۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

اخبارات و رسائل کی دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

ٹیکنالوجی ہماری روزمرہ  زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اسمارٹ فونز سے سوشل میڈیا تک، ٹیکنالوجی نے ہمارے رابطے اور معلومات تک رسائی کے طریقے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے، اس نے ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی متاثر کیا ہے۔ٹیکنالوجی سے مراد وہ اوزار، طریقے اور نظام ہیں جو مسائل کو حل کرنے اور انسانی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ٹیکنالوجی نے ہماری بہت سی مشکلات کو آسانی میں تبدیل کر دیا ہے۔ماضی میں جو مشکلات ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے درپیش تھی، وہ اب کافی حد تک حل ہوچکی ہے۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا،جہاں پہلے ہم دنیا جہان میں ہونے والے واقعات سے بے خبر رہتے تھے، آج ٹیکنالوجی کی بدولت پل پل کی خبروں سے واقف ہوتے ہیں۔ پہلے کوئی ضروری کام کے لیے دور دراز کا سفر طے کرنے کے لیے ہی کئی دن اور مہینے لگ جاتے تھے، آج ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت کم وقت میں انسان کے سیکڑوں کام نمٹ جاتے ہیں۔ لوگ مہینوں اور سالوں تک اپنوں سے بے خبر رہتے تھے، آج ٹیلی فون اور موبائل کے ذریعہ ان سے ہر پل آگاہ رہتے ہیں۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے زراعت کی پیداواراور کارکردگی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ گھر بیٹھے پیسے کمانے کے نئے اور بہترین طریقوں سے لوگ استفادہ کررہے ہیں۔ مشینوں نے گھر کے سارے کام آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ہمارا بہت سارا وقت بھی بچایا ہے۔ آج کے دور میں انسانی بقا کے لیے ٹیکنالوجی بہت ضروری ہے۔

 ٹیکنالوجی جہاں ہمارے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہورہی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اس کے لگاتار استعمال نے معاشرے میں بڑی خرابیاں پیدا کردی ہیں۔ اس کے زیادہ استعمال سے ہم جسمانی طور پر تو سماج میں ہیں، اپنوں کے ساتھ ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو اس نے ہمیں ہمارے اپنوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر سب سے جدا کردیا ہے۔ ایسے مسائل، جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جاتا تھا، آج ہر دن اخبار کی ہیڈ لائن ہوتے ہیں۔سائبر کرائم کی ایک دنیا وجود میں آچکی ہے۔دھوکہ دینے کے نت نئے طریقے ہر روز سامنے آرہے ہیں۔ایک کلک پر آپ کا بینک اکاؤنٹ خالی ہوجا تا ہے۔آپ کے راز افشاء ہوجاتے ہیں۔پہلے بے حیائی اور فحش محدود تھی، لیکن ٹیکنالوجی نے ہمارے ضمیر کو اتنا مردہ کردیا ہے اور انسان کو اتنا ڈھیٹ بنا کر رکھ دیا ہے کہ اب وہ برائی کو بھی برائی نہیں سمجھتے۔ماضی میں فلم بینی کے لیے والدین سے چھپتے چھپاتے سنیما گھر جانا پڑتا تھا اب ہر کسی ہاتھ میں ایک سنیما گھر موجود ہے،جس پر ہالی ووڈ بالی ووڈ کی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ بچے موبائل پر اس طرح کے گیم کھیلتے ہیں کہ خود کشی تک کرلیتے ہیں۔جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی حاصل ہو رہی ہے، انسان اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو رہا ہے۔ وہ اب اخلاقیات، محبت، شفقت، ادب، احترام، انسانیت، شرافت وغیرہ سب کو بھول کر صرف مشین بن کر رہ گیا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی نے جہاں مختلف میدانوں میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں اخبارات و رسائل اور کتابوں کی طباعت و اشاعت کی دنیامیں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنی بات صرف زبان سے کہتے تھے۔سینہ بسینہ قصے،کہانیاں اور تاریخ منتقل ہوتی تھی۔پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔اسے قلم کا شعور بخشا۔انسان نے کچھ اشاروں کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔کاغذ کے بجائے جانور کی کھالوں، درختوں کی چھالوں اور پتھر کی سلوں پر لکھنا شروع کیا۔اس کے بعد حروف کی شکلیں ایجاد ہوئیں اور الگ الگ خطوں کے رہنے والے انسانوں نے اپنے اظہار بیان کے لیے حروف وضع کیے،جن سے لفظ اور جملے بنے اور زبان (لغت) وجود میں آئی۔ قرآن کریم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو کتابیں دیں۔قرآن میں  سب سے قدیم کتاب صحف ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اللہ نے قرآن کو بھی کتاب ہی فرمایا ہے۔حالانکہ اس کا نزول وحی کی شکل میں زبانی ہوا۔کتاب کی شکل اسے بعد میں دی گئی۔اسی طرح دیگر انبیاء کو بھی اللہ نے وحی فرمائی اور انھوں نے اپنے زمانے میں موجود وسائل یا ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اسے محفوظ و منتقل کرنے کا کام کیا۔

نبی اکرم ﷺ پر جو پہلی نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے لطف وکرم کا بیان کرتے ہوئے اپنی اِس نعمت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ”پڑھو،تمہارا رب بڑا کریم ہے اس نے قلم کے ذریعہ تعلیم عطا فرمائی“(العلق)۔اس کا مطلب ہے کہ قلم کا استعمال اس وحی کے نازل ہونے سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔البتہ کاغذ کا استعمال نہیں تھا۔خود نبی اکرم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی اسے کاغذ کے علاوہ دیگر اشیاء پر لکھاجاتا تھا۔کہاجا تا ہے کہ 105عیسوی میں چین نے کاغذ کی ابتدائی ساخت کا فن ایجاد کرلیا تھا۔مگر اس کو باقی دنیا سے چھائے رکھا۔بعثت نبوی کے بعد جب مسلمان تاجروں نے بطور مبلغ چین کا رخ کیا تو وہ اس علم کو بغداد،دمشق،قاہرہ لے کر آئے،یہاں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم ہوئے اور انھوں نے باقی ممالک میں بھی اس علم کو پہنچایا۔800سن عیسوی کے آس پاس مسلمانوں کے ذریعہ دنیا کاغذ سے متعارف ہوئی۔ 

کاغذ کی ایجاد کے بعد لکھنے کا بیشتر عمل قلم،سیاہی اور کاغذ کے ذریعہ انجام دیا جانے لگا۔البتہ یہ دشواری اپنی جگہ پر رہی کہ ایک سے زیادہ افراد تک پیغام پہنچانے کے لیے کاتب کو ایک سے زائد بار ہی لکھنا پڑتا تھا۔اس میں وقت کافی لگ جاتا تھا۔اس عمل کو ”نقل“ کہاجاتا ہے۔ہر تحریر شدہ چیز کی نقلیں کی جاتیں،پھر اصل سے ملایا جاتا،اس پر مہر تصدیق ثبت ہوتی کہ”اصل نقل کے مطابق ہے“۔تب کہیں جاکر اس کی ترسیل عمل میں لائی جاتی۔

یہ اللہ کا احسان اور اللہ کا نظام ہے کہ اس نے انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق وہ علم عطا فرمایا جس کے ذریعہ انسان نے اپنی ضرورت کی چیزیں ایجاد کیں۔آج کے دور میں اگر نقل و حمل کی موجودہ ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو ایک مقام سے دوسرے مقامات تک اشیاء خوردنی و ادویات بھیجنے میں اس قدر تاخیر ہوتی کہ انسانی زندگی کی بقا مشکل ہوجاتی۔لیکن اللہ نے ان ایجادات کا یہ علم انھیں لوگوں کو دیا ہے جو اس کے جویا رہے،جنھوں نے اس کے لیے اپنی عقل و دماغ کی صلاحیتوں کا لگایا اور کھپایا۔جب مسلمانوں نے اس راہ میں جدو جہد کی تو انھوں نے دنیا کو حیرت انگیز ایجادات سے نوازا،وہ دنیا کے امام کہلائے۔لیکن جب انھوں نے  فکر و تحقیق کے میدان میں جمود اختیار کیا تو اللہ نے یہی کام اپنے دوسرے بندوں سے لینا شروع کردیا۔

اسی قانون کے پیش نظرجب انسانوں کو نقلیں کرنے میں دشواری پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے چھاپہ خانہ کی ایجاد کا علم عطا فرمایا۔1439 میں جرمنی کے گوٹنبرگ نے لکڑی کا لیٹر پریس پرنٹنگ پریس تیار کیا۔ اگرچہ اس عمودی سرپل ہینڈ پینل پرنٹنگ پریس کی ساخت سادہ ہے لیکن اسے 300 سال تک استعمال کیا جاتا رہا۔ 1812 میں جرمن کوینگ کو پہلا تائیوان یوآن فلیٹ لیٹرپریس پرنٹنگ پریس بتایاجاتا ہے۔ امریکہ میں ’ہوئے‘نے 1847 میں روٹری پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔ 1900 میں چھ رنگوں کا روٹری پرنٹنگ پریس بنایاگیا۔1904 میں امریکہ میں روبیل نے آفسیٹ پرنٹنگ پریس ایجاد کیا۔

کسی زمانے میں لکڑی کے گٹکے پر الٹے حروف کندہ کیے جاتے تھے،جو طباعت کے وقت سیدھا چھاپتے تھے،پھر مسطر کی ایجاد ہوئی اور قابل طباعت مواداس پر لکھاجانے لگا۔جس سے پلیٹ بنتی اور لیتھو پریس سے چھپائی ہوتی۔آفسیٹ کی ایجاد کے بعد فلموں کے ذریعہ طباعت کا عمل شروع ہوا۔کمپیوٹر کی ایجاد نے کتابت کے مرحلہ کو آسان کردیا اور مواد کو کمپوز کیاجانے لگا۔اس کے بعد پرنٹنگ مشینوں میں مزید ارتقاء ہوا اور اِس وقت ایسی خود کار پرننٹگ مشینیں موجود ہیں جو کمپوز شدہ مواد کو ایک کلک پر مختلف رنگوں میں بیک وقت پرنٹ کرتی ہیں،انھیں فولڈ کرتی ہیں،ان کی بائنڈنگ کرتی ہیں اور کتاب آپ کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔جس کتاب کو چھاپنے کے لیے مہینوں درکار ہوتے تھے آج چند گھنٹوں میں چھپ کر منظر عام پر آجاتی ہے۔پرنٹنگ مشینوں کے اس ارتقاء نے اخبارات و رسائل کی طباعت کو ناقابل یقین حد تک آسان بنادیا ہے۔

اخبارات و رسائل کی دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف پرنٹنگ کی حد تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کی ترسیل میں بھی یک بعد دیگرے کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ایک زمانہ تھا جب ڈاک اور ریل کے ذریعہ اخبارات و رسائل ایک مقام سے دوسرے مقامات پر بھیجے جاتے تھے۔اسی لیے روزنامہ کے بجائے ہفتہ وارا اخبارات زیادہ تھے۔روزنامہ بڑے شہروں تک محدود تھے۔اس کے بعد ٹیکسیوں کی بھی مدد لی جانے لگی اور اخبارات کی رسائی دیہات و قصبات تک آسان ہوگئی۔مگر دشواری یہ تھی کہ اخبار صرف وہیں تک پہنچ پاتا تھا جہاں تک کا سفر چار سے چھ گھنٹوں پر مشتمل تھا۔لمبے سفر کے لیے ٹرین ہی ذریعہ تھی،موجودہ زمانے میں انٹر نیٹ کی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے اخبارات تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔اب آپ کو جو اخبار پڑھنا ہے اگر وہ انٹر نیٹ پر دستیاب ہے تو آپ اپنی اسکرین پر پڑھ سکتے ہیں۔بیشتر اخبارات و رسائل کی اپنی ویب سائٹ بھی ہیں۔گوگل سرچ انجن کے ذریعہ آپ اخبار یا رسالہ کا نام ٹائپ کرکے اپنے مطلوبہ رسالہ یا اخبار تک پہنچ سکتے ہیں۔کچھ اخبارات مفت دستیاب ہیں اور بعض اخبارات کو سبسکرائب کرنا ہوتا ہے۔یہ سبسکربشن بھی آن لائن ہوجاتا ہے۔ورنہ ماضی میں تو منی آرڈر یا بینک ہی واحد ذریعہ تھا۔رسائل کا خریدار بنانے کے لیے اس کے نمائندوں کو سفر کرنا پڑتا تھا۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث قاری کو آسانی میسر آئی لیکن بہت سے اخبارات و رسائل کو مالی خسارہ ہوا۔اس لیے کہ نیٹ پر اخبارات دستیاب ہونے کے سبب قاری کسی ایک اخبار کو خریدنے کی پابندی سے آزاد ہوگیا۔ اب بیشتر قاری مفت اخبارات آن لائن پڑھ لیتے ہیں۔دوسری طرف ویب میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخبارات کی طرف سے رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔مختلف زبانوں کے ہزاروں نیوز چینل ہر گھنٹہ کی خبریں اپنے سامعین و ناظرین تک پہنچاتے رہتے ہیں۔اب آپ اسے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ شمار کرتے ہیں یا نقصان، یہ فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: