ڈاکٹر محمد اعظم ندوی ،استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
اے غزہ! اے ثبات واستقامت کی سرزمین! اللہ ہی تیرا حامی ومددگار ہے، اور اے سرزمین فلسطین! اس ذات وحدہ لاشریک کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں تجھے وہ کبھی ذلیل وخوار نہیں کرے گا، اور کبھی تجھے دھوکہ دہی کرنے والے اور اللہ کے دین اور مسلمانوں کے حقوق سے کھلواڑ کرنے والے بدنصیبوں اور شقی وملعون روحوں کے حوالہ نہ کرے گا، تجھے کبھی ضائع نہ کرے گا کہ تو نے ایمان ، اہل ایمان اور اقصیٰ کا دفاع کیا ہے ،اور اس پر قائم ہے، صبر کر اور انتظار کر، اللہ کا یہ وعدہ برحق اور قریب ہے : ’’یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں اور اس روز بھی کریں گے، جب گواہ کھڑے ہوں گے، جب ظالموں کوان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا‘‘(غافر:۵۱)،اور یہ کہ:’’اللہ مؤمنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو، وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا، مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم لوگوں کو غیب پر مطلع کر دے (غیب کی بات بتانے کے لیے تو) اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے توتم کو بڑا اجر ملے گا‘‘۔(آل عمران:۱۷۹)
میں متخاذلین (فکری وعملی طور پران کی مدد سے ہاتھ اٹھانے والوں بلکہ ان کو مجرم ٹھہرانے والوں)کے ذہن ودماغ میں اس حدیث کے الفاظ کو تازہ کرنا چاہتا ہوں جو حافظ ابن حجر نے اپنی ’’الأمالي المطلقۃ‘‘ میں نقل کی ہے کہ نبی کریم انے فرمایا: ’’اے کعب بن عجرہ! اللہ تعالیٰ نادانوں کی امارت وحکومت سے تمہیں پناہ دے، انہوں نے پوچھا: نادانوں کی امارت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد کچھ امراء ایسے ہوں گے جو میری ہدایات سے ہٹ کر رہنمائی کریں گے، میری سنت کے علاوہ کسی اور طریقہ پر چلیں گے، جو ان کے پاس آئے گا، اس کے جھوٹ کی تصدیق اور اس کے ظلم میں مدد کریں گے، نہ وہ مجھ سے ہیں نہ میں ان سے ہوں، وہ میرے حوض پر بھی نہ آسکیں گے، اور جو جھوٹ کی تصدیق اور ظلم کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے ہے، میں اس سے ہوں، اور وہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔۔‘‘۔
قیامت کے دن یہ لوگ کس کے ساتھ حشر چاہتے ہیں؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ زرد رو ہوکر جنہوں نے معصوموں پر ظلم کیا اور بچوں، عورتوں، زخمیوں اور زیر علاج جاں بلب مریضوں کو قتل کرنے میں حصہ لیا، اور جنہوں نے جان کی بازی لگانے والے مردان حر اور آزادی کے متوالوں کو سخت ابتلا وآزمائش میں مبتلا کیا، یا ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے ہرطرح کے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی اسرائیلیوں کو عام اجازت دی یا ان پر سکوت اختیار کیا، اور امدادی قافلوں کو غذا، دوا اور لباس بھی اہل غزہ تک پہچانے سے روک دیا؟ یا مظلوموں کے ہم نواؤں کے ساتھ مسرور وشادکام اور سرخرو۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور یزید بن عبد الملک کے زمانہ میں عراق کے گورنر عمر بن ہبیرہ نے امام حسن بصریؒ اور امام شعبیؒ کو دعوت دی، اور ان دونوں سے گویا ہوا: ’’امیر المؤمنین یزید بن عبد الملک کو اللہ نے اپنے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے، اور لوگوں پر ان کی اطاعت وفرمانبرداری واجب کی ہے، اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے انہوں نے عراق کا گورنر بنایا ہے، پھر میری مملکت میں اضافہ کرتے ہوئے فارس (ایران) کو بھی شامل کر دیا، وہ کبھی کبھی میرے پاس ایسے فرامین بھی بھیجتے ہیں جن کو نافذ کرنے پر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ان کی اطاعت اور خواہی نا خواہی ان کے اوامر کو ماننے کا کوئی شرعی راستہ میرے لیے موجود ہے؟ شعبیؒ نے جواب دیا: آپ مامور ہیں، نتیجہ حکم دینے والے پر ظاہر ہوگا، عمر بن ہبیرہ حسن بصریؒ کی طرف متوجہ ہوئے، انہوں نے کہا: اے ابو سعید! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ دیکھئے ابن ہبیرہ، آپ یزید کے سلسلہ میں اللہ سے خوف کھاتے رہئے، اور اللہ کے سلسلہ میں یزید سے ڈرنے کوئی ضرورت نہیں، جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ یزید سے آپ کی حفاظت فرمائے گا، یزید اللہ کی پکڑ سے آپ کو نہیں بچا سکتا، اے ابن ہبیرہ: قریب ہے کہ آپ کے پاس وہ سخت مزاج فرشتہ آجائے جو اللہ کے حکموں کی نافرمانی نہیں کرتا، اور آپ کو آپ کے اس پایۂ تخت سے محروم کردے، اور آپ کو محل کی وسعتوں سے نکال کر قبر کی تنگیوں میں منتقل کر دے، جہاں آپ کو کوئی یزید نہ ملے، آپ کا سامنا آپ کے اس عمل سے ہو جس میں آپ نے یزید کے مالک کی مخالف کی تھی، اے ابن ہبیرہ! اگر آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت میں لگے رہتے ہیں تو دنیا وآخرت میں وہ یزید کے شر وفتنہ سے آپ کی حفاظت فرمائے گا، اور اگر آپ اللہ کی معصیت کرتے ہوئے یزید کا ساتھ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو یزید کے ہی حوالہ کر کے چھوڑ دے گا، اے ابن ہبیرہ! خوب سمجھ لیجئے کہ خالق کی نافرمانی کے ساتھ مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔
خدا کی قسم اگر یہ لوگ حکام وسلاطین کے دست باطل پرست کی بیعت اور قدم بوسی میں اپنی عزت سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کے ہاتھوں ان کی دنیا کی بربادی لکھ دی ہے توزمین کی کوئی قوت اس کے فیصلہ سےانہیں بچا نہ سکے گی، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے کہ انہیں ان لوگوں کے ہاتھوں سے فائدہ پہونچائے جن کو وہ نصیحت کرنے کی ہمت کریں اور راہ حق دکھائیں تو اللہ کے حکم سے انہیں کے ہاتھوں ان کو بخشش وانعام سے نوازا جائے گا، جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نجات اسی سے وابستہ ہے کہ حق بات کہیں اور کسی ملامت گر کی ملامت کی ہمیں پروا نہ ہو، اگر ہمارے دلوں میں ایمان وعمل کی چنگاری ہے تو ہم تأثر کے مرحلے سے تغیر کے مرحلے میں داخل ہوں اور قول سے عمل کی طرف بڑھیں، مسئلہ کی واقفیت سے دعوت وتربیت کی جانب قدم بڑھائیں، فیصلہ ہمارا ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہ دور تو آکر رہے گا کہ مٹھی بھر ہی سہی نفوس قدسیہ اپنی صفوں کو غزہ کے جانبازوں اور فلسطین کے مردان حر سے ملا دیں گے تاکہ مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہو سکیں ’’ویقولون متی ھو قل عسی ان یکون قریبا‘‘۔
عالم اسلام سے بجا یا بے جا توقع تھی کہ وہ اس آزمائش میں اس قوم کا ساتھ دے گا جو پوری انسانیت کے لیے ایک سرمایۂ افتخار اور قابل قدر ہے، لیکن نام نہاد مسلم ممالک نے کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہ کیا، بلکہ اللہ کے دشمنوں اور خود اپنے دشمنوں کی رضامندی اور خوشنودی میں لگ گئے تاکہ خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ وبرباد کر لیں: ’’تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہیں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں ’’کہتے ہیں‘‘ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں، مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا، تو یہی لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، نادم ہوں گے‘‘۔ (المائدہ:۵۲)۔
غزہ آزادی کی کرن ہے، اور ان شعلوں کی سر زمین بھی جو صہیونیوں اور ان کے پیروکاروں کی جانب سے بھڑکائے گئے ہیں، اس آزمائش سے اہل غزہ کی قوت وثبات میں کوئی فرق نہیں آئے گا، یہ پر اسرار بندے اپنے ذوق خدائی سے پھر ابھریں گے، پہاڑ ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی بن جائے گا، دشمن بے آبرو ہوکر اس کوچۂ عشق ووفا سے نکالا جائے گا، اور ان کی یہ صدا فضاؤں میں گونجتی رہےگی:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا