Slide
Slide
Slide

حاسدوں کے شر سے اللہ کی پناہ

مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

حســــــد کسی دوسرے کی نعمت وراحت، صلاحیت وصالحیت جاہ ومنصب ، مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر جلنا اور پھر اس کے زوال کا خواہش مند ہونا، بلکہ اس کے زوال کی ہر ممکن تدابیر اختیار کرنا حسد کہلاتا ہے، شریعت کی نظر میں یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، حسد کے گناہ کا صدور پہلی بار آسمان پر ہوا تھا، جب ابلیس نے حضرت آدم کو خلیفۃ اللہ قرار دینے سے حسد کیا اور اس گناہ کی وجہ سے  وہ راندہ درگاہ ہواتھا، دنیا میں سب سے پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے صاحب زادگان کے درمیان حسد کا ہوا،جس کے نتیجہ میں قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا، پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا حضرت یوسف علیہ السلام تک پہونچا ان کے بھائیوں نے ان سے حسد کیا اور اس کے نتیجہ میں ان کو کنوئیں میں ڈال دیا تاکہ کم از کم وہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور بھائیوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں، کوئی مسافر انہیں نکال کر کسی دوسری جگہ لے جائے، مکہ کے مشرکین کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے مرحلے میں رسول نہیں ماننے اور ایذا پہونچانے میں اسی حسد کا دخل تھا، تبھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کو رسول بنانے کے لیے (نعوذ باللہ ) کوئی اور نہیں ملا تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے آپ کا ہونا بھی حسد کا سبب تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل میں جتنے نبی آئے وہ سب حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے، یہودیوں میں آج تک جو نفرت مسلمانوں سے پائی جاتی ہے ان کے بہت سارے اسباب میں سے ایک حسد بھی ہے۔

حسد کرنے والوں کو پہلا نقصان تو خود ہی پہونچتا ہے کہ وہ دوسرے کی ترقیات کو دیکھ کر جلتا ، کڑھتا رہتا ہے، وہ خود کچھ نہیں کرتا، لیکن سامنے والے کے سلسلے میں زوال نعمت کا طلب گار ہوتا ہے، حسد کا نقصان جس سے حسد کیا جائے اس کو اس وقت پہونچتا ہے جب حاسد زوال نعمت کے لیے تدبیریں کر نے لگے، اسی لیے اللہ رب العزت نے سورہ فلق میں حاسدوں سے اس وقت  پناہ چاہنے کو کہا ، جب وہ حسد کرنے لگے۔

 حسد کرنے والا ہمیشہ اذیت میں مبتلا ہوتا ہے، میرے گاؤں میں میرے ہی ایک ہم عصر تھے جو مجھ سے بہت حسد کرتے تھے، میں جب کہیں تقریر کرتا تو وہ بے تحاشہ رونے لگتے ،میں نے ایک بار  ان سےپوچھا کہ آپ پر رقت اور گریہ کیوں طاری ہوتی ہے تو کہنے لگے کہ میں سوچتا ہوں تم مجھ سے ایک سال چھوٹے ہو اور اس قدر آگے بڑھ گیے اور میں کچھ نہیں کر پایا، میں نے کہا کہ میرے ساتھ چلتے تو کوئی مقام حاصل کر سکتے تھے، لیکن مھے دیکھ کر کڑھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا، ان کا جسم اس جلن کی وجہ سےا نتہائی لا غر ہو گیا تھا، بعد میں دماغی توازن بھی جاتا رہا، اور بالآخر جلتے کڑھتے ہی وہ موت کی نیند سو گیے۔

 حسد میں زوال نعمت کی حاسد کس قدر تدبیریں کرتا ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کے لیے زوال نعمت کی دعا کرانے کسی بزرگ کے پاس پہونچ گیا، بزرگ نے فرمایا کہ میں کسی کے لیےزوال نعمت کی دعا تو نہیں کر سکتا، البتہ میں تمہاری ترقی کی دعا کر سکتا ہوں، حاسد نے کہا یہی صحیح، بزرگ نے کہا کہ دعا قبول ہونے پر تم جس سے حسد کرتے ہو اس کو تم سے دو گنا مل جائے گا، یہ بات حاسد کو انتہائی بری لگی ، بزرگ نے کہا بولو کیا کروں دعا کروں، کہنے لگا کہ دعا کر دیجئے کہ میری ایک آنکھ پھوٹ جائے تاکہ  اس کی دونوں آنکھیں چلی جائیں اور وہ پورا اندھا ہو کر کسی کام کا نہ رہے، میرے پاس ایک آنکھ بچے گی ، میں اسی سے کام چلا لوں گا۔

شریعت نے اسی لیے حسد کرنے سے منع کیا اور حاسدین سے اللہ کی پناہ چاہنے کی تلقین کی اور ارشاد فرمایا:أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ (النساء54) لوگ دوسرے آدمیوں سےان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ رب ا لعزت نے بطور فضل انہیں عطا کیا ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے، دیلمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ جس طرح ایلوا شہد کو خراب اور برباد کر دیتا ہے ویسے ہی حسد ایمان کو فساد میں مبتلا کر دیتا ہے، طبرانی میں ہے کہ جب تک آپس میں لوگ حسد نہیں کریں گے خیر پر رہیں گے  اور فرمایا : حسد کرنے والا مجھ سے نہیں ہے۔ حاکم اور دیلمی نے یہ بھی نقل کیاہے کہ ابلیس اپنی ذریات کو انسان میں ظلم وحسد کی تلاش کا حکم دیتا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں انسان کو شرک تک پہونچا دیتی ہیں۔

اپنے بھائیوں کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر جو لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ بھی حاسدین میں ہے،یہ بھی ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اس کے بھائی کو پریشانی اور مصیبت سے نجات دے کر اس کو اس مصیبت میں مبتلا کر دے ۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حاسدین کو قیامت میں سخت ندامت اور شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا، کیوں کہ دوسروں کی دنیا پر حسد کرکے اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی، کیوں کہ آخرت میں حاسد کی نیکیاں محسود کو دیدی جائیں گی، مکافات نہیں ہوگا تو محسود کا گناہ بھی حاسد کے سر ڈال دیا جائے گا۔ یعنی نیکی برباد ، گناہ لازم

بخاری ومسلم کی مشہور روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے دشمنی ، باہم حسد اور قطع تعلق نہ کرو، اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، آپس میں رابطہ بنا رہے ، اس کے لیے حکم ہوا کہ کسی مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے بات چیت بند رکھنا جائز نہیں ہے۔

 در اصل حسد کرنے والا اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا کیوں کہ اگر راضی ہوتا تو اپنے بھائی کو اللہ کی جانب سے دی جانے والی چیزپر راضی رہتا اور اس کے خلاف اس کے دل میں حسد پیدا نہیں ہوتا، آپ نے بار بار یہ بات سنی ہوگی کہ مولوی بہت اچھا کھاتا ہے، یہ کہنا بھی کم تنخواہ کے باوجود مولوی کی اچھی رہائش ، بود وباش سے حسد کی وجہ سے کیا جاتا ہے، ایسا کہنے والا اس بات کو بھول جاتا ہے کہ رزق کی تقسیم اللہ نے کی ہے ، کسی کے حصے میں کچھ رکھا اور کسی کے حصہ میں کچھ ، گویا ایسے جملے کہنے والا اللہ کی اس تقسیم سے نا خوش ہے، جو اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان کی ہے، اسی لیے حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ حسد نہ کیا کرو، اس لیے کہ تمہارے بھائی کو جو نعمتیں حاصل ہو ئی ہیں وہ اگر اللہ رب ا لعزت نے بطور انعام دیا ہے تو تمہیں اس شخص سے حسد کرنے کا جواز اس لیے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے انعام یافتہ ہے اور اگر اللہ نے اسے ابتلا وآزمائش کے طور پر یہ نعمتیں دی ہیں تو بھی حسد نہ کرو، اس لیے کہ اگر وہ اس ابتلا  وآزمائش سے اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں نکلا تو جہنم اس کی منتظر ہے۔

 حسد ہی کی طرح ایک چیز رشک ، غبطہ اور منافست ہوا کرتی ہے، اس میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال نہیں چاہتا بلکہ اپنے اندر وہ چیزیں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ نا جائز اور حرام نہیں ہے، خیر کے کاموں میں مسابقت شرعی طور پر مطلوب ہے، اللہ رب العزت نے سورۃ مطففین کی آیت فلیتنافس المتنافسون میں یہی بات کہی ہے، فقہاء نے رشک اور منافست کے درجات فرض، واجب، مستحب اور جائز کے طور پر بیان کیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسےلوگوں کے بارے میں جس نے قرآن کریم کے علم کے ساتھ حلال وحرام کو جانا اور اس پر عمل کیا اور دوسرے وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، رشک کرنے کو درست قرار دیا ہے۔

 اس لیے حسد سے آخری حد تک گریز کرنا چاہیے اور اس سے بچنے کی شکل حضرت ابو درداء نے یہ بتائی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا جائے اور محسود کے بارے میں مدح وستائش کے الفاظ نقل کیے جائیں، دل سے کینہ کدورت، بغض وعداوت نکال دیا جائے ورنہ یہ جہنم تک پہونچا نے کا ذریعہ بن جائے گا، اور دنیاوی زندگی بھی جہنم بن جائے گی ۔

حسدجب کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتا اپنی ذریت کو بھی ساتھ لاتا ہے کہنا چاہیے کہ منکرات کی پوری فوج اس کے ساتھ ہوتی ہے۔جن میں سے ہر ایک تنہا جہنم رسید کر نے کے لیے کافی ہے۔مثلا حاسد کے دل میں محسدود کی جانب سے کینہ بھرا ہوتا ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ کینہ کدورت کے ساتھ آدمی جنت میں نہیں جاسکتا ہے ۔اسی لیے اللہ رب العزت نے ایمان والوں سے کینہ رکھنے سے منع کیااور ایک صحابی کے بارے میں کینہ نہ رکھنے کی وجہ سے جننتی ہونے کا بار بار اعلان فرمایا۔حاسدین کے دلوں میں چھپے کینے بعض وعداوت کاذریعہ بھی بنتے ہیں۔یہ عداوت بڑھ کر محسود کو نقصان پہوںچانے کے کام آتے ہیں۔جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کےبھاءیوں نے کنویں میں ڈال کر نقصان پہونچا نے کا ارادہ کیا ۔بات جب آگے بڑھتی ہے تو حاسد محسود کو قتل کرنے کی سوچتا ہے کبھی یہ کام وہ خود کر گذرتا ہے جیسا قابیل نے ہابیل کے ساتھ کیا۔اگر وہ خود اس پر قادر نہیں ہوتا تو دوسروں سے پیسے دے کر کراتا ہے جسے آج کی اصطلاح میں سپا ری دینا کہتے ہیں۔غرض حسد میں نقصان ہی نقصان ہے۔کاش مسلمان اس بات کو سمجھ پاتے۔

اللہ ہم سب کی حسد سے حفاظت فرمائے اس کے لیے ہمیں ہر دم اللہ کی پناہ چاہنی چاہیے۔جس کا طریقہ اللہ رب العزت نے خود ہی قرآن مجید میں سکھایا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: