۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حدود

تحریر:مولانا الیاس نعمانی 

 دو تین روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں دو چار مسلمان جو اپنے حلیہ سے علما یا گہرے دیندار محسوس ہوتے ہیں ایک بڑی سی مورتی کے سامنے کھڑے شرکیہ اشلوک پڑھ رہے ہیں، ان کے پڑھنے کی روانی بتا رہی ہے کہ وہ پہلی مرتبہ یہ اشلوک نہیں پڑھ رہے ہیں، بلکہ انھیں سنسکرت کے یہ اشلوک یاد بھی ہیں اور ان کی زبان پر یہ رواں بھی ہیں، میں نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ واقعی علما ہیں یا نہیں؟ لیکن ظاہری عالمانہ یا دیندارانہ حلیہ کے ساتھ ایسا شرکیہ عمل آخری درجہ کا سنگین مسئلہ ہے، جس پر نکیر بھی خوب ہونی چاہیے، اور فکر بھی کی جانی چاہیے کہ آخر یہاں تک بات پنہچی کس طرح ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اس حد تک پہنچے کیسے ہیں؟۔

ہمارے محدود علم وکوتاہ تجزیہ کے مطابق در حقیقت بات یکلخت یہاں تک نہیں پنہچی ہے، یہ ایک سفر ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نام پر اور اس کی حدود وقیود کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے بعض نادانوں نے طے کیا ہے، جس کا جاننا اور جس کی غلطی کو سمجھنا از حد ضروری ہے، اس لیے چند مختصر باتیں تحریر کی جارہی ہیں۔

کوئی بیس پچیس برس کا عرصہ ہوتا ہوگا کہ ایک نامی گرامی وقابل صد احترام دینی خانوادہ کے ایک طالع آزما اتراکھنڈ میں (جو اس وقت اترانچل کے نام سے جانا جاتا تھا) گایوں کے تحفظ کے لیے یاترا نکال رہے تھے، گایوں کے تحفظ کی ایسی کاوشیں گایوں کے تئیں مشرکانہ تقدس کا ہی تو مظہر ہیں، لیکن کسی قابل ذکر شخصیت نے نکیر تو دور تحفظات کا بھی اظہار نہیں کیا، اور یاترا نکالنے والے اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی کوشش قرادیتے رہے۔

ایسے دسیوں واقعات ذکر کیے جاسکتے ہیں، اور آپ کے علم میں بھی ہیں، لیکن تحریر طویل نہ ہوجائے اس لیے بس ایک اور واقعہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے، چند برس قبل کی یہ بات تو سب کو یاد ہوگی کہ مغربی یوپی کے ایک ضلع میں کانوڑ یاتریوں کی خدمت کے لیے بعض لوگوں نے باقاعدہ کیمپ لگائے تھے، یعنی مشرکانہ سفر میں تعاون کیا تھا، سوشل میڈیا پر شور ہوا، لیکن کسی قابل ذکر ادارہ یا شخصیت نے کوئی مؤثر نکیر اس پر نہیں کی۔

اس طرح کے بہت سے واقعات نقل کیے جاسکتے ہیں اور ہم سب کے علم میں ہیں بھی، ان ہی واقعات کا تسلسل ہے جس نے ہماری ایک تعداد کے ذہن سے عقیدۂ توحید کی حساسیت اور شرک سے مطلوبہ بیزاری کو نکال دیا ہے، ان کے ذہنوں پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا بھوت ایسا سوار ہے کہ وہ اس کے لیے ہر ناکردنی کرسکتے ہیں، خواہ اس کی زد اسلام کے سب سے حساس پہلو توحید پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

اس میں کیا شک ہے کہ ملک میں ہماری بڑی ضرورت مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت کا نہ پایا جانا ہے، اس کے لیے کوششیں کرنا ہم سب کی ضرورت ہے، لیکن ہماری اس ضرورت (جس کو ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کہتے ہیں) کی کچھ حدود وقیود ہیں، اس کے کچھ اصول وضوابط ہیں جو شریعت نے ہمارے لیے متعین کردیئے ہیں، ان میں پہلا اور سب سے اہم اصول یہ ہے کہ ہم اس کی خاطر کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس کی ادنی زد عقیدۂ توحید پر پڑتی ہو، جس سے شرک کے بارے میں ہمارا یہ موقف کمزور پڑتا ہو کہ وہ اس دنیا کی سب سے بڑی ضلالت وگمراہی ہے، اور یہ کہ مومن کسی بھی صورت میں کوئی ایسا کام نہیں کرسکتا جس سے شرک کے تئیں کچھ نرم گوشہ ظاہر ہوتا ہو۔

اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک کا مقتدر گروہ ان کی "گھر واپسی” کا منصوبہ بنارہا ہے، فضا یہ بنائی جارہی ہے کہ اگر ملک میں بعافیت رہنا ہے تو شرک کرنا ہوگا، اس موقع پر ہمارا سب سے بنیادی فریضہ اپنے اس موقف کا دوٹوک اظہار ہے کہ ہم شرک کو قبول نہیں کرسکتے، ہم اس کو اس کرۂ ارضی کی بدترین گمراہی سمجھتے ہیں. ہماری اگلی نسلوں کے ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم توحید وشرک کے سلسلہ میں مکمل حساس ہوں اور نظر بھی آئیں، اور اس سلسلہ میں صحیح وبے لچک اسلامی موقف کے اظہار میں ہم کچھ تذبذب نہ کریں. ہمارا اعلان صاف اور واضح ہو: "لَاۤ أَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُونَ  وَلَاۤ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَاۤ أَعۡبُدُ وَلَاۤ أَنَا۠ عَابِدࣱ مَّا عَبَدتُّمۡ  وَلَاۤ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَاۤ أَعۡبُدُ لَكُمۡ دِینُكُمۡ وَلِیَ دِینِ”. (میں اُن چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو، اور تم اُس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور نہ میں اُس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں   عبادت کر تا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دِین ہے، اور میرے لئے میرا دِین)۔

ہم نے اگر اس بے لاگ موقف کا دو ٹوک اظہار نہیں کیا، اور اس سلسلہ میں شریعت کو مطلوب صلابت کا زبان قال وحال سے اظہار نہ کیا تو ڈر ہے کہ کہیں اگلی نسلوں کے ذہنوں سے شرک کی ضلالت کا احساس کمزور نہ پڑجائے، اور ان میں سے کچھ کے پاؤں پھسل نہ جائیں. مشکل حالات میں امت کے لیے استقامت کی اصل بنیاد عقیدۂ توحید پر اصرار ہی ہے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: