Slide
Slide
Slide

"فلسطین : قرض اور فرض”

تبصرہ نگار: حسن عمار

"فلسطین – قرض اور فرض "وہ کتاب جسکا کئی دنوں سے شدت سے انتظار تھا پڑھ کر ابھی ابھی فارغ ہوا۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک داستان الم ہے ، رنج و غم میں ڈوبا ہوا ایک مرثیہ ہے، اپنوں کی سادگی کا تذکرہ ہے ، غیروں کی عیاری کا چرچہ ہے ، کچھ کر گزرنے کا پیغام ہے ، مردہ روحوں میں حیات نو پھونکنے کا ایک پیام ہے اور کیوں نہ ہو ، قلب درد مند سے رستا ہوا لہو قلم ہوشمند سے سیاہی بن کر ٹپکا ہے۔ ایک دکھے دل کی صدا ہے ، نقار خانے میں طوطی کا شکوہ ہے، خاموشی کو توڑتی ایک نداے امید ہے۔ صاحب کتاب امت کے مسائل میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ امت کے حالات انکا موڈ طے کرتے ہیں، اور امت پر گزرنے والے واقعات انکی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پوری کائنات میں پھیلی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا کوئ فرد اگر خوش ہوتا ہے تو اس کتاب والے کے لیے اپنے گھر کی کسی خوشی جیسا سماں ہوتا ہے اور اس عظیم خاندان کا کوئ فرد اگر کسی درد و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اسکا کرب اسکے چہرہ پر محسوس کیا جاتا ہے۔ کتاب پڑھنے والے محض کتاب پڑھیں گے ، عمدہ الفاظ و تعبیرات کو سراہیں گے، جملوں کی ساخت و بناوٹ پر داد دیں گے لیکن قریب سے  دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ استاد محترم پر  ۷ اکتوبر سے آج تک کوئ دن تو کیا کوئ محفل و مجلس بھی ایسی نہیں گزری جس میں انہوں نے مسئلہ فلسطین کی حساسیت ، پوری امت سے متعلق اس قرض اور فرض کا تذکرہ نہ کیا ہو، اسی رنج و غم کا  نتیجہ ان مومنانہ صفحات کی تخلیق و ترتیب ہے۔ 

سرورق کتاب کے عنوان سے پورا انصاف کرتا ہے، خون فلسطین کے چھینٹوں کے نیچے مسجد اقصی کے مکمل احاطے کی ایک ماڈل تصویر ہے جو اس ۳٦ ایکڑ زمین پر موجود تمام ابواب و مساجد کا تعارف ہے۔

’’فلسطین: قرض اور فرض ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

اصل کتاب شروع کرنے سے پہلے جو صفحہ آپکی توجہ ایک بار پھر اپنی جانب مبذول کراے گا اور دل و دماغ پر دستک دے گا وہ اس کتاب کا انتساب ہے، جو نہ صرف ضمیر پر ایک چوٹ لگاے گا بلکہ مجاہدین اقصی کے لیے محبت و عقیدت میں اضافہ کا باعث بھی بنے گا۔ اسکے بعد حسب معمول استاد محترم کے قلم سے تقریبا ۱۰ صفحات پر مشتمل ایک جاندار مقدمہ ہے جسکا اسلوب ، زبان و بیان ، انداز و آہنگ سب مؤمنانہ جرأت و حمیت سے لبریز ہے ، اور اگلے صفحات کا حقیقت میں مقدمہ ہے ۔ اگلا مضمون حالیہ ۷ اکتوبر سے شروع ہوے "طوفان اقصی” کے متعلق گفتگو ہے جو اگرچہ پہلے بھی ماہنامہ نداے اعتدال میں شائع ہو چکا ہے لیکن یہاں ایک لڑی میں مربوط ہوکر اسکی اہمیت و افادیت دو چند ہوجاتی ہے۔ اگلے ۷۰ کے قریب صفحات میں علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے کتاب "القدس قضیة كل مسلم” کے مختلف مضامین کی تلخیص ہے ، کہیں ترجمہ ہے کہیں ترجمانی ہے لیکن سلاست و روانی کے اعتبار سے ہر مضمون اپنے آپ میں ایک مکمل تحریر ہے۔ ان مضامین میں سب سے زیادہ مفید اور علمی اعتبار سے اس کتاب کا سب سے زیادہ نفع بخش مضمون جو مجھے محسوس ہوا وہ "اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان معرکہ کی حقیقت” ہے۔ اسمیں  یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کا اصلی سبب کیا یے ؟ یہودیوں کے تاریخی اور دینی دعوی کی کیا حقیقت ہے؟ اسکو مختصرا بیان کرنے کے بعد قرآن کا فیصلہ کن موقف بیان کردیا گیا ہے کہ صرف اور صرف امت اسلامیہ اسکی اہل ہے کہ وہ انبیاء کی وراثت پاے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اہم تاریخی حقائق بیان کرتے ہوے مستند کتابوں اور دستاویزات کا حوالہ دے دیا جاتا ، ممکن ہے خوف ضخامت و  طوالت دامن گیر ہو، اگرچہ حوالوں کے لیے علامہ قرضاوی کی کتاب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے، لیکن کتب بینی اور صفحہ گردی کے اس دور زوال میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضروری حوالے یہاں بھی دے دیے جاتے کہ اس سے بات مزید پختہ اور مستند ہوجاتی ہے۔ 

اس بعد اگلے چند صفحات میں علامہ راغب السرجانی کی کتاب "فلسطین- واجبات الامۃ” کے چند مضامین کی تلخیص کے ذریعہ امت کے مختلف طبقات کو رہنمائ فراہم کی گئ ہے کہ وہ ارض مقدسہ کے اس قضیہ میں کس طرح ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں ، کیوںکہ ضروت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد اور ٧ بر اعظم پر پھیلے اس عظیم خانوادے کا ہر گھر اور ہر گھر کا ہر فرد اس مسئلہ کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھے اور محسوس کرے، اس موضوع کو حدیث المجالس بنایا جاے تاکہ اس مشترک دینی اور تاریخی وراثت کے حق کا کوئ ذرہ ادا کرنے کے لائق بنا جاسکے۔ 

آخری مضمون جو بقولِ خود مصنف اس کتاب کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جس میں کہیں گلہ و شکوہ ہے تو کہیں فریاد و نوحہ ہے،  مقصود و مطلوب صرف ایک ہے کہ سوئ ہوئ امت کو پھر ایک بار جگایا جاے ، بھولے ہوے سبق کی یاددہانی کرائ جاے اور احساس دلایا جاے کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ اقصی کی تعزیت کرنی پڑجاے اس مبارک سرزمین کی عیادت کرلی جاے اور اس راستہ میں جو کچھ لگایا جاسکتا ہے لگا دیا جاے ، اور جو کچھ کیا جاسکتا ہے کر گزرا جاے۔  

کتاب الحمد للہ اردو املاء کی غلطیوں سے تقریبا پاک ہے کہیں کہیں انگریزی الفاظ میں spelling کی غلطیاں ہیں جو امید ہے آئندہ ایڈیشن میں صحیح کردی جائیں گیں۔ کہیں کہیں مباحث میں ایک ہی بات کئ انداز سے کہنے کی کوشش کی گئ ہے جس سے اگرچہ طوالت محسوس ہوتی ہے اور repetition کا احساس ہوتا ہے لیکن ممکن ہے یہ میرا اپنا کوتاہ تاثر ہو اور موقع محل کی مناسبت سے اسکی ضرورت ہو۔ 

الغرض اردو میں قضیہ فلسطین پر لٹریچر کی کمیابی کا جو شکوہ صاحب کتاب نے مقدمہ میں بیان کیا ہے، اس خلاء کو یہ کتاب بہت حد تک پر کرتی ہے اور امید کی جاتی ہے مستقبل میں اہل علم اور ارباب قلم مختلف نواحی سے اس موضوع کا جائزہ لیں گے اور مزید علمی کاوشیں منظر عام پر آئیں گیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: