Slide
Slide
Slide

حب ِنبوی ﷺ سرمایۂ ایمان

🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

 رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے ، ایسی محبت جو تمام محبتوں سے فائق ہو ، جو مؤمن کے رگ و ریشہ میں سمائی ہوئی ہو ، خدا کے بعد اس درجہ کی محبت میں کوئی اور شریک نہ ہو ، ایسی محبت جو اپنی ذات ، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہو ، جس میں وارفتگی ، جاں نثاری ، فدائیت اور خود سپردگی ہو ، جس محبت کا سایہ محبوب کے تمام متعلقین تک وسیع ہو چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کوئی شخص اس وقت صاحب ِایمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنی ذات سے ، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ ہوجائے ‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے واقعی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی ، جو صرف زبان سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر اپنی جان و اولاد کو قربان کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے تھے؛ بلکہ عمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے اور اپنی جان اور اولاد کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس خوشی سے نچھاور کرتے تھے کہ گویا ان کی جان کی قیمت وصول ہوگئی ۔

 حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مکہ کے ہاتھ آجاتے ہیں ، بعض لوگ جن کے مورثِ اعلیٰ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے تھے ، قصاص و انتقام کے طورپر انھیں خرید لیتے ہیں ، پھر مکہ سے باہر ایک انبوہ کے ساتھ انھیں لے جایا جاتا ہے اور اذیت پہنچا پہنچا کر سولی پر چڑھایا جاتا ہے ، عین اس وقت جب آزمائش کا یہ پہاڑ اس مردِ مومن کے اوپر ڈھایا جارہا تھا ، پوچھا جاتا : کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ آج تمہاری جگہ ’’ محمد ‘‘ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) ہوتے اور تم اس مصیبت سے بچ جاتے ؟ حالاںکہ ایسی مصیبت کے وقت میں دل کے اطمینان کے ساتھ زبان سے کلمۂ کفر ادا کرلینے کی بھی اجازت ہے ، ( الموسوعۃ الفقہیہ : ۶؍۱۰۷ ، لفظ اکراہ ) لیکن حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ محبت پر قربان جائیے ، کہ اس وقت بھی فرماتے ہیں : ’’ خدائے عظیم کی قسم ! مجھے تویہ بھی گوارا نہیں کہ اس تکلیف سے بچ جاؤں اور میرے آقا کے قدم مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے ‘‘ ۔ ( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۶ )

 حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ابوسفیان کی گرفت میں ہیں ، —- جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے —- زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی تیاری ہورہی ہے اور سرقلم کئے جانے کو چند لمحہ رہ گیا ہے ، اتنے میں ابوسفیان ے استفسار کیا : اے زید ! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند نہیں ، کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) یہاں ہوتے ہم ان کا سرکاٹ لئے ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے ، حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عین تلوار کی چھاؤں میں فرمایا : ’’ مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اس وقت میں اس تکلیف سے بچ کر اپنے گھر میں رہوں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک کانٹا بھی چبھ جائے ‘‘ ۔( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۵ )

 حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ابوسفیان کی گرفت میں ہیں ، —- جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے —- زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی تیاری ہورہی ہے اور سرقلم کئے جانے کو چند لمحہ رہ گیا ہے ، اتنے میں ابوسفیان ے استفسار کیا : اے زید ! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند نہیں ، کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) یہاں ہوتے ہم ان کا سرکاٹ لئے ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے ، حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عین تلوار کی چھاؤں میں فرمایا : ’’ مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اس وقت میں اس تکلیف سے بچ کر اپنے گھر میں رہوں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کواپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک کانٹا بھی چبھ جائے ‘‘ ۔( البدایہ والنہایہ : ۴؍۶۵ )

 غزوۂ بدر کے موقع سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں خود ان کے صاحبزادے سامنے تھے ، جو ابھی کفر کی حالت میں تھے ، وقت گذرا ، یہاں تک کے اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی ، پھر صاحبزادے نے عرض کیا : ابا جان ! غزوۂ بدر میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ میرے نرغہ میں آئے تھے ، لیکن باپ کی محبت غالب آگئی ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ’’ لیکن اسلام و کفر کی اس جنگ میں اگر تم میرے نرغہ میں آگئے ہوتے تو میں تمہیں معاف نہیں کرتا ‘‘ ۔( دیکھئے : الإستیعاب ، ذکر عبدالرحمن بن ابی بکر )

 عبداﷲ بن ابی خود منافق تھا ، ان کے لڑکے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مخلص تھے ، ان پر اپنے والد کا منافق ہونا بھی ظاہر تھا ، مدینہ میں افواہ تھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے نفاق کی وجہ سے ان کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، جب حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس کی اطلاع ہوئی تو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ منشاء ہوتو میں خود اپنے والد کا سرقلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی ، اور جو چیز آپ کو محبوب ہوتی وہ انھیں اپنی مرغوبات سے زیادہ عزیز ہوتیں ۔

 حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کے تقاضہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام متعلقین سے محبت ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے محبت ہو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہو ، یہ محبت کا فطری تقاضہ ہے ، کہ جو چیز عزیز ہوتی ہے اس سے تعلق رکھنے والی ساری ہی چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں ، اس لئے سلف صالحین اہل بیت سے بھی محبت رکھتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم  سے بھی ، اہل بیت سے محبت نہ ہو اور ان کی توقیر و احترام کا جذبہ نہ ہوتو یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کما حقہ محبت سے محرومی ہے ؛ کیوںکہ اہل بیت کی محبت اس نسبت کی وجہ سے ہے جو انھیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے حاصل ہے اور ان کی محبت سے محروم ہونا اس نسبت کی ناقدری ہے ، اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رفقاء ہیں ، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دی ہے ، جن کو براہِ راست صحبت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اُٹھانے کا موقع ملا ہے ، جو بلا واسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداختہ اور تربیت یافتہ ہیں ، ان سے بغض رکھنا یا ان کی تنقیص کرنا دراصل بالواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر حرف گیری کرنا ہے ؛ اسی لئے اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  قابل احترام اور قابل محبت ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں ، بدقسمتی سے گذشتہ صدی میں برصغیر میں بعض ایسی تحریریں منظر عام پر آئیں ، جن میں اہل بیت یا دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم  کے بارے میں بے توقیری اور بغض و کدورت کا رویہ اختیار کیا ، ایسی باتوں کو قبول کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم و توقیر کے مغائر ہے ۔

 حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلقین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت نے اس اُمت کو ایک عالم گیر اور آفاقی خاندان بنادیا ہے ، جیسے انسان کو باپ دادا کے رشتہ سے وجود میں آنے والے خاندان سے محبت ہوتی ہے ، وہ ایک دوسرے کا خیر خواہ اور معاون و مددگار ہوتا ہے اور دشمنوں کے مقابلہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے ، اسی طرح پوری اُمت ایک خاندان کا درجہ رکھتی ہے ، جیساکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے باپ کے درجہ میں ہوں اور جیساکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں ۔

 افسوس کہ اُمت کے ایک وسیع خاندان ہونے کا تصور ہمارے ذہنوں سے نکل گیا اورمسلکوں ، تنظیموں ، جماعتوں ، درسگاہوں ، خانقاہی نسبتوں ، علاقوں ، زبانوں ، پیشوں اوربرداریوں کے دائرہ میں ہماری محبت سکڑ کر رہ گئی ہے ، ہم نے اس حقیقت کو بھلا دیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی اُمت کے ایک ایک فرد سے محبت فرماتے تھے ، نہ عرب و عجم کی تفریق تھی ، نہ کالے گورے کی تمیز ، نہ مہاجرین و انصار کی تفریق ، نہ دولت مندوں اور غریبوں میں امتیاز ، یہاں تک کہ اُمت کے کسی فرد سے گناہ کا ارتکاب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گناہ سے نفرت ضرور ہوتی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینۂ مبارک اس گناہ گار اُمتی کی محبت سے بھی معمور ہوتا ، اگر اس کے بارے میں کوئی شخص ناروا فقرہ کہہ دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سخت ناراض ہوتے ، کاش ! مسلمان اس حقیقت پر توجہ دیں ، کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں ایک اُمت بنایا تھا ، لیکن آج ہم نے اپنے درمیان فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اتنی اونچی دیوار کھینچ لی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہمیں اس اُمت سے بھی محبت ہو ، جس اُمت کی تشکیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی ۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک مظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے محبت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ بنایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ہے ، عبادت و بندگی ، اخلاق و سلوک ، خاندانی زندگی کے آداب ، تجارت اور کسب معاش کے طریقے ، حکومت اورملکی نظم و نسق ، جنگی مہمات ، ازدواجی زندگی ، اعزۂ و اقارب کے ساتھ برتاؤ ، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ رویہ ، دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ سلوک ، سونے جاگنے ، اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے ، سفر و حضر اور جلوت و خلوت ، تعلیم و تعلم ، عدل و قضاء اور احکام شرعیہ کی رہنمائی ، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسوہ موجود و محفوظ ہے اور نشانِ راہ بن کر منزلِ مقصود کی طرف لے جاتا ہے ، ان سنتوں کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا عین تقاضہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کو پامال کرنا اور نبی کی مرضیات کے مقابلہ اپنی خواہشات کو ترجیح دینا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت کا دعویدار ہونا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے ۔

 اسی لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بار بار اُمت کو اپنی سنتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : تم بہت سے اختلاف دیکھو گے؛ لیکن تمہارے لئے صحیح راہِ عمل یہ ہے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم  ہیں : ما أنا علیہ وأصحابی ، ( ترمذی ، ابواب الإیمان ، باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ، حدیث نمبر : ۲۶۴۱ )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقہ پر قائم رہو ، علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ، ( ابوداؤد ، باب فی لزوم السنۃ ، حدیث نمبر : ۴۶۰۷ ، ابن ماجہ ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین ، حدیث نمبر : ۴۲ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری مردہ ہوتی ہوئی سنت کو زندہ کیا ، اس کے لئے سو شہیدوں کا اجر ہے ، ( حلیۃ للاولیاء وطبقات الأصفیاء الأصبہانی : ۸ ؍۳۰۰ ،  عن ابی ہریرۃؓ) پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت جزوِ ایمان ہے ، یہ محبت ایسی ہے جو والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر ہے ، اس محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کی محبت بھی شامل ہیں اور اس کے بغیر محض زبان سے محبت کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے !

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: