مولانا سید محمد شاہد الحسینی:شرافت کا پیکر
تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ کل بروز جمعہ شمالی ہند کی مشہور اور تاریخی درس گاہ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے امین عام مولانا سید محمد شاہد الحسینی انتقال فرما گئے – انا للہ وانا الیہ راجعون ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ، یا رب العالمین!
مولانا شاہد حسینی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کے نواسے اور مولانا انعام الحسن سابق امیر تبلیغی جماعت کے داماد تھے – انھوں نے پوری زندگی مظاہر علوم سہارن پور کی خدمت اور تعمیر و ترقی میں گزار دی – تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی ان کی اہم خدمات ہیں – ان کے بارے میں میری کئی یادیں ہیں- اس موقع پر ان کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں :
- دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فضیلت (1983) کرنے کے بعد مجھے یہ شوق ہوا کہ شمالی ہند کے بڑے مدرسوں کا دورہ کیا جائے – بھائی مولانا عبد البر اثری فلاحی سے بات ہوئی تو وہ بھی تیار ہوگئے – اس زمانے میں ہم لوگوں نے نھضۃ العلماء کے نام سے ایک انجمن قائم کر رکھی تھی ، جس کے تحت مختلف دینی مدارس کے نوجوان فارغین سے رابطہ کرتے تھے اور انہیں مل جل کر اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرتے تھے – اس سفر میں ہم لوگ دیوبند میں دار العلوم اور دار العلوم وقف اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی کے علاوہ مظاہر علوم اور مظاہر علوم وقف بھی گئے – ہمیں یاد ہے کہ اس موقع پر ہم نے مولانا شاہد حسینی سے بھی ملاقات کی تھی – انھوں نے ہمارا پُر تپاک استقبال کیا تھا اور اپنی بہت سی مطبوعات ہمیں تحفۃً دی تھیں ، جن میں تاریخ مظاہر علوم اور علماء مظاہر علوم کی خدمات بھی تھی – ہمیں طلبہ سے بھی خطاب کرنے کا موقع ملا تھا –
- حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ کی طرف ‘فتنۂ مودودیت’ نامی کتاب منسوب کی جاتی ہے ، اس بنا پر عام طور سے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ مظاہر علوم کے ذمے داروں کے تعلقات جماعت اسلامی والوں سے اچھے نہیں رہے ہوں گے ، لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہوگی کہ ایسا نہیں ہے – دونوں کے درمیان خوش گوار تعلقات پائے جاتے تھے – میرے استاذ و مربّی مولانا سید جلال الدین عمری رحمہ اللہ مولانا شاہد صاحب کا تذکرہ بہت محبت سے کرتے تھے – مولانا عمری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مولانا محمد رفیق قاسمی سابق سکریٹری جماعت اسلامی ہند کے ہم راہ مظاہر علوم گئے تو وہاں مولانا شاہد اور دیگر ذمے داروں نے ان کا پُر جوش استقبال کیا ، بہت محبت سے پیش آئے اور وہاں کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ان کا خطاب کروایا ۔
- ایک مرتبہ میں مولانا جلال الدین عمری کے ساتھ بیرونِ ملک کے دورے پر تھا – واپسی میں ہوائی جہاز ہی کے اندر مولانا شاہد سے ملاقات ہوگئی – انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور خیر و عافیت دریافت کی – دہلی ایر پورٹ سے باہر نکلے تو وہ ہمارے پاس تشریف لائے اور مولانا عمری سے درخواست کی کہ ان کی گاڑی آگئی ہے – اگر گاڑی کا نظم نہ ہو تو اس سے مرکزِ جماعت تشریف لے جائیں – ہم نے بتایا کہ مرکز سے ہماری گاڑی بھی آگئی ہے –
- چند برس قبل شاہد صاحب کے کسی عزیز کے انتقال کے بعد مجھے مولانا محمد رفیق قاسمی کے ساتھ تعزیت کے لیے سہارن پور کا سفر کرنے اور مولانا شاہد سے ملاقات کرنے کا موقع ملا – سہارن پور میں جماعت کے رفقاء بھی آگئے ، جن میں برادر گرامی جمیل مانوی بھی تھے – پہلے ہم مدرسہ ، پھر مولانا شاہد کے دولت کدہ پر گئے – ان کی طبیعت کچھ ناساز تھی ، اس کے باوجود انھوں نے ہمیں وقت دیا ، دیر تک باتیں کرتے رہے ، خوب تواضع کی اور کھانا کھلاکر رخصت کیا ۔
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں کشادگی اور رواداری پائی جاتی ہے – اختلافات کے باوجود وہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں – ہر ایک کو اس دنیا میں ایک مدّت گزار کر اللہ کے حضور پہنچنا ہے – مولانا شاہد حسینی بھی اپنے اعمال کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئے – اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں اپنے مقرّب بندوں میں شامل کرے اور انہیں اعلیٰ العلّیّین میں جگہ دے ، آمین یا رب العالمین!