معصوم مرادآبادی
مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ کے دوبارہ کھلنے سے اردو حلقوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یوں تومکتبہ جامعہ کی دہلی کے علاوہ ممبئی اورعلی گڑھ میں بھی شاخیں موجود ہیں، لیکن اپنی معنویت اور محل وقوع کے اعتبار سے دہلی کی اردو بازار شاخ سب سے اہم ہے۔ اسی لیے اس کے بند ہونے کا تمام ہی محبان اردو پر گہرا اثر تھا۔ہوا یوں کہ گزشتہ31 اگست کو اچانک یہاں کے انچارج علی خسرو زیدی کورخصت کرکے اردو بازارشاخ میں تالا ڈال دیا گیا، جس سے محبان اردو کو سخت تکلیف پہنچی۔ اس شاخ کے بند ہونے کے بعد راقم الحروف نے ایک پوسٹ لکھی اور اپنے درد میں دوسروں کو بھی شریک کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ نہ صرف اردو اخبارات نے اس طرف توجہ دی بلکہ انگریزی کے سب سے بڑے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے بھی اس پر خبر شائع کی۔ اتنا ہی نہیں ’دی وائر‘ کی انگریزی اور ہندی ویب ساٹٹ نے بھی اس مسئلہ کی جڑتک پہنچنے کی کوشش کی۔اردو اخبارات میں روزنامہ ’انقلاب(نارتھ)‘اور ’ممبئی اردو نیوز‘نے اس مسئلہ میں غیرمعمولی دلچسپی لی اور یہ معاملہ پورے ملک میں پھیل گیا۔مجھے خوشی ہے کہ میری چھوٹی سی پوسٹ کا اتنا بڑا اثر قبول کیا گیا۔لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔دراصل مکتبہ جامعہ مجموعی اعتبار سے پچھلے کئی برسوں سے بستر مرگ پر ہے۔یہ دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماتحت ہے اور جامعہ ہی اس کے 92فیصد شیئرز کا مالک ہے، لیکن جامعہ کی موجودہ انتظامیہ کا رویہ خود اپنے ہی مکتبہ کے ساتھ ناقابل فہم ہے۔ موجودہ وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نے جب سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، مکتبہ کی تمام ہی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔ پچھلے پانچ سال سے نہ تو مکتبہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ مکتبہ کے ملازمین کو پچھلے 22 مہینوں سے تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں اور وہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔پچھلے وائس چانسلر نجیب جنگ کے زمانے میں مکتبہ کی حالت کافی بہتر تھی اور ان ہی کے دور میں مکتبہ کی سیکڑوں قیمتی کتابیں قومی اردو کونسل کے اشتراک سے شائع ہوئی تھیں۔اس وقت مکتبہ کے منیجنگ ڈائریکٹر پروفیسر خالد محمود تھے اوراس میں ان کی کوششوں کو بھی کافی دخل تھا، لیکن نجیب جنگ کے بعد نہ تو مکتبہ میں کوئی نئی کتاب شائع ہوئی اور نہ ہی ’کتاب نما‘ اور’پیام تعلیم‘جیسے قیمتی جریدوں کی اشاعت عمل میں آسکی۔ اگر موجودہ وائس چانسلر چاہتیں تو جامعہ کے امتحانات کے پرچے، اسٹیشنری اور فاصلاتی تعلیم کاکام مکتبہ کو دے کر اس کی مالی حالت سدھار سکتی تھیں۔ لیکن یہ سب کام بھی باہر سے کروائے جارہے ہیں اور وائس چانسلر مکتبہ سے قطعی لاتعلق ہیں۔
مکتبہ جامعہ 1922 میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے قایم کیا تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے قیمتی کتابیں نہایت ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلبا ء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔’معیاری سیریز‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے استفادہ کرتے ہیں۔
جو لوگ کتابوں کی دنیا کے شیدائی ہیں، انھیں مکتبہ جامعہ کے حوالے سے ایک نام ضرور یاد ہوگا، جس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اس ادارے کو بام عروج تک پہنچایا۔یہ شخصیت تھی مرحوم شاہد علی خاں کی جو کسی زمانے میں مکتبہ جامعہ کے منیجر ہوا کرتا تھے اور مکتبہ کے دفتر میں واقع ان کی چھوٹی سی میز پر ہر مشکل کو آسان کرنے کا نسخہ موجود تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مکتبہ جامعہ کا دفتر تکونہ پارک کے نزدیک اسی گل مہر روڈ کی شاہراہ پر ہوا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں ڈاکٹرذاکر حسین،ڈاکٹر عابدحسین، خواجہ غلام السیدین اور جامعہ کے دیگر اکابرین کی قیام گاہیں تھیں۔مکتبہ جامعہ کی عمارت کی تعمیر کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جس زمانے میں ٹیچرزٹریننگ کالج کی عمارت بن رہی تھی تو مکتبہ جامعہ کے لئے بھی ایک مستقل عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن اس وقت جامعہ کے پاس فنڈ کی قلت تھی۔ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے معمار رائے پرتھوی راج نے تجویز پیش کی کہ اگر جامعہ تیار ہوتو وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کی عمارت کی تعمیر سے بچے ہوئے سامان سے مکتبہ جامعہ کی عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف جامعہ کو مزدوری کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اس طرح مکتبہ جامعہ کو ایک مستقل عمارت مل گئی۔
مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں ہوا۔ یعنی مکتبہ کی اس عمارت پر بلڈوزر چلاکر اسے جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑیوں میں منتقل کردیا گیا اور اس کی جگہ ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیا۔ اسی دور میں مکتبہ جامعہ سے شاہدعلی خاں کی علیحدگی کا تکلیف دہ کام بھی انجام پایا۔ان کے جانے کے بعدمکتبہ جامعہ کے دونوں جریدوں ’کتاب نما‘اور ’پیام تعلیم‘کی بھی حالت دگر گوں ہوگئی۔ شاہد علی خاں کے بعد اس تاریخ ساز اشاعتی ادارے کی باگ ڈور جن لوگو ں کو سونپی گئی،وہ اس کے اعزازی ذمہ دار تھے اور اشاعتی صنعت سے ان کا دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔بہرحال مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھاگیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج وزوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑرہا ہے۔ لیکن وہ ادارے ضرور ترقی کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ایک ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔مکتبہ جامعہ کی اردو بازارشاخ اور دیگر شاخوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے سپرد کی جائے جو اشاعتی صنعت کا تجربہ رکھتا ہو۔ مکتبہ جامعہ کی بیکار پڑی ہوئی جائیدادوں کا بھی بہتر بندوبست ہونا چاہئے۔ ان میں پٹودی ہاؤس میں برسوں سے بند پڑا ’لبرٹی آرٹ پریس‘ بھی شامل ہے۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ کی صحت وتندرستی پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخی ادارہ دم توڑدے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان علم ودانش کو پہنچے گا۔