Slide
Slide
Slide

حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے امتیازات و خصوصیات

ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی،استاد: دارالعلوم دیوبند

   اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ چہاردانگ عالم کو ربِ دوجہاں سادات کے فیض سے مستفیض کرنا چاہتے ہیں ، ان کے اندر پائی جانے والی پاکیزگی، سلامتی، قُدسیت، روحانیت، نجابت، شرافت،زہد، تقوی اور اسلام کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پوری دنیا میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ہجرت سادات کا امتیاز بن کر جھلکتی ہے۔

نسبی امتیاز:

            حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ (ولادت: ۳؍شعبان المعظم ۱۲۶۲ھ/۲۸؍جولائی ۱۸۴۶ء وفات: ۹؍ربیع الاولا ۱۳۴۶ھ/ ۱۳؍ستمبر ۱۹۲۷ء) کا سلسلۂ نسب پینتیس واسطوں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ہوتا ہوا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔

            مولانا مونگیریؒ کا خاندان مدینۂ پاک سے کوفہ، عراق، گیلان (ایران) بخارا، ملتان ہوتا ہوا ہندوستان آیا، مغربی اترپردیش کے ایک خطہ میں فروکش ہوا جسے لوگ ’’کھتولی‘‘ کہتے ہیں جو اصل میں ’’خطۂ ولی‘‘ ہے، ولی صفت سادات وہاں تشریف لائے اور اس خطے کو اپنے نور سے منور کیا، یہ خاندان شیخ پورہ کھتولی سے محی الدین پور منتقل ہوا، یہ علاقہ ’’ساداتِ بارہہ‘‘ کا ہے، بارہہ میں سے گیارہ خاندان شیعہ تھے، صرف ایک خاندان سنی تھا۔ محی الدین پور منتقل ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سنی ہونے کی وجہ سے اس خاندان کو شیعہ بہت ستاتے تھے، گیارہ خاندانوں میں سے چند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی محنتوں سے شیعیت سے تائب ہوا؛ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کو انھیں وہاں بھی رکھنا منظور نہیں تھا؛ چنانچہ وہاں سے کان پور منتقل ہوے کافی دن وہاں رہے، پھر خطۂ بہار کو رب العالمین نے ان کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمایا، مونگیر، بھاگلپور اور ان کے اطراف میں قادیانیوں نے اپنا جال ڈالنا شروع کردیاتھا، بہت سے لوگ قادیانی ہونے لگے تو حضرت مولانا محمدعلیؒ نے مونگیر کو اپنا مستقر بنالیا اور یہیں سے معرفت کے جام بھربھر کر بانٹنے لگے۔

عرفانی امتیاز:

            مولانا مونگیری کے جدامجد حضرت شاہ ابوبکر چرم فروش کا ملفوظ ہے: ’’میری نسل کبھی ولایت سے خالی نہ رہے گی‘‘۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق رہی اورآج تک صادق ہے کہ ولایت اس خاندان میں باقی ہے، ہرپُشت میں طریقت و شریعت کے حاملین اور عرفانی شخصیات پائی جاتی ہیں ، حضرت مولانا محمدعلیؒ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، حضرت مولانا محمد منت اللہ رحمانیؒ پھر حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے سلوک وتصوف کا سلسلہ جاری رکھا ہے، یہ رب دو جہاں کی بہت بڑی عنایت اور بے انتہا فضل ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ آگے بھی چلتا رہے اور اس بابرکت خاندان میں شریعت وطریقت کا امتزاج باقی رہے:

ایں سلسلہ از طلائے ناب است

ایں خانہ تمام آفتاب است:

            حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ اسی امتیاز کی وجہ سے علم شریعت کے ساتھ علم طریقت کے حصول کی طرف بھی مائل رہے، معقولات سے زیادہ منقولات کی طرف طبیعت راغب تھی، منطق و فلسفہ کو سمجھنے کے بابوجود ان میں اپنے لیے حظ نہ پاتے تھے، طریقت کے حصول کے لیے پہلے آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کے فیض یافتہ حضرت مولانا کرامت علی قادریؒ سے تعلق قائم فرمایا، دس ماہ بعد موصوف کی وفات ہوگئی تو حضرت اقدس شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ کی خدمت میں حاضری دی، اول نظر میں شیخ نے اندر تک جھانک لیا، اپنا قرب عطا فرمایا، سرپر دستارخلافت سجائی، رومال میں دو مٹھی چنا دے کر ارشاد فرمایا: یہ دنیا دے رہا ہوں اور خلافِ معمول پان چباکر آدھاپان منھ میں دیاکہ یہ معرفت ہے چکھ لو، اللہ نے حضرت مونگیریؒ سے وہ کارہائے نمایاں لیے جس نے دوسرے خلفاء سے ان کو ممتاز کردیا، چار لاکھ کے قریب لوگ مرید ہوئے انھوں نے معصیت سے توبہ کی اور اپنے ظاہر و باطن کو درست کیا، حضرت گنج مرادآبادی کی توجہات کا مرکز ’’جامعہ رحمانی‘‘ کی شکل میں آج بھی موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس کا سلسلہ دراز فرمائیں ! تصوف میں ’’ارشاد رحمانی‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، آپ کی یہ تصنیف گنجینۂ معرفت ہے۔

            کان پور میں حضرت مولانا کا ساتھ شیخ مولابخش نے دیا، انھوں نے اصل عیسائی مآخذ کے حوالے جمع کیے اور حضرت مولانا مونگیری کو کُمک پہنچائی، مولانا نے ’’منشورِ محمدی‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا، مسلسل پانچ سالوں تک عیسائیت کی تردید کی، اسلام کی حقانیت کو واضح کیا، نوجوان علماء کی ٹیم تیار کی، ’’البرہان  لحفظ القرآن، مِرآۃُ الیقین، آئینۂ اسلام، ترانۂ حجازی، دفع التلبیسات اور پیغام محمدی‘‘ لکھی، آخری تصنیف مولانا کیرانویؒ کی اظہار الحق کی طرح سب سے عمدہ تصنیف ہے، ان تصانیف کے ذریعہ قلمی جہاد کا فریضہ ادا کیا، چار پانچ سال تک اخبار کا سلسلہ جاری رہا، اس کے بعد اخبار بند ہوگیا۔ یہ ساری خدمات اشارئہ غیبی کے تحت ہوا؛ اس لیے کہ جب فتنہ سر سے اوپر اٹھنے لگا تو ایک رات مولانا مونگیریؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرمارہے ہیں :

’’جاؤ! یہ وقت بیٹھنے کا نہیں ، جہاد کرو!‘‘

            (۲)            جس طرح ’’رد عیسائیت‘‘ میں آپ کی خدمات نمایاں ہیں ، اسی طرح ’’رد قادیانیت‘‘ میں بھی آپ نے جی جان کی بازی لگادی، جب مونگیر، بھاگلپور، ہزاری باغ اور بہار کے دیگر اضلاع میں قادیانیوں نے اپنے باطل عقیدے کی تبلیغ شروع کی اور لوگ مرتد ہونے لگے تو مولانا نے مونگیر کو اپنا مرکز بنایا اور زبان و قلم کے ذریعے دفاعِ اسلام میں جہاد کیا، چالیس تا پچاس کتابیں تصنیف فرمائیں ، ’’فیصلہ آسمانی، شہادتِ آسمانی، چشمۂ ہدایت، چیلنج محمدیہ، معیار صداقت، معیار المسح، حقیقۃ المسیح، تنزیہ ربّانی، آئینۂ کمالات اور مرزانامہ یہ سب مشہور ومعروف تصانیف ہیں ، ان سب میں اول الذکر تصنیف سب سے عمدہ اور مؤثر ثابت ہوئی، اس طرح الحمدللہ بہار سے قادیانیت کا فتنہ فرو ہوگیا۔ فجزاہ اللّٰہ أحسن الجزاء۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: