مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
نتیش حکومت نے ۷/نومبر۲۰۲۳ء کو اسمبلی میں بہار کی معاشی واقتصادی صورت حال کی تفصیلات پیش کیں، اس کے مطابق بہار کی چونسٹھ (64) فی صد آبادی کی ماہانہ یافت دس ہزار روپے سے کم ہے، ان میں سے 9442786 خاندان کی آمدنی چھ ہزار سے بھی کم ہے، 8191390 افراد وہ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی چھ ہزار سے زیادہ؛ لیکن دس ہزار سے کم ہے، ایسے لوگوں کا تناسب 29.61 فی صد ہے، 3.90 فی صد یعنی 1079466 خاندان کی آمدنی پچاس (50) ہزار سے زائد اور 4997142 خاندان وہ ہیں جن کی آمدنی دس سے بیس ہزار کے درمیان ہے، یہ 6.18 فی صد ہیں، بیس ہزار سے پچاس ہزار کے درمیان ماہانہ آمدنی والے خاندان 2720870 ہیں، ان کا تناسب مجموعی آبادی میں 9.83 فی صد ہے،مختلف طبقات میں غربت کا جو جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق جنرل کٹیگری میں 25.09، پس ماندہ طبقات میں 33.16، انتہائی پس ماندہ طبقہ میں 33.58، درج فہرست ذات میں 42.93، درج فہرست قبائل میں 42.70 اور دیگر برادریوں میں 23.72 فی صد غربت پائی جارہی ہے،جنرل کٹیگری میں شامل مختلف برادریوں سے متعلق اعداد وشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ برہمن 25.32، بھومی ہار27.58، راجپوت 24.89، کایستھ13.83، شیخ 25.84، پٹھان22.20 اور سید 17.61 فی صد غربت کی زندگی گذار رہے ہیں، اعلیٰ ذات میں بھومی ہار اور پس ماندہ میں یادو برادری زیادہ غریب ہے، کائستھ کی حالت سب سے اچھی ہے،سرکاری ملازمت بہار میں مجموعی آبادی کے صرف 1.5 فی صد کے پاس ہے، سرکاری ملازمت میں 3.19 فی صد لوگ جنرل زمرے کے ہیں اور سرفہرست ہیں، اس معاملہ میں بھومی ہار سب سے آگے ہیں، جن کے افراد 4.99 فی صدسرکاری ملازمتوں پر قابض ہیں، یادو 1.55، کشواہا2.04، کرمی 3.11، برہمن3.60 اور کائستھ 6.68 فی صد ہیں، 0.4 فی صد بہار کے طلبہ ریاست سے باہر تعلم حاصل کر رہے ہیں جن کی مجموعی تعداد 552116ہے، بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات میں پس ماندہ طبقہ کے 5865 اور انتہائی پس ماندہ طبقہ کے 6446 طلبہ وطالبات ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت کے باوجود ان کے یہاں تعلیم کے سلسلے میں بیداری دوسرے طبقات سے زائد ہے، مجموعی طورپر 23738 طلبہ وطالبات ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں،بہار سے باہر جاکر ملازمت اختیار کرنے والے افراد کی تعداد 5.68فی صد ہے، مجموعی تعداد ان کی 1142755 بنتی ہے، جنرل کٹیگری کے 76326 افراد دوسرے ممالک میں برسر روزگار ہیں، ان کے اعداد وشمار کی روشنی میں بہار سرکار نے طے کیا کہ سرکاری ملازمتوں میں پچھتر (75)فی صد رزرویشن دی جائے، سرکار کی اس تجویز پر کابینہ کی مہر لگ چکی ہے اور اب اسے اسمبلی میں پیش کرکے منظور بھی کرالیاگیا ہے، ضرورت پڑی تو سرکار اس سلسلے میں قانون بھی بنائے گی، رزرویشن دینے کی جو تجویز ہے اس کے مطابق معاشی طورپر کمزور طبقات کو دس فی صد، درج فہرست ذات کو سولہ سے بڑھاکہ بیس فی صد، درج فہرست قبائل کے لئے ایک سے بڑھاکر دو فی صد، انتہائی پس ماندہ طبقات کے لئے ستائیس فی صد سے بڑھاکر پینتالیس فی صد کرنے کی تجویز ہے، معاشی پس ماندگی دور کرنے کے لئے سرکار نے ریاست کے چورانوے (94) لاکھ لوگوں کو اپنا روزگار کھڑا کرنے کے لئے دولاکھ، مستقل روزی روٹی اسکیم کے تحت ملنے والی ایک لاکھ روپے کو دو لاکھ روپے اور سرسٹھ (67) ہزار بے زمین خاندانوں کو رہائشی زمین کے حصول کے لئے ایک لاکھ کی امداد دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
آزادی کے بعد سے درج فہرست ذات،درج فہرست قبائل اور پس ماندہ برادریوں کو رزرویشن دینے اور اس میں اضافہ کرنے کی مہم چلتی رہی ہے، یہ معاملہ ہر دور میں سیاسی رہا ہے، کم نمبر لاکر درج بالا زمرے کے افراد ملازمتوں سے لگ جاتے ہیں اور جنرل طبقے کے لوگ ان کے مقابل زیادہ نمبر لاکر بھی سرکاری ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں، آزادی کی پون صدی سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ بعض مقدمات میں عدالت عالیہ کا فیصلہ ہے کہ رزرویشن پچاس فی صد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے؛ لیکن ریاستی حکومتیں نویں شیڈول کا سہارا لے کر سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں،1951 میں پہلا آئینی ترمیم کرکے آئین کے دفعہ 131 اے اور 31 بی کے تحت اس میں شامل قوانین کو عدالتی تجزیے سے باہر کیا گیا تھا، یعنی جو قوانین نویں شیڈول میں داخل ہے، عدالت کے ذریعہ اس کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا، ابھی نویں شیڈول میں 283 قوانین ہیں، جنہیں مختلف موقعوں سے ترمیم کرکے نویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہے، عدالت کا رخ نویں شیڈول کے خلاف رہا ہے، اس کا ماننا ہے کہ نویں شیڈول میں درج قوانین اگر بنیادی حقوق اور آئین کی بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے تو عدالت اس کا جائزہ بھی لے سکتی ہے اور اسے منسوخ بھی کرنے کا حق عدالت کے پاس محفوظ ہے، شاید اسی وجہ سے نتیش حکومت نے اسے اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ لیا ہے، اس طرح کمنڈل پر منڈل کی فتح یقینی ہو گئی ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ رزرویشن ضرورت کی بنیاد پر دی جائے، منہ بھرائی کے لیے نہیں، اس کو ایک دوسرے طریقے سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جب تک ان کو رزرویشن کی سہولت ملتی رہے گی، مقابلاتی دوڑ میں یہ جنرل طبقات سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے؛ کیوں کہ نفسیاتی طورپر انہیں اطمینان رہتا ہے کہ کم نمبر اور کم صلاحیت کے باوجود ہمارے لئے ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے دروازے کھلے ہیں، یہی وہ نفسیات ہے جن کی وجہ سے آزادی کے اتنے سال گذرنے اور رزرویشن کی سہولت پانے کے باوجود وہ لوگ آج بھی پچھڑے ہوئے ہیں، اس لیے اگر ان کو اعلیٰ ذات کے مقابل کھڑا کرنا ہے تو ان کی برادری والی پس ماندگی کے بجائے نفسیاتی پس ماندگی کو دور کرنا ہوگا، یہی ان کو اوپر اٹھانے کا اکلوتا راستہ اور طریقہ ہے، یہ رزرویشن کی مخالفت نہیں، طریقے میں تبدیل ہونے کی ایک تجویز ہے۔