از: رضی احمد مصباحی
ہمارے ملک بھارت میں اس وقت مسلمانوں کے لیے جان ومال کے تحفظ سے بھی بڑھ کر ایمان کا تحفظ اور اس کی فکر وقت کا جبری تقاضہ بن چکا ہے ہے ۔ ہر دن کسی نہ کسی علاقے سے ارتداد کی خبر آرہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب اتنی شدت کے ساتھ شیطان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مسلم معاشرے پر حملہ آور ہے اور ہمارا فکری ڈھانچہ اس کے دفاع میں یکساں معذور ہے ۔ دشمن نے اتنی چابک دستی اور افرادی قوت کے ساتھ ہماری غیرت ایمانی پر دھاوا بولا ہے کہ ہزاروں تنظیموں کی دن رات کی محنت اس کے سامنے چرمرا کر رہ گئی ہے ۔ دشمنان اسلام کی اپنی نسل کی تربیت اور نتائج کے عروج کا زمانہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں کاغذی اعدادوشمار کے مطابق صرف لڑکیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہوچکی ہے ۔ اب رہ رہ کر لڑکوں کے اور پورے پورے خاندان کے ارتداد کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔ ہماری تنظیمیں اور ہمارے افراد کو جس موثر طریقے سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیئے تھا اس میں ہم مکمل ناکام ہیں یا یہ کہ لیں کہ ان دس سالوں میں ہم بھگوا لوٹریپ کے بھیانک نتائج سے ہی اپنی قوم کی بیٹیوں کو باخبر نہیں کرسکے ہیں ۔ ہم نے دین کی تبلیغ کو مسلکی تبلیغ کی شکل میں تبدیل کردیا اور اپنی آواز کو اپنے افراد تک پہونچا کر واہ واہی لوٹنے کو ہی کامیابی سمجھ بیٹھے ۔
مسلم معاشرے میں اسکولی تعلیم کی زمین سے ارتداد کا آتش فشاں پھوٹ پڑا ہے اور ہم ہیں کہ رات ودن اپنی ڈگڈگی بجائے پھر رہے ہیں ۔۔
پورے ملک میں کوئ ایسا دن نہیں جاتا جب ہم کوئ جلسہ نہ کرتے ہوں لیکن مجال ہے کہ کوئ جلسہ ارتداد کے خلاف بھی کر لیں ۔۔سیمنار کانفرنسیں ،ورک شاپ ہر آئے دن کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے فوائد اور نقصانات سے بے پرواہ بھی ہیں ۔۔
ہمارے پاس مدارس کی بڑی تعداد ہے ، علماء کی کمی نہیں ہے ۔نام نمود کے لیے ہی سہی دین کے نام پر خرچ کرنے والے افراد سب سے زیادہ ہماری قوم کے پاس ہیں ۔ پورے ملک میں مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ مسلم آبادی میں ہر دس قدم پر مساجد ہیں لیکن اس کے روحانی اور دینی اثرات سے پورا معاشرہ پاک ہے ۔
ہزار کوشش اور تنظیمی خدمات کے باوجود مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی میں کوئ فرق نہیں آیا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم معاشرے کا نوے فیصد نوجوان عملی اور فکری ارتداد کے دوراہے پر کھڑا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ رات کے ایک ایک بجے دو دو بجے تک مسلم نوجوان گھر سے باہر مٹر گشتی کرتے اور ہلڑ بازی کرتے دکھ جاتے اور بے شرمی کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ نوجوانوں میں نہ کوئ ادب ہے نہ تمیز ہے ۔ نہ کسی کا خوف ہے اور نہ اپنی برباد ہوتی جوانی کا کوئ لحاظ ۔۔۔ دن چڑھے تک سونا ، جاگنے کے بعد آوارا گردی کرنا ، اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چوری چکاری کرنا ، تعلیم سے دوری بنائے رکھنا اور اسکول اور مدارس سے گدھے کے سینگ کی طرح بھاگنا مسلم نوجوانوں کی پہچان ہے ۔
پورے ملک میں مسلمانوں نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ بیٹیوں کو پڑھانا ہے اور بیٹوں سے آوارا گردی کرانا ۔
وجوہات کیا ہیں:
بچپنے میں لڑکوں کو زیادہ لاڈوپیار اور بے جا دلجوئی کرنا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ جس عمر میں لڑکوں کو مدرسے اور اسکول کی تعلیم کے لیے بھیجنا چاہیے اس عمر میں لڑکے چاکلیٹ کھاکر مٹر گشتی کرتے ہیں ، اسکول اور مکتب گئے بھی تو برائے نام ۔ صرف اساتذہ کو پریشان کرنے ، انہیں گالیاں دینے اور لڑکیوں سے آنکھ مچولی کرنے جاتے ہیں ۔ سات سال اور دس سال کے لڑکے عشق کی آگ اپنے دل میں جلانے کے لیے بے تاب ہیں ۔۔۔ ان باتوں کی طرف نہ باپ کی توجہ جاتی ہے اور نہ ہی ماں کو کوئ فکر ہوتی ہے ۔
اردتداد کی سب سے تیز لہر کہاں ہے:
برقع پوش مسلم بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ گھومتی ہوئ ، ہوٹلوں میں جاتی ہوئ ، ریسٹورینٹ میں آنکھیں مٹکاتی ہوئیں سب سے زیادہ آندھرا پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹرا میں دیکھی جاتی ہیں ۔۔ ان تین ریاستوں کی لڑکیوں نے سارے حدود پھلانگ دیئے ہیں ۔ بے شرمی کی انتہا تو اس وقت دیکھنے کو ملتی جب انہیں اس بری حرکت پر کوئ باغیرت ٹوک دے ۔ اس وقت ان مسلم بچیوں کی زبانیں کیچی کی طرح چلتی ہیں ، لگتا ہی نہیں ہے کہ کسی با حیا خاندان میں ان کی پرورش بھی ہوئ ہے ۔
ان علاقوں میں علاقائ علماء بہت ہی کم ہیں جو ہیں بھی تو اپنی دنیا میں مست ہیں ۔ مہاجر علماء ان علاقوں میں کس مپرسی کی زندگی جیتے ہیں ۔۔مدرسوں اور مسجدوں پر نااہل جہلا کا قبضہ ہے ۔ دین سے بیزار اور معاشرے کے اشرار لوگ دینی ادارے پر قابض ہیں ۔ ہر آئے دن مساجد کے ائمہ تبدیل ہوتے ہیں اور چھ سات مہینے میں مکاتب کے اساتذہ بدل دیئے جاتے ہیں ۔۔ ان سب کا اثر نئی نسل پر پڑتا ہے ۔ ۔۔۔ ایک جگہ سے خبر ہے کہ ایک صاحب ہیں جو ہمیشہ علماء اور ائمہ کی عیب جوئی میں لگے رہتے تھے ۔ حالیہ دنوں ان کی بیٹی غیر مسلم کے ساتھ بھاگ گئی ، اب موصوف نے مسجد آنا بھی بند کردیا ہے ۔
ایسے لوگ اپنے گھروں میں بھی علماء کی برائ کرتے ہونگے ، اپنے بچوں کے سامنے بھی دین دار بن کر بے دینی پھیلاتے ہونگے ۔ اس کا منفی نتیائج بھی ہیں ، ایسے گھر کے بچے مسلم بیزار اور دین بیزار بن کر اپنے باپ کا سر اونچا ہی کرسکتے ہیں ۔ باپ دادا مساجد ومدارس اور علماء واساتذہ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، نت نئے طریقے سے علماء پر الزام دھرتے ہیں ، علماء کی رسوائ کا سامان کرتے ہیں اللہ ان کی رسوائ کا سامان ان کے گھر میں کردیتا ہے ۔
اس ماحول کے بچے جب مکتب پڑھنے آتے ہونگے تو ان کا کیا حال ہوتا ہوگا ہر ذی ہوش اسے سمجھ سکتا ہے ۔ خاص کر اس ماحول میں کہ بچوں کو معلوم ہوکہ ہمارے استاذ ہمارے باپ کے سامنے کوئ حیثیت نہیں رکھتے ۔ یا یہ کہ ارے ! یہ تو وہی استاذ ہیں جن کی برائ ہمارے باپ دادا کرتے ہیں ۔۔۔ خود سوچیے کیا اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والا بچہ اپنے نئے نئے استاذ سے دین سیکھے گا ؟ اس کے ذہن میں مذہبی لوگوں کے خلاف گندگی بھرنے کا کام تو اس کے گھر سے ہورہا ہے ۔ پھر صبح ، شام کی ٹی وی ڈیبیٹ سے اسے مزید تقویت مل جاتی ہے کہ ہمارے باپ دادا ہی صحیح ہیں اور مولوی ، علماء اور ائمہ حضرات واقعی غلط ہوتے ہیں ۔
جری اور آنکھیں دکھانے والے بچوں کے سامنے نظریں نیچی اور سر جھکائے پڑھانے والے کی پڑھائ کا ایسے نڈر ، شاطر اور چالاک بچوں کے ذہن پر کیا اثر پڑےگا ۔ ؟ میرے ایک دوست جنوب انڈیا میں ایک مکتب میں پڑھاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی لڑکے لڑکیاں پڑھنے آتے ہیں لیکن جوان ہونے تک ان کو نہ ڈھنگ سے قرآن پڑھنا آتا ہے اور نہ ہی دین کی کوئ بات سمجھ میں آتی ہے ۔ بچوں کی شرارتیں اس قدر قبیح ہوتی ہیں کہ شریف الطبع استاذ اسے دیکھ دیکھ کر نفسیاتی مریض ہوجاتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے مکمل دباؤ رہتا ہے کہ اساتذہ بچوں کو ڈانٹنے سے بھی پرہیز کریں ۔( ہمارے ملک میں قانون بن گیا ہے کہ بچوں کو مار نہیں سکتے لیکن جن لوگوں نے قانون بنایا ہے ان کے بچے کیا انڈیا میں ہی پڑھتے ہیں ؟ یہ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ؟ ) اگر کبھی غلطی سے کسی بچے کو استاذ نے ڈانٹ دیا تو پورا خاندان جنگلی جانوروں کی طرح پل پڑتا ہے کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ امام صاحب یا استاذ مہاجر ہیں اور ان کا یہاں کوئ ساتھ دینے والا بھی نہیں ہے ۔ چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے اس قدر شاطر ذہن کے ہوتے ہیں کہ ایک عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ” میں نے ایک بچی کی کثرت غیر حاضری پر اسے سختی سے ڈانٹا اور غیر حاضری نہ کرنے پر زور دیا تو ، اس کے ساتھ رہنے والی دوسری بچی نے اسے سمجھایا کہ اپنے گھر میں جاکر کہو کہ استاذ نے گندی گالی دی ہے وہ بھی یہاں کی لوکل زبان میں ۔ بچے کے ماں باپ نے فون کیا تو مدرسے میں لگے سی سی ٹی وی سے وڈیو نکال کر ان کو بھیجا گیا کہ دیکھ لو تمہارے بچے کس طرح الزام لگارہے ہیں ۔۔۔ ایک مدرسے میں ایک استاذ پر ایک چارسے پانچ سال کی بچی کے ذریعے یہ الزام لگایا گیا کہ ” استاذ اس چار ، پانچ سال کی بچی کے ساتھ گندے اشارے کرتے ہیں اور غلط طریقے سے چھوتے ہیں ، وہاں بھی سی سی ٹی کی مدد سے جب دیکھا گیا تو سب کچھ جھوٹ ہی نکلا ۔
جنوبی ہند کے اسکولوں میں ننانوے فیصد لڑکیاں معلمہ کے فرائض انجام دیتی ہیں ۔ بیس سال سے پینتیس سال تک کی لڑکیاں تدریس کے فرائض سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ مرد برائے نام صرف کلرکی کی حد تک ہیں وہ بھی ایک دو یا واچ مین ۔۔۔۔ بیس سال کی لڑکی جب اٹھارہ سال کے لڑکے کو پڑھانے کے لیے آتی ہوگی تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی ؟ لڑکوں کے دماغ میں کیا کیا چل رہا ہوگا ؟ لڑکیاں کس حدتک ایسے اوباش لڑکوں پر کنٹرول کرسکتی ہونگی تعلیم وتدریس سے جڑے ہوئے ہر شخص کو اس کی خبر ہے ۔۔ حالت یہ ہے کہ کلاس میں معلمہ بورڈ پر کچھ لکھتی ہیں اور پیچھے بچے بیٹھ کر کلاس کو مچھلی بازار بنائے رہتے ہیں ۔ تمام اسکولوں کا یہی حال ہے ۔ اب یہ سسٹم مکاتب میں بھی لاگو ہوا چاہتا ہے ، جس کے نتائج بہر حال بہتر نہیں ہوسکتے ۔ یعنی اب مکاتب میں بھی نوجوان اور نوخیز لڑکیاں تدریسی فرائض پر معمور کی جارہی ہیں ۔۔۔ ایسے حالات میں جب کسی مکتب میں دو سے تین بچے بھی شریر ذہن کے ہونگے تو پورے مکتب کا کیا انجام ہوگا اورمرد اساتذہ پر کیسی قیامت گزرتی ہوگی اس کا ہم اور آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔
ایسے ماحول میں برقع پہن کر قرآن پاک ناظرہ کی الٹی پلٹی تعلیم ، چند دعائیں ، چند سورتیں ، وضو کے فرائض ، غسل کے فرائض تک بڑی مشکل سے یاد کرکے جب بچیاں کالج میں قدم رکھتی ہونگی تو ان کے ذہن ودماغ پر غیر ضروری ماحول میں حاصل شدہ اس علم کا کتنا اثر ہوگا یہ تعلیم وتعلم سے جڑے ہر شخص پر آشکارا ہے ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کے بعد انہی بچیوں کو دین سیکھنے اور دینی ماحول میں جانے کی کسی طرح کی کوئ اجازت نہیں ملتی ، نہ مساجد میں جمعہ کے خطابات سے انہیں فائدے حاصل کرنے کا کوئ حق ہوتا ہے حالانکہ ہماری نوے فیصد مساجد میں ہونے والی خطابت بھی لایعنی ہوتی ہیں ۔ کرناٹک ، مہاراشٹرا ، آسام ، آندھرا پردیش ، بنگال اور دہلی میں مسلم بچیاں اسکوٹی لے کر جہاں چاہیں جاسکتی ہیں کوئ پابندی نہیں ہے لیکن مساجد نہیں جاسکتیں ۔ ۔
سب سے خاص بات یہ کہ ارتداد کی شدید لہر مخلوط آبادی میں ہے ۔ ایسی ابادی جس میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، پس ماندہ ہیں ، غیر تعلیم یافتہ ہیں اور بڑی مشکل سے گھربار چلا پاتے ہیں لیکن اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں ، ایسے مجبور اور بے بس باپ کی بچیاں زیادہ تر ارتداد کی شکار ہورہی ہیں ۔ غیر کا ماحول ، روز کی ملاقات ، ٹی وی سیریل کا ہوس پرستانہ مزاج اور اوپر سے ہم عمر لڑکیوں کی عشق کی کہانیاں انہیں عشق کے دل دل میں ڈھکیلتی ہیں جہاں سے اپنا جسم ناپاک اور اپنا ایمان برباد کرنے کے بعد بھی یہ بچیاں واپس نہیں ہو پاتی ہیں۔
بچیوں کے مدرسوں کا بھی عجب حال ہے ۔ بے شمار مدارس کھل چکے ہیں لیکن ان کی انتظامیہ کو یہی پتہ نہیں ہے کہ بچیوں کو کیا پڑھانا ہے ؟ حالات کیسے ہیں ؟ کون سی بچیاں کس ماحول سے آرہی ہیں ؟ کون کس ذہنی اور فکری بیماری کا شکار ہیں؟ ۔۔۔ درس نظامی سے ملتا جلتا ایک نصاب ترتیب دیے لیتے ہیں اور اس کے چند اوراق پڑھاکر کر عالمہ بناکر باہر نکال دیتے ہیں ۔۔ اس جنگی صورت حال میں کیا اس طرح کا نصاب بچیوں کے ایمان کے باب میں کفایت کرےگا ؟ چند دنوں پہلے ایک بچی آئ تھی ، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ عالمہ کا کورس کررہی ہے ۔؟ یہ پوچھنے پر کس جماعت تک تعلیم حاصل کر چکی ہو ؟ بچی نے اولی کا نام بتایا اور کتابوں کی فہرست میں دروس البلاغہ کو شمار کرایا ، پہلے تو مجھے یقین نہیں ہوا لیکن جب اس کی کتابیں نکال کر دیکھی گئیں تو واقعتا ایسا ہی تھا ۔۔ اب سوچیے کہ جس بچی کو جماعت اولی میں دروس البلاغہ جیسی کتاب پڑھائ جارہی ہوگی اس کے پلے کیا پڑرہا ہوگا ۔؟ ایک سال دوسال بعد عموما بچیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں تو اب بتائیں کہ کیا اگر ایسی بچیاں کسی تربیت یافتہ سنگھی کے چنگل میں پھنس گئیں تو وہ اپنا ایمان بچاپائیں گی ؟
شادی میں بلاوجہ کی تاخیر بھی عشق کے راستے ارتداد کی طرف لے جاتی ہے ۔ موبائل فون پر موجود ہر طرح کے مواد سے بچیوں کا خود کو بچاپانا آگ کے شعلوں پر ننگے پیر چلنے جیسا ہے ۔ شادیوں کو سستی کریں ، مالدار حضرات سے بڑے علماء خصوصی ملاقات کریں اور انہیں اس بات کی ترغیب دیں کہ آپ کی دکھاوے کی شادی سے ، نام ونمود کے اخراجات سے کمزور مسلمانوں کو شادیاں کرنے میں پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہر آدمی خواہشات کے پتھر تلے دبا ہوا ہے ۔ بے جا رسم رواج اور جہیز کی لعنت نے معاشرے کی اخلاقی حالت تباہ کردی ہے ۔ لین دین اور جہیز کے خلاف محاذ کھولنا وقت کا جبری تقاضا ہے ۔
مسلم بچوں کی ذہنی تربیت بہت ضروری ہے ، مسلمانوں کو اپنا معاشرہ انسانی بنانے کی فکر کرنی چاہیے ۔ مسلمان بچوں کی آوارہ گردی کی وجہ سے بھی مسلم بچیاں ان سے نفرت کرتی ہیں اور بظاہر سلیقے میں دکھنے والے سنگھیوں کی جال میں پھنس جاتی ہیں
کرنے کے کام :
- مسلمان اپنی مساجد اور مکاتب کی انتظامیہ پر توجہ دیں ۔
- جاہل ، اوباش ، شاطر قسم کے افراد کو مساجد ومدارس کے انتظامات سے بے دخل کریں ۔
- مساجد میں اچھے علماء رکھیں ، ان کی عزت کریں اور بچوں کے سامنے اپنے علماء کی برائ سے پرہیز کریں کیونکہ بچوں کے سامنے علماء کی برائ سے بچے نہ صرف علماء بیزار بلکہ دین بیزار بھی ہونے لگے ہیں ۔
- مکاتب کی تعلیم کو بامقصد بنائیں ۔
- مکاتب میں غیر مہذب طلبہ کی اصلاح کا خاص انتظام ہونا چاہیے اور الگ ہونا چاہیے ۔
- تدریس کا مکمل نظام بچیوں / عورتوں کے حوالے کرنے سے بھی بچوں کے تعلیم ور اخلاق کردار کا ماحول بگڑ رہا ہے ۔
- عورتوں کے لیے مساجد میں الگ انتظامات کیے جائیں ۔
- جمعہ کے طرزپر ہر علاقے میں عورتوں کے لیے بھی خطابات کا انتظام ہو ۔
- ہر ماں باپ اپنی بچیوں کی فکر کریں ۔ اندھا اعتماد کرنے سے بچیں ۔