انتخابات میں "میچ فکسنگ”

از:- ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی

بہار اسمبلی انتخابات سے قبل ایک مضمون کے ذریعے سے کانگریس کے سابق صدر و لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ا ن کا یہ مضمون ہفتہ ۷؍جون ۲۰۲۵ء کو روزنامہ’ انقلاب‘ سمیت ملک کے کئی معروف اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے شبہ ظاہر کیا ہےکہ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں جو کھیل ہوا ہے، اسے بہار میں بھی دوہرایا جاسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘۔یہی وجہ ہےکہ راہل گاندھی نے سال رواں کے آخر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کی جاری مہمات و سرگرمیوں کے درمیان ان شبہات کا بر ملااظہار کرکے الیکشن کمیشن کی شفافیت پر جہاں سوالات کھڑے کیے ہیں، وہیں کمیشن کی پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے ۔ انتخابات میں میچ فکسنگ جیسی بات کہہ کر انہوں نےایک تیرسے کئی نشانے سادھے ہیں۔اس لئےمضمون کے شائع ہونے پر بی جے پی کی طرف سے راہل گاندھی کو ہدف تنقیدبنایا جانایقینی تھا۔زعفرانی پارٹی کے کئی لیڈروں نے کانگریس رہنما پر شدید حملہ بولتے ہوئے کہاکہ’تمام عمر یہی غلطی کرتے رہے،دھول چہرے پر تھی آپ آئینہ صاف کرتے رہے۔

آگے بڑھنے سےپہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر راہل گاندھی نے اپنی تحریر میں ایسا کیا لکھاکہ جس سے بی جے پی خیمہ میں آگ لگ گئی ہے اوراس کے لیڈران بیک وقت کانگریس پر ٹوٹ پڑے ہیں تو دوسری طرف الیکشن کمیشن نے بھی مورچہ سنبھالا ہواہے۔دراصل راہل گاندھی نے اپنے مضمون لکھاہے کہ الیکشن میں دھاندلی بھی میچ فکسنگ جیسی ہوتی ہے۔جو فریق دھاندلی کرتا ہے، وہ بھلے ہی جیت جائے، لیکن اس سے جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں اور عوام کا نتائج سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ انہوںنے الزام لگایا کہ۲۰۲۴ء کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات ’جمہوریت کی دھاندلی کا بلیو پرنٹ‘ تھے۔ یہی ’میچ فکسنگ‘ اب بہار میں دوہرائی جائے گی اور پھر ان جگہوں پر بھی ایسا ہی کیا جائے گا جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی ہار رہی ہے، چنانچہ’میچ فکسنگ‘ انتخابات جمہوریت کے لیےزہر ہلاہل ہیں۔ راہل گاندھی نےمہاراشٹر کی مثال کیوں پیش کی، اس کی کئی وجوہات ہیں، جن پرمابعد انتخابات اور نتائج آنے کے بعدکافی چرچہ ہوئی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے وضاحت پر وضاحت آتی رہی، لیکن مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی سب سے چونکادینے والی بات یہ تھی کہ چناؤ سے قبل کےجتنے سروے آرہے تھے ان سب میں کانگریس،این سی پی شردپوار گروپ اور شیوسینا ادھو گروپ کے اتحاد(مہاوکاس اگھاڑی) کو واضح برتری دی جارہی تھی، کیوںکہ چند ماہ قبل ہوئے لوک سبھا انتخابات میں’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کو بی جے پی اتحاد برتری حاصل رہی تھی، اس لئے سروے ایجنسیوں کے اعدادو شمار پر لوگ بھروسہ کرتےہوئے مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت کی واپسی کی بات کرنے لگے ، لیکن انتخابات سےماہ ،ڈیڑھ ماہ قبل بی جے پی اور اس کے اتحادی گروپ ( مہایوتی)نے ایسا کیا’کھیل ‘ کردیا کہ سیاست کی پوری بساط ہی پلٹ گئی ۔ مہایوتی نےتمام سیاسی پنڈتوں کو بھی حیران کردیا۔ان انتخابات میں اکیلے بی جے پی نے ۲۸۸؍ میں سے ۱۳۲؍سیٹوں پر بڑی جیت حاصل کی، جبکہ اس کی حلیف شیوسینا کو ۵۷؍اور این سی پی کو ۴۱؍سیٹیں مل گئیں، جس کی کسی کو بھی امید نہیں تھی ۔تقریباً یہی صورت حال بہار کی ہے۔حالانکہ ابھی چناو کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے، تاہم اتنا طے ہےکہ اسی سال کے آخرمیں ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات ہوںگے جس کے لئے حکمراںاور اپوزیشن اتحاد کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔خاص کر بی جے پی اس بار بہار میں کوئی غلطی نہیں کرناچاہتی ہے۔ اس لئےوزیر اعظم نریندرمودی کے پے درپے بہارکے دورے ہو رہےہیں اورمرکزکی طرف سے مختلف ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں انعامات کی بارش ہورہی ہے، حالانکہ اس دوران اپوزیشن کی طرف سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ پچھلی بار وزیر اعظم نریریند رمودی نے جو وعدوں کی بوچھا رکی تھی، ان کا کیا ہوا۔؟اس باربھی ان کا وعدہ’ وعدہ ٔفردا ‘ثابت ہوگا، جو کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے۔کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہےکہ جس طرح سے پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں وزیر اعظم مودی ،وزیر داخلہ امت شاہ ،یو پی اور آسام کے وزرائے اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ہیمنت بسوا سرماکےذریعے تمام تر طاقت جھونکنے کے باوجود کچھ ہاتھ نہیں لگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح بہار میں بھی بی جے پی کا حشر ہونے والا ہے، کیوںکہ بہار کی سیاست پوری طرح ذات پات پر منحصر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اس بار حالات مختلف ہیں جس میں علاقائی پارٹیاں اور پرشانت کشور کی نئی پارٹی’جن سوراج‘کی حکمت عملی بھی بڑی پارٹیوں کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔اس لئے راشٹریہ جنتادل(آرجے ڈی)اور بی جےپی دونوں کے لئے اپنے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا اور سیٹوں کی تقسیم بڑا چیلنج ہے۔ اس میں معمولی لغزش بھی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔خاص کر آرجے ڈی اور کانگریس کے درمیان تال میل ازحد ضروری ہے۔ دونوں طرف کے لیڈروں کو اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی، ورنہ ہوا کا رخ یک لخت تبدیل ہوجاتاہے، جیسا کہ ۲۰۲۴ء میں مہاراشٹرمیں ہوا، جس کی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے اپنے مضمون میں مثال دی ہے اور اپنے خدشہ کا اظہار کیا۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے جب راہل گاندھی نے انتخابی دھاندلیوں پر اپنی آواز بلند کی ہو، بلکہ وہ ای وی ایم سمیت انتخابات سے متعلق کئی ایشوز کو مسلسل زور وشور سےاٹھاتے رہےہیں۔ چاہے کسی ریاست میں ان کی پارٹی کی جیت ہوئی ہو یا شکست۔جبکہ دوسری پارٹیاں انتخابات میں کامیابی ملنے پر ای وی ایم میں ہیرا پھیری جیسی شکایتوں کو نظر انداز کردیتی ہیں، مگر راہل گاندھی اپنے قول پر قائم رہےہیں۔ اس بار بھی یہی صورتحال ہے، جب الیکشن کمیشن کی طرف سےان کے الزمات کو مضحکہ خیز بتایا گیا تو راہل گاندھی خاموش نہیں بیٹھے، بلکہ انہوں نے ایکس پر ایک لمبی پوسٹ کے ذریعے یہ چیلنج کردیا کہ اگر انتخابی کمیشن حق بجانب ہے تو ان کے سوالات کا سلسلہ وار جواب دے۔ الیکشن کمیشن کا کہناہےکہ انتخابی نظام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ دنیا اس کی تعریف کرتی ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ ہر انتخابی عمل بشمول فہرستوں کی تیاری، پولنگ اور ووٹوں کی گنتی وغیرہ سرکاری ملازمین و سیاسی نمائندوں کی موجودگی میں انجام دیے جاتے ہیں، کسی کی طرف سے پھیلائی گئی کوئی بھی غلط معلومات نہ صرف قانون کی توہین ہے،بلکہ ان کی اپنی سیاسی جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہزاروں نمائندوں کی بھی توہین ہے۔ اس طرح کی کوششیں ان لاکھوں انتخابی اہلکاروں کے حوصلے پست کرتی ہیں جو انتخابات کے دوران انتھک محنت اور شفاف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ پہلے بھی اپنے جواب میں تمام حقائق پیش کیے تھے جو کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں، تاہم الیکشن کمیشن کے سخت رد عمل پر راہل گاندھی نےلکھاکہ،اگر آپ کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو میرے مضمون میں دیے گئے سوالات کے جواب دیں اور اسے ثابت کریں۔انہوں پیش کردہ سوالات کو بھی سوشل میڈیا پوسٹ میں درج کیا ہے اور الیکشن کمیشن کو اس کا جواب دینے کے لیے چیلنج کیا ہے اوریہ لکھاہےکہ ’ٹال مٹول کرنے سے نہیں، بلکہ سچ بولنے سے آپ کی ایمانداری ثابت ہوگی۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔