محمد قمر الزماں ندوی استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپ گڑھ
یہ ماہ ربیع الاول ہے،اس مہینہ کی بارہ تاریخ کی ایک خاص اہمیت اور مقام ہے ، اس مہینے کی نسبت بہت اونچی ہے،اس نسبت ہی سے اس مہینے کی عظمت و رفعت اور فضیلت و اہمیت بڑھ جاتی ہے، اگر چہ یہ مہینہ اشہر حرم یعنی حرمت کے جو چار مہینے ہیں اس میں سے نہیں ہے ۔ وہ نسبت یہ ہے کہ اسی مہینے کی بارہ تاریخ کو آقائے مدنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیاسی زمین کی سیرابی کے لئے، سسکتی، بلکتی،دم توڑتی اور مرجھائی انسانیت کو تازہ دم کرنے اور حیات آفریں بخشنے کے لیے،اس دنیا میں تشریف لائے ۔ یہ مہینہ، پوری دنیائے انسانیت کے لئے موسم ربیع اور فصل بہار ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت پر خزاں، پژمردگی اور بے حسی چھائی ہوئی تھی ہر طرف ظلم و ستم جور و جفااور زیادتیاں عام تھیں ، کون سی برائی تھی جس کا انسان رسیا اور عادی نہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانیت کا خون خود انسان پی رہا تھا حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد نبوت سے خالی عرصئہ دراز کی وجہ سے شیطان کو موقع ملا مختلف برائیوں اور بے حیائیوں کی راہیں ہموار کیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا برائی میں ڈوب گئ اور خاص طور پر جزیرہ عرب برائیوں اور بے حیائیوں کا اڈہ اور مرکز بن گیا ۔ حرص و حسد ہوس و نفس پرستی جھوٹ غیبت دھوکہ دہی ظلم و ستم لوٹ مار قتل و غارت گری شراب نوشی بے حیائی، دختر کشی لڑائی جھگڑے جوا قمار اور کوئی بھی ایسی برائی نہ تھی جو عرب میں نہ پائی جاتی ہو گویا وہ درندوں سے بدتر ہو چکے تھے۔ شرک و بت پرستی کی آخری حد پر یہ لوگ پہنچ گئے تھے، وہ خانئہ کعبہ جس کو حضرت ابراہیم و اسمعیٰل علیھیما الصلوۃ و التسلیم نے ایک خدا کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا اس کے صحن میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے، ہر قبیلہ کا اپنا اک بت اور معبود تھا ۔ جہالت و نادانی کی یہ حالت تھی کہ ہر طاقت ور چیز کو وہ لوگ خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ کچھ قبیلے کے لوگ اپنی اولاد کو خرچ کے ڈر سے قتل کردیتے تھے، تو بعض قبیلے نوزائیدہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے ۔ بیت اللہ جس کا احترام زمانئہ جاہلیت میں بھی سارے لوگ کیا کرتے تھے ، اس کی مرکزیت کے باعث دوسرے خطے اور ممالک کے لوگ بیت اللہ اور حرم محترم کی زیارت کرنے آتے تھے، یہاں کی بت پرستی اور دوسری تمام برائیوں کا ذھن میں تصور نقش ہوجاتا تھا اور اس کی تقلید کرتے اور اپنے ملکوں اور خطوں میں اس کو رواج دیتے اس طرح وہ برائیاں دوسرے حصوں میں پھیل گئیں، غرض کم و بیش بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پوری دنیا جہالت اور مختلف برائیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ڈوب گئ تھی کہ محسوس ہوتا تھا اب روشنی کی قندیل اور شمع یہاں روشن نہیں ہوگی، اور نیکی اور صلاح و تقوی قصئہ پارنیہ بن جائے گا تاریخ انسانیت کے کسی دور میں اس طرح کی ناامیدی نہ ہو ۔
نگاہ قدرت ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی اسے اپنے بندوں پر بہت ترس آیا اور کیوں ترس نہ آئے اسے اپنے بندوں سے ہزاروں ماؤں سے بھی زیادہ پیار اور ممتا ہے،انسان کو اسی طرح راہ حیوانیت پر چھوڑ دینا ان کے شان رحیمی کے خلاف تھا ، اس لئے یکایک رحمت الہی میں جنبش ہوئی، اور نبی رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی ہدایت کے لئے اور انسانوں کو انسان بنانے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ مشہور قول ہے کہ آپ کی ولادت ۲۳/ اپریل ۵۷۱ عیسوی اور ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی ۔ آپ عام ماحول سے ہٹ کر پلے بڑھے اور آپ کی تربیت الہی اور ربانی تربیت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ادبنی ربی فاحسن تأدیبی، میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور کیا ہی خوب ادب سکھایا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر عزیز کی چالیس بہارین مکمل ہوگئیں،،تو اللہ تعالی نے غار حرا میں آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت و رسالت کے اس بار گراں کو سنبھالا ۔ انسانوں کو حقیقی انسان بنانے کی ذمہ داری آپ نے قبول کی ۔ امید و بیم کے ساتھ انسانی آبادی کی طرف لوٹے ، وفا دار بیوی نے ہر طرح ساتھ دیا ابتدا میں بھی کچھ فدا کار اور جانثار ساتھ ہوئے اور پھر اصلاح و تربیت اور ایمانی انقلاب کا ایسا سفر شروع ہوا کہ راہ حق میں ہزار خوف ناک رکاوٹیں پیدا ہوئیں، دعوت و تبلیغ کی مبارک راہوں کو روکنے کے لئے شیطانوں نے وسیع خندق حائل کئے، لیکن پھر اس ایمانی اور نورانی قافلے کو روکنے کی کسی میں ہمت اور طاقت نہ ہو سکی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ اور محنت شاقہ اور شب و روز کی جد و جہد کے بعد عرب کے وہ بدو اور ناہنجار راہ یاب ہوئے ، بلکہ رشد و ہدایت کے آفتاب و ماہتاب بن گئے اور ایسے اصحاب ایمان و یقین بن گئے کہ جن کو دیکھ کر قیامت تک آنے والی نسلیں ضلالت و گمراہی سے نجات پاسکتی ہیں اور ہدایت کے دروازے کو اپنے لئے وا کرسکتی ہیں ۔
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
ہم یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ پورے یقین و ایمان کے ساتھ کہنا چاہیے کہ اس خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات پر جس ذات کے احسانات سب سے زیادہ ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکتی انسانیت کو راہ راست دکھایا، اور آپ ہی کے ذریعہ دنیا کو اللہ کی صحیح معرفت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شب روز کی محنت سے انسانوں کی بستی آباد ہوئی انسانیت کو معراج حاصل ہوئی، اور ہر طرح کے فضائل سے اسے آشنائی نصیب ہوئی ۔ آپ کی تعلیمات نے ہر طبقہ کو فائدہ پہنچایا ۔عقیدئہ توحید کی نعمت سے محروم لوگوں کو، آپ نے اس نعمت سے سرفراز کیا ۔آپ کی دعوتِ توحید سے لوگوں کے دلوں سے غیر اللہ کا خوف دور ہوا ،اور نئ قوت، نیا حوصلہ، نئی شجاعت اور نئ وحدت پیدا ہوئی،اور اسی اللہ کو نافع اور ضار سمجھا جانے لگا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو وحدت انسانی کا تصور دیا، ورنہ پوری دنیا ٹکریوں میں بٹی ہوئی تھی اور فرسودہ خیالات کی بنا پر چھوٹی چھوٹی ذات و طبقات اور قبیلوں میں وہ بٹے ہوئے تھے ۔ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کواحترام انسانیت کا سبق اور پاٹ پڑھایا ورنہ اس سے پہلے انسانیت کا وجود بالکل بے قیمت اور بے وزن ہوکر رہ گیا تھا ، مانوتا،مروت،شرافت اور اخلاقی قدریں ناپید تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدؤوں کو تہذیب و تمدن اور اسلامی اور انسانی ثقافت و تمدن سے آشنا کرایا، اس سے پہلے وہ تہذیب و تمدن، ثقافت و مدنی اور شرافت و شائستگی سے نابلد تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگ اپنے مقصد زندگی سے ناآشنا تھے،،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انسانوں کو مقصد زندگی سے واقف کرایا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ احسانات، جن سے بنی نوع انسان کو ( لوگوں کو) صحیح اور درست رہنمائی ملی اور جس سے ان کی زندگی میں ایمانی اور نورانی انقلاب برپا ہوا ان کو اختصار سے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں :
"صاف اور واضح عقیدئہ توحید، انسانی وحدت و مساوات کا تصور،انسانیت کے شرف اور انسان کی عزت و سربلندی کا اعلان، عورتوں کی حیثیت عرفی کی بحالی اور اس کے حقوق کی بازیابی، ناامیدی اور بدفالی کی تردید اور نفسیات انسانی میں حوصلہ مندی اور اعتماد و افتخار کی آفرینش، دین و دنیا کا اجتماع اور حریف و برسرجنگ انسانی طبقات کی وحدت، دین و علم کے درمیان مقدس دائمی رشتہ کا قیام و استحکام اور ایک کی قسمت کو دوسرے کی قسمت سے وابستہ کر دینا،علم کی تکریم و تعظیم اور اسے بامقصد مفید اور خدا رسی کا ذریعہ بنانے کی سعی محمود، عقل و شعور سے دینی معاملات میں کام لینے ،فائدہ اٹھانے اور آفاق و انفس میں غور و فکر کی ترغیب، امت اسلامیہ کو دنیا کی نگرانی و رہنمائی، انفرادی و اجتماعی اخلاق و کردار اور خیالات و نظریات کے احتسابات ،دنیا میں انصاف کے قیام اور شہادت حق کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ کرنا عالمگیر اعتقادی و تہذیبی وحدت کا قیام ” (مستفاد نبی رحمت ص ۶۴۴)
یہ خاتم الانبیاء کے امت پر چند احسانات ہیں جن کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ،ورنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو شمار کرنے کے لئے ایک دفتر چاہیے ۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ہے ۔
آج پھر دنیا جاہلیت قدیمہ کی طرف لوٹ رہی ہے لیکن نئے رنگ و روپ اور نئے آہنگ کے ساتھ ۔ پھر جاہلیت کی روایات کی طرف رواں دواں ہے جس سے پیارے آقا صادق و مصدوق نے امت کو نکالا تھا ۔آج ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو زندہ کریں ۔ آپ کے احساسات سے دنیا کو روشناس اور واقف کرائیں ۔ ان پر عمل کریں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و دعوت کا احیا کریں ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے صلوۃ و سلام اور درود کا اہتمام کریں ۔ یہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین قدردانی ہوگی اور ماہ ربیع الاول کے پیغام و پیام کو ماننا سمجھنا اور تسلیم کرنا شمار ہوگا ۔
اک نام مصطفی ہے جو بڑھ کر گھٹا نہیں
ورنہ ہر اک عروج میں پنہاں زوال ہے