صحیح ترجیحات اور درست میدان عمل

تحریر: سید شعیب حسینی ندوی

ہم اپنے ملک عزیز میں جن چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پوری ملت اسلامیہ جس فیصلہ کن معرکہ سے نبرد آزما ہے وہ ہمارے فکری، عملی، دعوتی، سماجی کاموں کے رخ کو طے کرنے والا ہونا چاہیے۔
اگر ہماری توجہ ان حقیقی مسائل سے کٹ کر دوسرے غیر ضروری مسائل میں مبذول ہو رہی ہے تو اپنی ناکامی کی تاریخ ہم خود رقم کر رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے: خیر الناس انفعھم للناس، ترجمہ: لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے نفع بخش ہو۔
معلوم ہوا انسانوں کو جس چیز سے فائدہ پہنچے اس میں لگے رہنا بندہ کو کارآمد شخص بناتا ہے ورنہ وہ بیکار بن جاتا ہے۔

ہمارے ملک عزیز بھارت میں امت کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ایمانی، ثقافتی، شہری اور تہذیبی ایسے خطرناک پیہم اور منصوبہ بند حملے ہیں کہ اس سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے، عوامی مقامات پر اپنی اسلامی تشخص کا اظہار ناممکن سا ہو گیا ہے، مسلم نام آپ کو پچھلی صف میں دھکیلنے اور واجب حقوق سے محروم کر لینے کے لیے کافی ہے، آپ کی نظر سے غالبا ۲۰۲۳ کی وہ ویڈیو گزری ہوگی جس میں ملک کے وزیر اعظم مودی ایک تقریب میں اون لائن شریک ہیں اور ایک مسلم طالبعلم سید صادق حسین کا نام سوال کرنے کے لیے پکارا جاتا ہے، تو اس کے سوال سے پہلے مودی کہتا ہے "جے جگن ناتھ”، طالبعلم سن کر نمستے کہتا ہے، مودی دوبارہ وہی نعرہ دہراتے ہوئے کہتا ہے سنائی دیا، تو وہ مسلم مخاطب دیگر سامعین کے ساتھ جب تک وہ اس نعرہ کو نہیں دہرا لیتا مودی کو مخاطب نہیں کرپاتا۔
یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ نظریاتی جنگ یا آئیڈیالوجی کی سرد جنگ کا ایک فاتحانہ منظر ہے جس میں دائیں بازو کا نظریاتی اقتدار اور اقلیتوں کو اکثریت میں مدغم کردینے کی سازش کا پردہ کھلتا ہے، ایسا بارہا ہوا ہے حاکم اعلی سے راہ چلتے مسافر تک اور ایوان بالا سے گلی کوچے تک نقشہ بدلتا اور یک رنگی کلچر تھوپنے کا نظریہ جڑ پکڑتا نظر آتا ہے۔
شاید بہت سے فضلاۓ مدارس کا واسطہ سماجی زندگی میں غیر مسلم بھائیوں سے نہیں پڑتا کیونکہ ان کی ابتدائی تعلیم بھی مدارس میں ہوئی ہوتی ہے اور وہاں غیروں سے میل جول کے مواقع نہیں ہوتے، مزید ہمارے گاؤں دیہات بھی اور عموما گلی محلے بھی تقسیم کیے ہوئے ہیں تو لمبا واسطہ بہت کم پڑتا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے یا ساتھ میں ملازمت کرتے ہیں ان سے آپ پوچھیے پچھلے دس بارہ سال میں کتنا ماحول بدل چکا ہے، آپ تصور نہیں کر سکتے کتنا زہر ان میں گھولا جارہا ہے، شخصی طور پر ان تک رسائی کر کے مسلمانوں سے متنفر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، ایک صاحب نے ذکر کیا ان کا ایک قریبی غیر مسلم دوست ہے وہ بتا رہا تھا کہ روزانہ خاص میسج دیے جاتے ہیں کہ ان کی شاکھاؤں میں ایک بار آکر بات سنیں ان کو بہت ضروری معلومات حاصل ہوگی، نیز بہت منصوبہ بند طریقہ پر مسلمانوں کی غلط تصویر ان کے سامنے لائی جاتی ہے اور یہ احساس دلایا جاتا ہے اپنی اگلی نسل کو اگر یہ ملک آپ سونپنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو الگ رکھیں ان کے تو بیسیوں ملک ہیں وہ کہیں چلے جائیں گے لیکن آپ کے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے، پھر مغلوں کی حکومت اور ہندو لڑکیوں کے ساتھ زیادتیوں کے من گھڑت قصے سنا کر ورغلایا جاتا ہے، اب ایسے میں جن کا مضبوط تعلق کسی مسلم سے نہیں ہوتا اور وہ اس کے اخلاق و کردار سے واقف نہیں ہوتا تو بہت آسانی سے ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے اور نفرت کی آگ میں تپایا جاتا ہے۔
اب تو بات اتنی بڑھ گئی ہے اور ان نفرت کے سوداگروں کا جادو اتنا چڑھ گیا ہے کہ ایک مثال سے سمجھیے، ابھی حال ہی میں منگلور کرناٹک میں ایک مسلم نوجوان عبد الرحمن کے قتل کا واقعہ پیش آیا، اس قتل کے پیچھے جن شرپسند کٹرواد عناصر کا ہاتھ تھا ان میں ایک ہندو لڑکا وہ بھی تھا اس مقتول کا بہت قریبی دوست تھا، ایک ہی محلہ میں وہ رہتے تھے، اس ہندو لڑکے کی ماں کو ایک موقعہ پر ضرورت پڑنے پر اس مقتول نے اپنا خون بھی دیا تھا، انتہا پسند گینگ نے اس کا ایسا برین واش کیا کہ وہ اپنے پرانے دوست اور محسن کو قتل کرنے میں ساتھ دینے پر آمادہ ہو گیا حالانکہ ان کے بیچ ذرا بھی کوئی چپقلش یا منافرت نہیں تھی، یہ خون بالکل ایک بے گناہ کا اس مقصد سے لیا جارہا تھا کہ کچھ وقت پہلے ایک گروپ نے جس میں کئی مسلمان تھے ایک دائیں بازو کے گنڈے کو جو ہسٹری شیٹر تھا مار دیا تھا، بہر حال اس ہندو دوست کے ذریعہ ان انتہا پسندوں نے اس کو ایک مقام پر بلایا اور تلواروں سے گھیر کر حملہ کرا، وہ اس وقت تک شبہ بھی نہیں کرسکا کہ یہ اس کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ تو سمجھ رہا تھا یہ مذاق میں تلواریں نکال رہے ہیں لیکن جب ان لوگوں نے تابڑ توڑ اس پر وار شروع کیے تو وہ اپنا بچاؤ بھی نہ کرسکا، اس کے ہاتھ منھ گلا سب کاٹ دیا، اس کے ساتھ گاڑی میں دوسرا ساتھی سوار تھا وہ بھی شدید زخمی ہوا لیکن بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا، اس نے ہی یہ بیان ہسپتال سے پولیس کو ریکارڈ کروایا ہے۔
اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام آدمی کو بھی ذہن سازی کر کے کس قدر یہ نفرت کی بھٹی میں تپا سکتے ہیں اور ہندو مسلم دشمنی کا کیسا ماحول گرم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ایسے فکرانگیز ماحول اور موجودہ سنگین صورتحال میں ہماری عملی ترجیحات اور تعلیمی و سماجی اولویات کیا ہوں؟
یہ سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے، اگر ہم اس کا درست جواب تیار کر پا رہے ہیں اور اشد ضرورت کو مقدم رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے ہم کامیاب و کامران ہیں اور نافع و مفید ہیں، ورنہ وہ کام جن کا عملی فائدہ نہ ہو یا اشد ضرورت سے اعراض کرکے غیر ضروری کام میں پھنسنے کا باعث ہو تو ایسا ہے جیسے فرض سے غفلت برت کر نفل میں لگا جائے۔
ہمارے ملک میں جو چیلنجز پوری امت کو درپیش ہیں اور جن مشکلات سے پوری ملت اسلامیہ ہر روز دوچار ہے وہ ہمارے فکر و عمل اور دعوت و اصلاح کی تماتر سرگرمیوں کا محور بننے کے لائق ہیں، اگر ہم اس میں کوتاہی کر رہے ہیں اور فکر ونظر یا علم و عمل کا میدان ان چیزوں کو بنائے ہوئے ہیں جن سے آج اہل اسلام یا بنی نوع انسان کو عملا کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے تو ہم اپنی زندگی اور صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کر سکے اور نہ سیرت کا نمونہ اختیار کرسکے۔
آج بہت سے فضلاۓ مدارس عام طور پر جن موضوعات میں الجھے رہتے ہیں یا بہت سے نوزائیدہ فقہی مسائل کے واقفکار نماز و عبادات کے مخصوص مسائل کو حق و باطل کا معیار سمجھ کر اپنا مدعا ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے رہتے ہیں وہ مسلمانوں کے لیے کچھ بھلا کیا کرتے صفوں میں انتشار کا باعث ضرور بنتے ہیں۔
آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیے پھر امت کی عملی اصلاح اور دین کی سچی ترجمانی کے لیے میدان کار منتخب کریے چاہے وہ کتنا معمولی بظاہر نظر آرہا ہو لیکن اپنی ساری توانائیاں لگادیجیے، اللہ ضرور اخلاص کی بدولت اور سعی مسلسل کی برکت سے بڑے بڑے نتائج برآمد کرے گا۔
اللہ اس کی توفیق ہم سب کو عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔