از: عبید انور
مَضَتِ الدُهورُ وَما أَتَينَ بِمِثلِهِ
وَلَقَد أَتى فَعَجَزنَ عَن نُظَرائِهِ
امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ آية من آيات الله تھے. جملہ علومِ نقلیہ و عقلیہ میں امامت کے درجہ پر فائز تھے. متقدمین میں بھی ہر حیثیت سے ان جیسی جامعِ علوم، متبحر اور کامل الفنون ہستی شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ کی علمی عبقریت کو ان الفاظ میں خراج پیش کیا ہے کہ "میرے نزدیک حقانیتِ اسلام کی دلیلوں میں ایک دلیل حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمہ اللہ کا امت مسلمہ میں وجود ہے. اگر دین اسلام میں کسی قسم کی بھی کجی یا خرابی ہوتی تو آپ دین اسلام سے کنارہ کش ہو جاتے”۔
علامہ کے معاصر، عالمِ جلیل حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے علامہ کے انتقال پر تعزیتی جلسہ میں فرمایا:
” ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﺼﺮ ﻭ ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍٓﺩﻣﯽ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽؒ، ﺷﯿﺦ ﺗﻘﯽ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺑﻦ ﺩﻗﯿﻖ ﺍﻟﻌﯿﺪؒ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ؒ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ کہہ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮں کہ ﺻﺮﻑ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﻭ ﺗﺎٔﺧﺮ ﮨﮯ، ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼؒ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭩﯽ ﯾﺎ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻗﺐ ﻭ ﻣﺤﺎﻣﺪ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﮔﺮﺍﮞ ﻗﺪﺭ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﮨﻮﺗﮯ، ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ، ﺷﯿﺦ ﺗﻘﯽ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﺍٓﺝ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ "۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علامہ کی وسعتِ علمی کے بارے میں فرماتے ہیں:
” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ، ﺣﺠﺎﺯ، ﻋﺮﺍﻕ، ﻣﺼﺮ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻓﻀﻼﺀ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺗﯿﮟ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺠﺮ ﻋﻠﻤﯽ، ﻭﺳﻌﺖ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ، ﺟﺎﻣﻌﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻮﻡ ﻧﻘﻠﯿﮧ ﻭ ﻋﻘﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ”. نیز فرمایا کہ "میں نے ایسے علماء دیکھے اور ان سے ملاقات کی جو صحیحین اور صحاح ستہ کے حافظ ہیں لیکن جسے پورا کا پورا کتب خانہ ہی یاد ہو ایسا علامہ کشمیری کے علاوہ کوئی نہیں دیکھا”۔
علامہ زاہد الکوثری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"احادیث سے مسائل کے استنباط میں شیخ ابن ہمام صاحبِ فتح القدیر کے بعد ایسا محدث و عالم امت میں نہیں گزرا”.
علامہ کشمیری کے مطالعہ کی ہمہ گیری اور علوِ شان کا انداز ان کے شاگرد رشید مولانا مناظر احسن گیلانی کے اس اقتباس سے لگائیے. لکھتے ہیں:
"عربیت سے تعلق رکھنے والے ان علوم سے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو غیر معمولی دلچسپی تھی. ان علوم کی اعلیٰ بنیادی کتابوں کا غیر معمولی فکر و نظر کے ساتھ انہوں نے مطالعہ کیا تھا. میرا خیال ہے کہ کافیہ اور شرح جامی کے ساتھ مدارس کے عام مولویوں کا جو تعلق ہوتا ہے یہی تعلق شاہ صاحب کو سیبویہ کی الکتاب سے تھا. ابن عصفور جس کے نوٹ اور کچھ حواشی سیبویہ کی کتاب پر ہیں، اس نام کو پہلی دفعہ خاکسار نے شاہ صاحب ہی سے سنا تھا. اور کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بعد پھر کسی مولوی کی زبان سے یہ لفظ سننے میں نہیں آیا…. معانی و بیان، بدیع کے مسائل میں الجرجانی کی دلائل الاعجاز، أسرار البلاغۃ یا زمخشری کی مفصل کے سوا تفتازانی وغیرہ مصنفوں کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ صاحب کو فقیر نے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کی فلسفیانہ عظمت سے کون ناواقف ہے؟ لیکن کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال علامہ کشمیری کی علمیت بطور خاص فلسفہ میں ان کی مہارت سے بہت متاثر تھے. طویل خطوط لکھ کر ان سے استفادہ کرتے تھے. علامہ نے اپنے رسائل ضرب الخاتم علی حدوث العالم اور مرقاۃ الطارم لحدوث العالم میں الاہیات و طبعیات پر گراں قدر تحقیقات پیش کی ہیں اور فلسفہ جدید وہ قدیم کی رو سے جو گل افشانی کی ہے اسے دیکھ کر ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ مولانا کشمیری نے ان رسائل میں جو مباحث پیش کیے ہیں آج یورپ کا بڑے سے بڑا فلسفی اس سے زیادہ کچھ لکھنے پر قادر نہیں ہے”. ڈاکٹر اقبال نے اپنے مشہور زمانہ لیکچرز The Reconstruction of Religious thoughts in Islam کی تیاری میں علامہ سے کافی مدد لی۔ وقت (زمانہ) کی حقیقت و ماہیت کی تفہیم کے سلسلے میں ڈاکٹر اقبال نے علامہ سے استفادہ کیا، جس میں علامہ کشمیری نے عراقی کا مخطوطہ انہیں فراہم کرایا، اس کی تفصیل خود علامہ اقبال نے 1928ء کے اورینٹل کانفرس کے شعبہ عربی و فارسی کے اجلاس کے صدارتی خطبہ میں کیا۔
علامہ کے رسالہ ضرب الخاتم کو پڑھ کر ترکی کے سابق شیخ الاسلام مصطفی صبری نے کہا تھا: ” کہ میں نہیں جانتا تھا کہ فلسفہ و کلام کے دقائق کا اس انداز سے سمجھنے والا اب بھی کوئی دنیا میں زندہ ہے”. نیز فرمایا:” إني أفضل هذه الوريقات على جميع المادة الذاخرة في هذا الموضوع و إني أفضلها على هذا الأسفار الأربعة للصدر الشيرازي”. یعنی جتنا کچھ آج تک اس موضوع پر لکھا جا چکا ہے اس رسالے کو اس سب پر ترجیح دیتا ہوں اور صدر شیرازی کی اسفار اربعہ پر بھی اسے ترجیح دیتا ہوں۔
علامہ کشمیری کے علوم کے قدر دان اور ان کے مقام علمی سے واقف شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف "تراجم ستة من فقهاء العالم الإسلامي في القرن الرابع عشر وآثارهم الفقهية” میں علامہ کشمیری کی فقیہانہ شان کو بڑے عمدہ اسلوب میں بیان کیا ہے اور ان کا تذکرہ چودھویں صدی میں عالم اسلام کے چھ عظیم الشان فقہاء کے طور پر کیا ہے۔
کس قدر حیرت، حسرت، افسوس کا مقام ہے کہ علامہ کشمیری جیسی جامع کمالات اور نادرِ روزگار شخصیت ہمارے علمی حلقوں میں آج بھی غیر معروف ہے. ان کی علمی شان سے پڑھا لکھا طبقہ ناواقف ہے، خاص دیوبندی مدارس بھی غافل ہیں. جو تھوڑا بہت تعارف ہے وہ صرف یہ کہ وہ ایک بڑے محدث تھے! اس محدود، ادھورے تعارف میں بھی فنِ حدیث میں ان کی جلالت شان سے درست واقفیت نہیں ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تاریخ اسلام کی اس جلیل القدر علمی شخصیت کے علوم و افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے باقاعدہ دارالعلوم / دیوبندی مدارس / علمی ادارے تحقیق و مطالعہ اور تالیف کا مستقل شعبہ قائم کرتے اور اپنے اس عظیم سپوت کے علم و کمال سے دنیا کو واقف کراتے لیکن ذاتی مفادات، آپسی اختلافات اور تعصب پر مبنی ارذل خیالات نے ہمیں علم اور اہلِ علم کی قدر دانی سے محروم کر دیا ہے. اس رویہ نے علم کی برکتیں ہم سے چھین لی ہیں. بلند و بالا عمارتوں، عالیشان بلڈنگوں کے نیچے ہمارا اصل سرمایہ دب کر خاک ہو گیا ہے. ہم دوسروں کو علم و تحقیق کی روشنی کیا عطا کرتے اپنے آفتاب و ماہتاب کو گہن لگا کر ہم خود تاریکی میں دھکیل چکے ہیں!۔