مبنی ہے، اس کی مثال میں آر ایس ایس کی جدوجہد اور بابری مسجد/رام جنم بھومی مندر کے معاملے کو پیش کیا جا سکتا ہے، برہمن طبقہ میں بے مثال صبر و تحمل اور دیگر کی باتوں کا لحاظ کیے بغیر اپنے مقصد کے حصول میں تن من دھن سے لگے رہنے کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 یہی کچھ جامع مسجد بنارس گیان واپی کے متعلق،  تحفظ عبادت گاہ قانون 1991 کو نظرانداز کرتے ہوئے مندر میں بدل دینے کی کوششوں میں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، برہمن وادی ہندوتو کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ برائی و بدی سے نہیں ڈرتا ہے البتہ بدی و برائی کرنے کی تشہیر سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، بسا اوقات بد لحاظی سے  بھی کام لینے سے گریز نہیں کرتا ہے، بابری مسجد کا تالا کھلوانے کا عمل جس تیزی سے ضلع عدالت کی طرف سے کیا گیا وہ پورے ملک کے سامنے ہے۔

جامع مسجد بنارس گیان واپی کے سلسلے میں جس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ان کو سمجھتے ہوئے بھی کچھ بتا پانا ایک ناقابل فہم اور مشکل بات ہے، اگر غور سے دیکھا جائے تو ملک کی آزادی کے ساتھ شرنگار گوری کی یومیہ پوجا کی اجازت مانگنے کا مسجد کی ملکیت اور اس کے سروے سے براہ راست کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے، لیکن نیچے سے اوپر تک تعلق دکھانے اور باور کرانے کی مہم زوروں پر ہے، نندی بیل کی تنصیب اور شرنگار گوری کی کبھی کبھار کی پوجا کا سلسلہ بہت بعد کے دنوں میں شروع کیا گیا ہے، نندی بیل کو شیو کے محافظ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس کا رخ عموما ہندو پرانک نظریہ کے مطابق شیو سے مخالف سمت میں ہونا چاہیے، جیسا کہ دیگر مقامات پر نظر بھی آتا ہے، لیکن برٹش دور حکومت میں جلدی بازی میں اس کا رخ مسجد کے حوض کی طرف کر دیا گیا، ابھی تک نیچے سے اوپر تک عدالتوں میں سے کسی سے اس سوال کا جواب نہیں ملا ہے کہ موجودہ مسجد/مندر تنازعہ اور اس کی شنوائی کے ساتھ 1991 کے تحفظ عبادت گاہ قانون کی توضیع کا مقصد و مطلب کیا رہ جاتا ہے؟گزشتہ دنوں مسجد فریق کے وکلاء نے اس کو عدالت میں رکھا تھا، عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں سروے سے متعلق سوال و مدعا بہت واضح ہے لیکن جواب بالکل غیر واضح، مبہم اور گول مول سا، مندر فریق کی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے، سپریم کورٹ نے معاملے کو نچلی عدالتوں کو منتقل کرتے ہوئے ہدایات دیں کہ بغیر کسی طرح کی کھدائی کے اے ایس آئی، جی پی آر تیکنک سے سروے کیا جائے، اس کے متعلق اپنے حلف نامہ میں اے ایس آئی نے بھی عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بغیر کسی طرح کی کھدائی اور مسجد کی عمارت کو چھیڑ چھاڑ کے جی پی آر تکنیک کے ذریعے سروے کیا جائے گا، لیکن اس یقین دہانی کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے، اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ مسجد کے احاطہ میں جگہ جگہ کھدائی کی جا رہی ہے، ملبے کو ٹرک سے ہٹایا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر انجمن انتظامیہ مساجد نے بجا طور سے اعتراض کیا تھا کہ موجودہ صورت حال میں سروے کے لیے مزید وقت نہ دیا جائے، عدالت کی طرف سے اے ایس آئی ٹیم کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 2 ستمبر 2023 تک اپنی سروے رپورٹ پیش کر دے لیکن اے ایس آئی نے مقررہ مدت 2 ستمبر کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بجائے اس نے مزید 8 ہفتوں کا وقت مانگا اور عدالت نے انجمن انتظامیہ مساجد کی درخواست و اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے اے ایس آئی(محکمہ آثار قدیمہ ) کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا کہ وہ مزید 8ہفتوں تک سروے کا کام کرے، اس فیصلے کے بعد اے ایس آئی ٹیم پھر سے سروے میں لگ گئی ہے، اس مدت میں بھی سروے کا کام پورا ہو جائے گا، یہ یقین  سے نہیں کہا جا سکتا ہے،  بہت ممکن ہے کہ کچھ نہ کچھ آگے بھی چلتا رہے گا، تقسیم وطن کے ساتھ ہی بھارت میں ایک خاص طرح کی ذہنیت مسلسل پروان چڑھ رہی ہے، جس کا تعلق اکثریتی سماج کے ہندوتو وادی عناصر میں ذہنی و عملی طور سے پیدا احساس کمتری اور تہذیبی و نظریاتی خلا۶ و خامی کو پر و ختم کر کے مفروضہ فخر کی زمین پر سماج کو کھڑا کرنے کے عمل سے ہے، اس عمل میں تمام شعبہ ہائے حیات کے افراد شامل ہیں، اس صورت حال میں سماج میں معروف محترم عظیم شخصیات اور مذہبی علامتوں کے نام پر ہندوتو وادی سماج کی تشکیل، برہمن وادی طبقے کی مجبوری و ضرورت بن گئی ہے، لیکن یہ دیگر پر انحصار اور منفی فکر و عمل پر مبنی کوششوں کا حصہ ہے، جن میں کوئی تہذیبی و روحانی استحکام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے، مفروضات سے سماجی ساخت و شناخت کو بنائے رکھنا مشکل ہے اس کی مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں، اونچ نیچ پر قائم طبقاتی نظام کے تحت چار طبقات میں سماج کی تقسیم کو عالمی سطح  پر اور ملک کے آئین میں مسترد کیا جا چکا ہے، اس بحرانی حالت سے نکالنے کے لیے فرقہ وارانہ حالات پیدا کر کے، مندر مسجد کے تنازعہ میں سناتن سنسکرتی و روایات کا تحفظ سمجھنا ایک قطعی غیر دانشمندانہ اور بھارت کی اصل فکر و روایت، کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کے بھی خلاف ہے، شیو، رام، کرشن کے وسیع تر تصورات میں مساجد، طریق عبادات اور تاریخ وطن کے نمایاں ابواب سے اسلام کو نکالنے کا سرے سے کوئی جگہ نہیں ہے ،شیو، رام، کرشن، ویدک روایات و افکار سے زیادہ پرانک روایات و افکار سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا گیا ہے، ایسی صورت حال میں روایتی لحاظ سے شیو نگری  سمجھے جانے والے کاشی میں ،شیو کے نام پر ایک قدیم تاریخی عبادت گاہ کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی مہم، بھارت کی اصل روایت سے ہم آہنگ نہیں ہے باقی دیگر طرح کی سرگرمیاں، کہیں نہ کہیں منفی جارحانہ سیاست اور فرقہ پرستی کے زیر اثر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس سلسلے میں یوپی کے وزیر اعلی کا بیان ان کے اعلی منصب اور بابا گورکھ ناتھ کے تصور و روایت دونوں سے ان مل و منافی ہے، اے ایس آئی کی رپورٹ ،عدالت میں کس شکل میں پیش کی جائے گی، اس کے متعلق فی الحال حتمی طور سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم یہ یقینی طور سے کہا جا سکتا ہے کہ رپورٹ کی کچھ مبہم، غیر مبہم باتوں کو تحفظ عبادت گاہ قانون کے 15/اگست 1947 کی پوزیشن کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور سروے کا عمل مبینہ وشو ناتھ مندر کے حق میں ثبوت کی تلاش سے جڑا ہوا ہے، معاملے کا یہ پہلو سامنے آ کر رہے گا، قدیم آبادی میں بعد کی کسی عمارت یا عبادت گاہ کے متعلق کھدائی کے عمل سے ثبوت کی تلاش کوئی راست رویہ اور دیانت پر مبنی روش نہیں ہے، مظاہر پرست سماج کی آبادی میں مکانوں کے بھی اندر بہت سی علامتیں مل جاتی ہیں، ان کی بنیاد پر ملکیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بہت سے علاقوں میں اینٹوں پر رام، شری رام، سواستک کے نشانات کندہ کیے جاتے ہیں  ان کو عمارتوں کی تعمیر میں مسلم، غیر مسلم سبھی استعمال کرتے ہیں اس کی بنیاد پر ظاہر ہے کہ سو، دوسو سال کے بعد مسلم گھروں پر ہندو گھر ہونے کا دعوٰی صحیح نہیں ہو سکتا ہے، بہت سی عمارتوں میں منہدم شدہ عمارتوں کے ملبے کا بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسے تاریخی غلطیاں قرار دے کر سدھار کرنے اور ثبوت کے طور پر پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، جامع مسجد بنارس گیان واپی کے کئی سارے معاملے اور پہلو ہیں جن پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے، عدالت نے یہ اچھا کیا کہ سروے کی باتوں کو میڈیا خصوصا الیکٹرانک میڈیا میں زیر بحث لانے پر روک لگا دی ہے، وہاں جس طرح من گھڑت کہانیوں اور مفروضات کو یک طرفہ طور سے تاریخی ثبوت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس کے پیش نظر یہ ضروری بھی تھا، ملک میں جس طرح کا ماحول ہے اس کے اثرات تمام شعبہ ہائے حیات پر نظر آتے ہیں، ایسی حالت میں پیدا کردہ صورت حال کا سنجیدگی اور سمجھ داری سے موثر طریقے سے سامنا کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے، اس سلسلے میں بابری مسجد/رام جنم بھومی مندر کے متعلق عدالتی مباحث کو مرتب شکل میں شائع کرنا بھی مفید ہوگا، اس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمیعتہ علماء ہند کو توجہ دینا چاہیے، مشترکہ طور سے بھی دونوں کی طرف سے عدالتی مباحث کی تفصیلات کو کتابی شکل میں لایا جا سکتا ہے، حالات اشارے کر رہے ہیں کہ جامع مسجد بنارس گیان واپی سے متعلق عدالتی کارروائیاں بھی طویل ہوں گی، ان کا سامنا بھی صبر و تحمل اور سمجھ داری کے ساتھ کرنا ہوگا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: