مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
ڈاکٹر جسیم الدین، فاضل دیوبند
مولانا مقبول احمد سالک مصباحی طویل علالت کے بعد دہلی کے فورٹس اسپتال میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات کی اطلاع برادرعزیز منظور الحق جلال صاحب سب اڈیٹر روزنامہ انقلاب دہلی کی فیس بک وال کے ذریعہ ملی۔
میں مولانا مصباحی سے اسی وقت سے متعارف ہوگیا تھا، جب میں نے دو ہزار گیارہ میں روزنامہ انقلاب جوائن کیا۔ انقلاب میں اکثر وبیشتر آپ کے ادارہ جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی سرگرمیوں کی خبریں دہلی کے نمائندہ رضا فراز کے توسط سے اشاعت کے لیے آتی تھیں، دہلی کے صفحات پر شائع ہونے والی خبروں کی زبان وبیان کی درستگی میرے ذمے تھی، اس لیے دہلی کی سبھی خبروں پر میری نظر رہتی تھی، مولانا کی ہر ہفتے اور کبھی کبھی ہفتے میں دو تین خبریں اور کبھی کبھی کسی حساس ایشوز پر ان کا رد عمل بھی شائع ہوتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بالمشافہ ملاقات وزیر آباد دہلی میں واقع مدرسہ احمدیہ سید العلوم نظامیہ ایجوکیشن سوسائٹی رجسٹرڈ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان حکومت ہند کے مالی تعاون سے « فروغ اردو زبان وادب میں علما ء کے کردار » کے موضوع پر منعقدہ قومی سمینار میں ہوئی، سمینار میں بطور مقالہ نگار راقم السطور بھی مدعو تھا، سمینار کے انتظام وانصرام میں عزیزی سید ادیب الرحمن ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی پیش پیش تھے اور ان کے ہی پیہم اصرار پر میں بھی اس بزم کا حصہ بنا۔ یہاں پروفیسر خواجہ اکرام الدین سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہند، پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور کئی علماء واسکالرز کے علاوہ مولانا مقبول احمد سالک مصباحی صاحب سے بالمشافہ ملاقات ہوئی، یہ پہلی ملاقات ضرور تھی، لیکن ایسی تھی کہ محسوس ہوا کہ متعدد ملاقاتیں ہوچکی ہوں، در اصل مولانا قرطاس وقلم کے دھنی تھے، بحث وتحقیق ان کا محبوب مشغلہ تھا، علمی مجلسوں کی زینت بننا ان کو سب سے زیادہ مرغوب ومحبوب تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے ایک بار دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں «عربی زبان کی ترویج واشاعت مدارس وجامعات کا کردار » کے موضوع پر کووڈ 19 کے بعد آف لائن سمینار میں شرکت کے لیے میٹرو پر سوار ہوئے اور مجھے فون کیا کہ میں کشمیری گیٹ پہنچ چکا ہوں، دہلی وشوودیالیہ میٹرو اسٹیشن کے کس گیٹ سے مجھے ایکزٹ کرنا ہے اور پھر وہاں سے سمینار میں شریک ہونے کے لیے کس راستے سے آنا ہے؟، میں نے انھیں راستہ بتادیا اور وہ سمینار میں تشریف لے آئے، سمینار کا موضوع ان کو اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اسی نشست میں اپنا مقالہ تیار کرلیا اور پڑھنے کی خواہش بھی ظاہر کی، میں نے سمینار کے ڈائریکٹر اور اس وقت کے صدر شعبہ پروفیسر نعیم الحسن تک ان کی بات پہنچادی ، انھوں نے موقع دینے کی یقین دہانی کرائی اور مولانا نے دس منٹ میں اپنی علمی وتحقیقی گفتگو سے سامعین کو مبہوت کردیا، میں ان سے رابطے میں رہا اور گاہے بگاہے مولانا بھی فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعہ تبادلہ خیال کرتے رہے، میں بھی ان کی علمی سرگرمیوں سے واقف یوتا ریا، وہ مسلکی تعصب وتسلط سے بالاتر ہوکر علم وتحقیق کے جویا تھے، انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء سے بھی کسب فیض کیا تھا، جس کا اٹر ان کی عربی تحریروں میں بخوبی نظر آتا تھا، مخطوطات کی اڈیٹنگ ان کی دلچسپی کا میدان تھا، اہل السنۃ والجماعۃ کی علمی نوادرات کو نئے قالب میں پیش کرنا ان کے روز وشب کا معمول تھا۔
میری ان سے جب بھی گفتگو ہوئی علمی ہوئی، انھوں نے کبھی مسلک کو حائل نہیں ہونے دیا، ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ میں فاضل دیوبند ہوں، لیکن بریلوی مسلک کے عام علما کی طرح انھوں نے کبھی ترش روئی کا مظاہرہ نہیں کیا، مجھ سے جب بھی ملاقات ہوئی انھوں نے اپنی الفت ومحبت سے مجھے گرویدہ بنالیا، یہی وجہ ہے کہ فیس بک کے ذریعہ جیسے ہی علالت کی اطلاع ملی، میں نے بارہا اللہ پاک سے مولانا کی شفایابی کی دعائیں مانگیں، لیکن مولانا کا مرض بڑھتا گیا اور یکے بعد دیگرے ایک ساتھ کئی عوارض کے شکار ہوگئے کئی ہفتہ وینٹی لیٹر پر رہتے ہوئے آخر کار زندگی کی جنگ ہار گئے، ان کی وفات سے دنیا ایک سچے اور پکے خادم دین وسنت سے محروم ہوگئی، مولانا علم وتحقیق میں اس ظرح فنا ہوگئے تھے کہ انھیں کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہونا ہے، گویا کہ وہ « العلماء العزاب الذين ٱثروا العلم على الزواج» کے سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے۔ ان کی وفات سے میں بہت مغموم ومحزون ہوں، اللہ پاک مولانا کی علمی وتحقیقی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ اور ذخیرہ آخرت بنائے اور ان کے باقی ماندہ کام ان کے فیض یافتگان سے کرانے کی سبیل پیدا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے