تحریر: سلیمان شاہین
موجودہ دور میں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے حالات بد سے برتر ہوتے جارہے ہیں آئے دن جان وایمان پر حملے ہورہے ہیں، ذہنی و فکری ارتداد اپنے نقطہ عروج پر پہنچ رہا ہے، دخترانِ اسلام کے ارتداد کے کئی واقعات ہماری نظروں کے سامنے ہیں،آج ملک بھر میں ہر دن اک نیا فتنہ جنم لے رہا ہے۔ فتنوں کی یہ آندھی اتنی تیز ہے کہ کئی مقامات پر ایمان متزلزل ہورہا ہے۔بنی اسرائیل کے نت نئے حربے آج بھی نئے انداز سے جاری ہیں۔ خصوصًا وطن عزیز میں اہل ہنود اپنی گذشتہ نصف صدی کی سخت محنت کے بعد ہمیں اپنے خوبصورت دام میں پھنساکر, حب الوطنی اور سیکولرازم کی مٹھائیاں دکھاکر ہمارے ایمان کو آلودہ کرنے اور یہاں تک کہ مشرکانہ سرگرمیوں میں بخوشی شامل کررہے ہیں۔ اور یہ سیکولرازم کا مایا جال اچھے اچھوں کو مشرکانہ فعل کا حصہ بنارہا ہے۔ کئی افراد تو بت پرستی کی محفلوں میں بہ نفس نفیس شریک ہورہے ہیں۔ قومی رہنماؤں کے مجسموں (بتوں) کو گلہائے عقیدت چڑھارہے ہیں۔ اہل ہنود کے نعروں میں اپنی شرکت درج کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہےکہ شرک ظلمِ عظیم ہےشرک اکبر الکبائر ہے ،شرک رب کی بغاوت ہے شرک ناقابلِ معانی جرم ہے ، شرک ایمان کےلیے زہر قاتل ہے ، شرک اعمالِ صالحہ کے لیے چنگاری ہے ۔اور شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے اور شرک ایسا گناہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے۔
موجوہ حالات میں کئی مسلمان گنگا جمنی تہذیب کے آڑے سیکولرزم کی دہائیوں میں اغیار کے تہواروں میں شرکت ہی نہیں کر رہے بلکہ اسے جوش و خروش سے منارہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اغیار کے ساتھ سیاسی یا کاروباری تعلقات ہیں، اسی تعلق کو مضبوط کرنے ان کی خوشنودی حاصل کرنے وہ اپنے ایمان کا سودا کرہے ہیں، سیاسی آقاؤں، کاروباری سیٹھوں کی خوشنودی کیلئے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں، انھیں یہ بھی خیال نہیں کہ اتنا سب کر لینے کے باوجود ایک ایک دن مرنا ہی ہے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہی ہے تب کیا جواز پیش کرو گے۔۔ وہیں دوسری جانب اسکولوں سے کئی معاملے سامنے آرہے ہیں ماں باپ اپنی اولاد کو اسکول کو داخل کرانے کے بعد ان کی خبر گیری نہیں کرتے کہ اسکول میں کیا پڑھوایا جارہاہے ہمارے بچوں سے کیا کیا چیزیں کروائی جارہی ہے، بچہ معصوم نا سمجھ ہوتا ہے اسے کفر وشرک کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی ہے، اسکول میں وندے ماترم یا بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگوائے جائیں یا پوجا پاٹ میں شریک کرایا جائے، وہ ان تمام چیزوں کو پڑھائی کا ایک حصہ سمجھ کر کر گزرتا ہے۔ *ابھی یہاں سے یکے بعد دیگرے کئی تہوار آرہے ہیں اسکولوں میں اس مناسبت سے کئی کفریہ پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں اکثر مسلم مینیجمینٹ والے اسکول بھی اس سے خالی نہیں ہے، دولت کی چمک میں سب اندھے ہوچکے ہیں، اس کی رنگینیوں نے کئی اک کے دماغوں کو بند کر رکھا ہے۔
ماں باپ کو چاہیے کے اپنی اولاد کو کفر و ایمان کی تمیز سکھلائیں، ان کی تربیت کریں، ان پر نظر رکھیں، بچوں سے کہے کہ اسکول میں اس طرح کی کوئی بھی حرکت کروائی جائے تو فوراً گھر آکر اطلاع کریں۔ سرپرستوں کو چاہیے کہ اسکول انتظامیہ سے اس معاملے میں دو ٹوک بات کریں کہ ہمارے بچے کو کسی بھی طرح کے شرکیہ عمل میں ملوث نہ کرے۔
حال ہی میں ایک مسلم انتظامیہ والے اسکول کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں بچی کو دیوی بنا کر دوسرے بچے سے اس کی پوجا کروائی جارہی تھی، ایسے اور بھی کئی معاملات سامنے آئے ہیں، یہ تمام چیزیں سرپرستوں کی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ خدارا ان چیزوں پر غور کریں اور اپنی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ کریں، ورنہ آج جو لوگ گنپتی منڈولوں میں ناچتے نظر آرہے ہیں کل ان میں ہماری بھی اولاد ہوسکتی ہے پھر اسوقت ہمارے سامنے سوائے افسوس اور گھٹ گھٹ کر مرنے کے کچھ نہ بچے گا، آج وقت ہے اپنی اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت پر دھیان دیں، انھیں وقت دے، فکر معاش کی گہما گہمی، میں ہم اپنی اولاد سے دور ہوتے جارہے ہیں، ان کیلئے وقت نکالنا مشکل ہوتا جارہا ہے، لیکن پھر بھی ہمیں اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے بچوں کو دینا ضروری ہے، دینی تعلیم کے زیور سے ان نونہالوں کو آراستہ کرنا ضروری ہے، تاکہ بچوں کی فکر نظر دینِ اسلام کے مطابق پروان چڑھے، مستقبل میں وہ اسلام کے علمبردار بن کر ابھریں، دین و دنیا میں نمایاں مقام پیدا کریں، اپنا اور اپنے سرپرستوں کا سر فخر سے بلند کریں۔