اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

انسانیت کی صبح سعادت اور عالم نو

    محمد قمرالزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

      آج ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہے ۔مشہور روایت ہے، کہ اسی تاریخ کو آقا مدنی رسول اکرم ﷺ کی پیدائش ہوئی، (لیکن صحیح قول کے مطابق ۹/ ربیع الاول بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ہے،لیکن اس روایت کو شہرت نہیں ملی،اس لیے اکثر علماء بھی ۱۲ربیع الاول ہی کا تذکرہ کردیتے ہیں)یہ سب سے مبارک دن ہے،یہ دن مبارک و مسعود کیوں نہ ہو کہ اس دن کی نسبت بہت اونچی ہے،دنیا کا سب سے مبارک اور افضل انسان کی پیدا کا دن ہے،جس نے اس دنیا کو صحیح ایمان و یقین علم و معرفت اور نئی زندگی عطا کی اور اس دن انسانیت کی صبح  نو ہوئی، انسانیت اور آدمیت کی باد بہاری چلنی شروع ہوئی۔ 

بہار  اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے 

وہ  سب  پود  انہیں کی لگائی ہوئی ہے

     آج ہی کے دن اور آج ہی کی تاریخ کو آقائے مدنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیاسی زمین کی سیرابی کے لئے، سسکتی، بلکتی،تڑپتی، اور مرجھائی انسانیت کو تازہ دم کرنے اور حیات آفریں بخشنے، اس دنیا میں تشریف لائے ۔ یہ مہینہ، پوری دنیائے انسانیت کے لئے موسم ربیع اور فصل بہار ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت پر خزاں، پژمردگی اور بے حسی چھائی ہوئی تھی، ہر طرف ظلم و ستم جور و جفااور زیادتیاں عام تھیں، کون سی برائی تھی جس کا انسان رسیا اور عادی نہ تھا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانیت کا خون خود انسان پی رہا تھا،  حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد نبوت سے خالی عرصئہ دراز کی وجہ سے شیطان کو موقع ملا مختلف برائیوں اور بے حیائیوں کی راہیں ہموار کیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا برائی میں ڈوب گئی اور خاص طور پر جزیرہ عرب برائیوں اور بے حیائیوں کا اڈہ ، آماج گاہ اور مرکز بن گیا ۔ نفسانیت،حرص و حسد ہوس و نفس پرستی، جھوٹ غیبت دھوکہ دہی ظلم و ستم لوٹ مار قتل و غارت گری شراب نوشی بے حیائی دختر کشی لڑائی جھگڑے جوا قمار اور کوئی بھی ایسی برائی نہ تھی جو عرب میں نہ پائی جاتی ہو ، گویا وہ درندوں سے بدتر ہو چکے تھے، اور انسانیت و مانوتا سے دور ہوچکے تھے۔ شرک و بت پرستی کی آخری حد پر یہ لوگ پہنچ گئے تھے، وہ خانئہ کعبہ جس کو حضرت ابراہیم و اسمعیٰل علیھیما الصلوۃ و التسلیم نے ایک خدا کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا، اس کے صحن میں 360/ بت رکھے ہوئے تھے، ہر قبیلہ کا اپنا اک بت اور معبود تھا ۔ جہالت و نادانی کی یہ حالت تھی کہ ہر طاقت ور چیز کو وہ لوگ خدا سمجھ بیٹھے تھے۔  کچھ قبیلے کے لوگ اپنی اولاد کو خرچ کے ڈر سے قتل کردیتے تھے، تو بعض قبیلے نوزائیدہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے ۔ بیت اللہ جس کا احترام زمانئہ جاہلیت میں بھی سارے لوگ کیا کرتے تھے، اس کی مرکزیت کے باعث دوسرے خطے اور ممالک کے لوگ بیت اللہ اور حرم محترم کی زیارت کرنے آتے تھے، یہاں کی بت پرستی اور دوسری تمام برائیوں کا ذھن میں تصور نقش ہوجاتا تھا اور اس کی تقلید کرتے اور اپنے ملکوں اور خطوں میں اس کو رواج دیتے اس طرح وہ برائیاں دوسرے حصوں میں بھی پھیل گئیں، غرض کم و بیش  بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پوری دنیا جہالت اور مختلف برائیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ڈوب گئی تھی کہ محسوس ہوتا تھا ، اب روشنی کی قندیل اور شمع یہاں روشن نہیں ہوگی اور نیکی اور صلاح و تقویٰ قصئہ پارنیہ بن جائے گا، تاریخ انسانیت کے کسی دور میں اس طرح کی ناامیدی نہ ہو ۔ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ

چھٹی صدی عیسوی میں انسانیت کی گاڑی ایک ڈھلوان راستے پر پڑ گئی تھی، اندھیرا پھیلتا جارہا تھا، راستے کا نشیب و فراز بڑھتا جارہا تھا، اور رفتار تیز ہوتی جارہی تھی، اس گاڑی پر انسانیت کا پورا قافلہ اور آدم علیہ السلام کا پورا کنبہ سوار تھا، ہزاروں برس کی تہذیبں، اور لاکھوں انسانوں کی محنتیں تھیں، گاڑی کے سوار میٹھی نیند سورہے تھے، یا زیادہ اور اچھی جگہ حاصل کرنے کے لیے آپس میں دست و گریباں تھے، کچھ تنک مزاج تھے، جو جب ساتھیوں سے روٹھتے تو ایک طرف سے دوسری طرف منھ پھیر کر بیٹھ جاتے، کچھ ایسے تھے جو اپنے جیسے لوگوں پر حکم چلاتے، کچھ کھانے پکانے میں مشغول تھے، کچھ گانے بجانے میں مصروف، مگر کوئی یہ نہ دیکھتا کہ گاڑی کس غار کی طرف جارہی ہے اور اب وہ کتنا قریب رہ گیا ہے۔ انسانیت کا جسم تروتازہ تھا، مگر دل نڈھال، دماغ تھکا ہوا تھا، ضمیر بے حس و مردہ، نبضیں ڈوب رہی تھیں اور آنکھیں پتھرانے والی تھیں، ایمان و یقین کی دولت سے عرصہ ہوا انسانیت محروم ہوچکی تھی، توہمات و  خرافات کا پوری دنیا پر قبضہ تھا، انسانیت نے اپنے کو ذلیل کیا تھا، ایک خدا کے سوا سب کے سامنے اس کا جھکنا منظور تھا، حرام اس کے منھ کو لگ گیا تھا۔

شراب اس کی گھٹی میں گویا پڑی تھی

جوا، اس کی دن رات کی دل لگی   تھی

   بادشاہ دوسروں کے خون پر پلتے تھے، بستیاں خراب، ویران اور اجاڑ کر بستے تھے، زندگی کا معیار اتنا بلند ہوگیا تھا کہ جینا دوبھر ہوگیا تھا، جو اس معیار پر نہ اترے وہ جانور سمجھا جاتا تھا، سب زندگی کی فکروں میں گرفتار اور ظلم و زیادتی سے زار و نزار تھے، پورے ملک میں ایک بندہ ایسا نہیں ملتا، جس کو اپنے پیدا کرنے والے کی رضا مندی کی فکر ہو، یا راستے کی سچی تلاش ہو، غرض یہ نام کی زندگی تھی مگر حقیقت میں ایک وسیع اور طویل خود کشی۔۔ دنیا کی اصلاح انسانوں کے بس سے باہر تھی، پانی سر سے اونچا ہوگیا تھا، معاملہ ایک ملک کی آزادی اور ایک قوم کی ترقی کا نہ تھا، معاملہ پوری انسانیت کی موت اور زندگی کا تھا، سوال کسی ایک خرابی کا نہ تھا ، ، انسانیت کا بدن داغ داغ تھا، دامن تار تار تھا، جو بھی اصلاح کے لیے آگے بڑھتا وہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتا۔۔۔ فلسفی حکیم شاعر ادیب کوئی اس مرد میدان کا نہ نکلا، سب اس وبا کے شکار تھے، مریض مریض کا علاج کیسے کرتے؟ جو خود یقین سے خالی ہو وہ دوسروں کو کس طرح یقین سے بھر دے؟ جو خود پیاسا ہو، دوسرے کی پیاس کس طرح بجھائے،؟؟ انسانیت کی قسمت پر بھاری قفل تھا، اور کنجی گم تھی، زندگی کی ڈور الجھ گئی تھی، اور سرا نہ ملتا تھا۔

    نگاہ قدرت ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی،اسے اپنے بندوں پر بہت ترس آیا اور کیوں ترس نہ آئے اسے اپنے بندوں سے ہزاروں ماوؤں سے بھی زیادہ پیار اور ممتا ہے،انسان کو اسی طرح راہ حیوانیت پر چھوڑ دینا ان کے شان رحیمی کے خلاف تھا، اس لئے یکایک رحمت الہی میں جنبش ہوئی اور نبی رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی ہدایت کے لئے اور انسانوں کو انسان بنانے کے لیے مبعوث فرمایا ۔ مشہور قول ہے کہ آپ کی ولادت ۲۳ اپریل ۵۷۱ عیسوی اور ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی ۔ آپ عام ماحول سے ہٹ کر  پلے بڑھے اور آپ کی تربیت، الہی اور ربانی تربیت تھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر عزیز کی چالیس بہارین مکمل ہوگئیں تو اللہ تعالی نے غار حرا میں آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کیا ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت و رسالت کے اس بار گراں کو سنبھالا ۔ انسانوں کو حقیقی انسان بنانے کی ذمہ داری آپ نے قبول کی ۔ امید و بیم کے ساتھ انسانی آبادی کی طرف لوٹے، وفا دار بیوی نے ہر طرح ساتھ دیا ابتدا میں بھی کچھ فدا کار اور جانثار ساتھ ہوئے اور پھر اصلاح و تربیت اور ایمانی انقلاب کا ایسا سفر شروع ہوا کہ راہ حق میں ہزار خوف ناک رکاوٹیں پیدا ہوئیں دعوت و تبلیغ کی مبارک راہوں کو روکنے کے لئے شیطانوں نے وسیع خندق حائل کئے، لیکن پھر اس ایمانی اور نورانی قافلے کو روکنے کی کسی میں ہمت اور طاقت نہ ہو سکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ اور محنت شاقہ اور شب و روز کی جد و جہد کے بعد عرب کے وہ بدو اور ناہنجار  راہ یاب ہوئے، بلکہ رشد و ہدایت  کے آفتاب و ماہتاب بن گئے اور ایسے اصحاب ایمان و یقین بن گئے کہ جن کو دیکھ کر قیامت تک آنے والی نسلیں ضلالت و گمراہی سے نجات پاسکتی ہیں اور ہدایت کے دروازے کو اپنے لئے وا کرسکتی ہیں ۔ 

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے 

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

      ہم یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ پورے یقین و ایمان کے ساتھ کہنا چاہیے کہ اس خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات پر جس ذات کے احسانات سب سے زیادہ ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکتی انسانیت کو راہ راست دکھایا، اور آپ ہی کے ذریعہ دنیا کو اللہ کی صحیح معرفت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شب روز کی محنت سے انسانوں کی بستی آباد ہوئی انسانیت کو معراج حاصل ہوئی، اور ہر طرح کے فضائل سے اسے آشنائی نصیب ہوئی ۔ آپ کی تعلیمات نے ہر طبقہ کو فائدہ پہنچایا ۔عقیدئہ توحید کی نعمت سے محروم لوگوں کو آپ نے اس نعمت سے سرفراز کیا ۔آپ کی دعوت توحید سے لوگوں کے دلوں سے غیر اللہ کا خوف دور ہوا ،اور نئی قوت، نیا حوصلہ نئی شجاعت، اور نئی  وحدت پیدا ہوئی،اور اسی اللہ کو نافع اور ضار سمجھا جانے لگا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو وحدت انسانی کا تصور دیا ورنہ پوری دنیا ٹکریوں میں بٹی ہوئی تھی اور فرسودہ خیالات کی بنا پر چھوٹی چھوٹی ذات و طبقات اور قبیلوں میں وہ بٹے ہوئے تھے ۔ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کواحترام انسانیت کا سبق اور پاٹ پڑھایا ورنہ اس سے پہلے انسانیت کا وجود بالکل بے قیمت،بے حیثیت اور بے وزن ہوکر رہ گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدوؤں کو تہذیب و تمدن اور اسلامی اور انسانی ثقافت سے آشنا کرایا، اس سے پہلے وہ تہذیب و تمدن اور شائستگی سے نابلد تھے ۔ آپ کی بعثت سے پہلے لوگ اپنے مقصد زندگی سے ناآشنا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انسانوں کو مقصد زندگی سے واقف کرایا ۔ 

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ احسانات جن سے بنی نوع انسان کو ( لوگوں کو) صحیح اور درست رہنمائی ملی اور جس سے ان کی زندگی میں ایمانی اور نورانی انقلاب برپا ہوا ان کو اختصار سے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں :

  •  صاف اور واضح عقیدئہ توحید 
  • انسانی وحدت و مساوات کا تصور
  • انسانیت کے شرف اور انسان کی عزت و سربلندی کا اعلان
  • عورتوں کی حیثیت عرفی کی بحالی اور اس کے حقوق کی بازیابی
  • ناامیدی اور بدفالی کی تردید اور نفسیات انسانی میں حوصلہ مندی اور اعتماد و افتخار کی آفرینش
  • دین و دنیا کا اجتماع اور حریف و برسرجنگ انسانی طبقات کی وحدت
  • دین و علم کے درمیان مقدس دائمی رشتہ کا قیام و استحکام اور ایک کی قسمت کو دوسرے کی قسمت سے وابستہ کر دینا،علم کی تکریم و تعظیم اور اسے بامقصد مفید اور خدا رسی کا ذریعہ بنانے کی سعی محمود
  • عقل و شعور سے دینی معاملات میں کام لینے ،فائدہ اٹھانے اور آفاق و انفس میں غور و فکر کی ترغیب
  • امت اسلامیہ کو دنیا کی نگرانی و رہنمائی، انفرادی  و اجتماعی اخلاق و کردار اور خیالات و نظریات کے احتسابات ،دنیا میں انصاف کے قیام اور شہادت حق کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ کرنا۔ 
  •   عالمگیر اعتقادی و تہذیبی وحدت کا قیام  (مستفاد نبی رحمت ص ۶۴۴)

      یہ خاتم الانبیاء کے امت پر چند احسانات ہیں جن کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ،ورنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو شمار کرنے کے لئے  ایک دفتر چاہیے ۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ہے ۔

    آج پھر دنیا جاہلیت قدیمہ کی طرف لوٹ رہی ہے، لیکن نئے رنگ و روپ اور نئے آہنگ کے ساتھ ۔ پھر جاہلیت کی روایات کی طرف رواں دواں ہے، جس سے پیارے آقا صادق و مصدوق نے امت کو نکالا تھا ۔آج ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو زندہ کریں ۔ آپ کے احساسات سے دنیا کو روشناس اور واقف کرائیں ۔ ان پر عمل کریں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و دعوت کا احیا کریں ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے صلوۃ و سلام اور درود کا اہتمام کریں ۔ یہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین قدردانی ہوگی اور ماہ ربیع الاول کے پیغام و پیام کو ماننا سمجھنا اور تسلیم کرنا شمار ہوگا ۔

  اک نام مصطفیٰ ہے جو بڑھ کر گھٹا نہیں 

    ورنہ ہر اک عروج میں پنہاں زوال ہے

 ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم کے شاہکار نعتیہ کلام پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں:

محمد مصطفیٰ محبوبِ داور سرورِ  عالم

وہ جس کے دم سے مسجودِ ملائک بن گیا آدم

 

کیا ساجد کو شیدا جس نے مسجودِ  حقیقی پر

جھکایا عبد کو درگاہِ  معبودِ حقیقی پر

 

دلائے حق پرستوں کو حقوقِ زندگی جس نے

کیا باطل کو غرقِ  موجۂ شرمندگی جس نے 

 

غلاموں کو سریرِ  سلطنت پر جس نے بٹھلایا

یتیموں کے سروں‌ پر کر دیا اقبال کا سایا

 

گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کر دیا جس نے

غرورِ نسل کا افسون باطل کر دیا جس نے 

 

وہ جس نے تخت اوندھے کر دئے شاہان جابر کے

بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسان صابر کے 

 

دلایا جس نے حق انسان کو عالی تباری کا

شکستہ کر دیا ٹھوکر سے بت سرمایہ داری کا

 

محمد مصطفیٰؐ مہرِ  سپرِ اَوجِ  عرفانی

ملی جس کے سبب تاریک ذروں‌ کو درخشانی

 

وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں‌ میں‌

فرشتوں کی دعاؤں‌ میں موذن کی اذانوں میں‌

 

وہ جس کے معجزے نے نظم ہستی کو سنوارا ہے

جو بے یاروں‌ کا یارا بے سہاروں‌ کا سہارا ہے 

 

وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم ہے

خدا کے بعد جس کا اِسمِ اعظم اِسم اعظم ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: